(سکندربشیر)
ریاست کا تصور اپنے ساتھ ناگزیر طور پر سیاست کا پرتو رکھتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جہاں پر ریاست ہوگی وہاں پرلازمی طور سیاست ہوگی۔ ایک ریاست کی گوناں گوں ضرورتیں ہوتی ہیں اور وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ جہاں اس کی ضرورتیں بڑھتی ہیں وہی اسکے مسائلوں میں بھی اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ ریاست کی انہی ضرورتوں سے نمٹنے اور انہی مسائلوں کا سدباب کرنے کوہم سیاست کہتے ہیں۔ ایک ریاست کی ضرورتوں سے نمٹنا اور مسائلوں کا تدارک کرنا اپنے آپ میں مشکل ترین کام ہے۔تاہم یہ ایک عظیم کام بھی ہے۔ بہرحال سیاست اپنے آپ میں مشکل ترین اور عظیم کام ہے۔
اب اگر کسی ریاست کے اندر مختلف مذاہب اور تمدنوں کے لوگ رہتے ہوں تو ایسی ریاست کی سیاست اور بھی مشکل اور نازک ہوجاتی ہے۔ کیونکہ ایسی کسی ریاستمیں کوئی بھی سیاسی اقدام کرنے سے پیشتر ہر مذہب اور تمدن کے لوگوں کے جذبات پیش نظر رکھنے پڑتے ہیں۔
چونکہ ہمارا کشمیر بھی ایک ریاست ہے۔ لازمی طور اسکے بھی مسائل ہیں۔ اور پھر یہ ایک ایسی ریاست ہے جسکے اندر مذہب ہا اور تمدن ہا بودباش رکھتے ہیں۔ اسطرح اسکے مسائل مشکل اور نازک بھی ہیں۔ اسلیے یہاں کوئی بھی سیاسی قدم اٹھانے سے پہلے ہزاربار اسکے نتائج پر نظر کرنی ناگزیر ہے۔ کسی ریاست کا معاملہ اور بھی نازک ہوجاتا ہے جب وہ ریاست کسی وفاق کے ساتھ ملحق ہے۔
ہماری ریاست جموں کشمیر کے اندر جہاں مختلف مذاہب اور تمدنوں کا مسکن ہے وہی اسکا الحاق ایک عظیم وفاق ،ہندوستان ،کے ساتھ بھی ہے۔ جس سے اسکی سیاست صرف مشکل اور نازک ہی نہیں بلکہ پیچیدہ نوعیت بھی رکھتی ہے۔ وہ اسطرح کہ وفاق کے ساتھ ملحق جملہ ریاستوں کے مسائل جہاں نوعیت کے اعتبار سے مقامی ہوتے ہیں وہی بر وقت انکا براہ راست یا بلاواسطہ اثر وفاق کے مرکز پر بھی پڑتاہے۔
ہر ریاست کو ایک گھر فرض کیاجائے۔ جسطرح ایک گھر کے اندر معاملات اور مسائل ہوتے ہیں۔اور جسطرح گھر کے معاملات اور مسائل سویر یا بدیر حل ہو جاتے ہیں۔ اسی طرح ریاست کے معاملات بھی قابل حل ہوتے ہیں۔لیکن نوعیت اور کیفیت کے اعتبار سے ریاست کے مسائل گہرائی اور گیرائی میں کسی ایک گھر کے مقابلے میں بہت زیادہ وسیع ہوتے ہیں ، مگر قابل حصول ہوتے ہیں!
ایک ریاست کے اندر زیادتی کے امکان بھی موجود ہوتے ہیں۔ مگر اس زیادتی کے خلاف قانونی چارہ جوئی کی جا سکتی ہے، قانون کا دائیرہ اگر کم پڑتا محسوس ہو تو احتجاج کیا جا سکتا ہے،ہڑتال اور بھوک ہڑتال کے زریعے بھی احتجاج کیا جا سکتا ہے۔
جسطرح گھر کے معاملات اور مسائل حل کرنے کے لیے افراد خانہ ایک دوسرے پربندوقیں تان نہیں لیتے ہیں اور ایک دوسرے پر بم پھینکتے نہیں ہیں بلکہ بات چیت کے ذریعے اور ثالثی کے ذریعے مسائل کا حل نکال لیتے ہیں۔ اسی طرح ریاست کے مسائل بھی حل ہوتے ہیں۔ریاست چونکہ طول اور عرض کے اعتبار سے گھر کے مقابلے میں وسیع ہوتی ہے، اسلیے یہاں صبر اور وقت بھی وسعت کا تقاضہ کرتا ہے۔ ریاست کے معاملے میں کسی مسئلے کا حل راتوں رات چاہنا ایسا ہی ہے جیسے بن بادل کے برسا ت کی توقع کرنا!
ہمارے گھر کے جن افراد اور اشخاص نے مسائل کے حل کے لیے اپنے ہی افراد خانہ پر بندقیں تان لیں انہوں نے جہالت کا ثبوت کا دیا۔ جن افراد نے بازاروں میں بم پھینکے انہوں نے شقاوت اور قساوت کا ثبوت دیا۔ انہوں نے اس بات کا ثبوت دیا کہ وہ تہذیب ، شائستگی اور انسانیت سے بہت دور جا پڑے ہیں۔
جنہوں نے اپنے گھر کی بہو بیٹیوں کے سہاگ چھین لیے اور عمر بھر کے لیے انہیں ستی کی چتاپرجلنے اور جھلسنے کے لیے چھوڑ دیا۔ کیا انکا رشتہ انسانیت کے ساتھ ہو سکتا ہے؟ جنہوں نے بچوں کے سروں سے سہارے چھین لیے اور انہیں یتیمی کے تپتے صحرا میں سسکنے اور تڑپنے کے لیے چھوڑ دیا ۔کیا انکا تعلق شائستگی اور تہذیب کے ساتھ ہو سکتا ہے؟ جنہوں نے ہزار ہا ماں باپ کی آنکھوں سے انکی امیدوں کا نور چھین لیا اور عمر بھر کے لیے بے نور کر دیا۔ کیا انکا رشتہ انسانیت اوراخلاق سے ہو سکتا ہے؟
یہ لوگ جنہوں نے بندوق سے۔ یعنی تشدد سے۔یعنی گولیوں اور بموں سے۔ اپنے گھر کے مسائل حل کرنے چاہے ٹھنڈے دل و دماغ سے سوچ لیں کہ کیا انہوں نے مسلے واقعی حل کیے ؟حل تو در کنار بلکہ اس بندوق ۔اس تشدد۔ان گولیوں ۔اور ان بموں نے بیواؤں ، یتیموں اور ناداروں کی صوررت میں گوناں گوں مسائل کو جنم دیا ہے۔اخلاقی مسائلوں کو جنم دیا ہے۔معاشرتی مسائلوں کو جنم دیا ہے۔ ریاستی اور وفاقی سطح پر ایسے سیاسی مسائل پیدا کئے جن کا تدارک اب شاید ہی ممکن ہو۔یہ لوگ شوچیں کہ بندوق نے ہمارے اس گھر کو جہالت او ر شقاوت کے سوا دیا کیاہے؟