عالمی یوم مزدور اگرچہ یہ یکم مئی کو پوری دنیا میں منایا جاتا ہے تاہم وادی کشمیر میں اس دن کی اہمیت زیادہ ہے کیوں کہ وادی کشمیر میں آبادی کا ایک بڑا حصہ محنت کشوں پر مشتمل ہے جس میں دستکار، چھوٹے تاجر، شکارے والے ، قالباف، شالباف وغیرہ شامل ہے اور اپنی روزی روٹی محنت و مشقت کرکے اپنے اہل و عیال کو پال رہے ہیں ۔ جیسا کہ یہ بات عیاں ہے کہ وادی کشمیر آبادی کے لحاظ سے کافی بڑا خطہ ہے جہاں پر زیادہ تر لوگ یومیہ مزدوری پر انحصار کرتے ہیں جبکہ باہر کی ریاستوں سے بھی مزدور طبقہ سے وابستہ لوگ یہاں آکر اپنا روز گار کماتے ہیں ضروری نہیں کہ ایک بڑی آبادی متناسب طور پر بڑی لیبر فورس کے برابر ہو، کیونکہ شرکت کی شرحیں عمر کی آبادی، تعلیم کی سطح، جیسے عوامل کی بنیاد پر مختلف ہو سکتی ہیں۔بین الاقوامی یوم مزدور کی جڑیں 19ویں صدی کے اواخر سے ملتی ہیں جب ریاستہائے متحدہ اور یورپ میں مزدوروں نے کام کے بہتر حالات، آٹھ گھنٹے کام کے دن اور مزدوروں کے دیگر حقوق کی وکالت کی۔ 1886 میں شکاگو میں مزدور تحریک کی یکجہتی اور لچک کی یاد میں یکم مئی کو عالمی یوم مزدور کے طور پر منانے میں اہم کردار ادا کیا۔ دوسرے خطوں کے مقابلے کشمیر میں مزدوروں کی بڑی تعداد کا تصور ایک ایسا موضوع ہے جو قریب سے جانچنے کی ضرورت ہے۔ اگرچہ کشمیر میں ایک قابل ذکر افرادی قوت موجود ہے، لیکن اس کا ذمہ دار صرف ایک بڑی آبادی یا معاشی عوامل کو قرار دینا صورتحال کو آسان بنا سکتا ہے۔ کشمیر میںمزدوروں کا عالمی دن یادگاری تقریبات، بیداری مہم، اور مزدوروں سے متعلقہ مسائل پر بات چیت کے ساتھ منایا جاتا ہے۔یہ دن زراعت، دستکاری، سیاحت اور عوامی خدمات سمیت مختلف شعبوں میں کارکنوں کی انمول شراکت کو تسلیم کرنے کے لیے ایک پلیٹ فارم کے طور پر کام کرتا ہے۔ محنت کے جذبے کا جشن مناتے ہوئے کشمیری محنت کشوں کو درپیش چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے یہ بہت ضروری ہے۔ بے روزگاری، کم روزگار، اجرت میں تفاوت، سماجی تحفظ کے اقدامات کا فقدان، اور پیشہ ورانہ تحفظ کے خدشات کچھ اہم مسائل ہیں جن پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ غیر رسمی شعبہ جس کی خصوصیت خود روزگار، چھوٹے کاروبار، اور غیر رسمی ملازمتیں ہیں، کشمیر میں اسی طرح پھیلی ہوئی ہے جیسا کہ یہ بہت سے دوسرے خطوں میں ہے۔ یہ سیکٹر اکثر افرادی قوت کے ایک اہم حصے کو ملازمت دیتا ہے لیکن ہو سکتا ہے کہ اسے ہمیشہ سرکاری لیبر فورس کے اعدادوشمار میں مناسب طور پر نہیں لیا جاتا۔ بے روزگاری کی شرح مختلف آبادیاتی گروپوں میں مختلف ہو سکتی ہے نوجوانوں کی بے روزگاری ایک خاص تشویش ہے۔خطے میں تنازعات اور سیاسی عدم استحکام نے بہت سے مزدوروں کے معاشی مواقع اور روزی روٹی کو بھی متاثر کیا ہے۔ کشمیر میں مزدوروں کا عالمی دن نہ صرف چیلنجوں کو تسلیم کرنا ہے بلکہ مزدوروں کو بااختیار بنانے اور ان کے حقوق کی وکالت کرنے کے بارے میں بھی ہے۔ ٹریڈ یونینز، سول سوسائٹی کی تنظیمیں، اور حکومتی ایجنسیاں مزدوروں کے حقوق، منصفانہ اجرت، کام کی جگہ کی حفاظت، اور سماجی تحفظ کی اسکیموں پر توجہ مرکوز کرنے والے سیمینارز، ورکشاپس، اور ریلیوں کے انعقاد میں تعاون کرتی ہیں۔ خواتین کشمیر میں لیبر فورس کا ایک اہم حصہ ہیں جو مختلف شعبوں میں بہت زیادہ حصہ ڈال رہی ہیں۔مزدوروں کا عالمی دن صنفی مساوات پر زور دیتا ہے اور خواتین کارکنوں کو بااختیار بنانے، فیصلہ سازی کے عمل میں ان کی نمائندگی کو یقینی بنانے اور کام کی جگہوں پر صنفی بنیاد پر امتیازی سلوک سے نمٹنے کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے۔ عالمی معیشت اور تکنیکی ترقی نے کشمیر میں مزدوروں کے منظر نامے کو بھی متاثر کیا ہے۔ اگرچہ یہ پیشرفت مہارت میں اضافے اور معاشی ترقی کے مواقع فراہم کرتی ہے۔جہاں پوری دنیا میں کووڈ 19وبائی مرض کی وجہ سے مزدور طبقہ سب سے زیادہ متاثر رہا اسی طرح وادی کشمیر میں بھی یومیہ مزدوروں کو اس وبائی بیماری کے دوران سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا ۔ جبکہ ہیلتھ ورکز، صف اول پر کام کرنے والے خاکروبوں وغیرہ کی محنت اور ان کی لگن ایک مثالی خدمات تھیں۔ وبائی مرض نے تمام کارکنوں کے لیے سماجی تحفظ کے اقدامات اور صحت کی دیکھ بھال تک رسائی کی اہمیت پر بھی زور دیا۔ جیسے جیسے کشمیر سماجی و اقتصادی ترقی اور قیام امن کی کوششوں کی طرف بڑھ رہا ہے۔وادی کشمیر میں جہاں مقامی افراد کا ایک بہت بڑا حصہ خود مزدور طبقہ ہے تاہم دیگر ریاستوں سے آنے والے بھی یہاں پر مختلف جگہوں پر کام کرتے ہیں لیکن بہت سے مزدوروں کو دہشت گردوں کے ذریعہ نشانہ بنایا جا رہا ہے کیونکہ وہ اپنی روزی روٹی کما رہے ہیں بہت سے ایسے واقعات دیکھے گئے جہاں مزدوروں کو بغیر کسی وجہ کے نشانہ بنایا گیا۔ یہ بزدلانہ حرکت بند ہونی چاہیے اور حکام اور مقامی لوگوں کو ان ہلاکتوں پر پہل کرنی چاہیے۔ اس کے ساتھ ساتھ مزدوروں کی فلاح و بہبود کےلئے کام کیا جانا چاہئے اور ان کو اپنے حقوق کے بارے میں نہ صرف جانکاری فراہم کی جانی چاہئے بلکہ ان کے حقوق کےلئے اداروں کو بھی جوابدہ بنایا جانا چاہئے ۔ اس میں لیبر قوانین کو مو¿ثر طریقے سے نافذ کرنا، منصفانہ اجرت کو فروغ دینا، مہارت کی ترقی کے مواقع فراہم کرنا، کام کی جگہ کی حفاظت کو یقینی بنانا، اور مزدوروں کے حقوق کی وکالت اور اجتماعی سودے بازی کے لیے سازگار ماحول کو فروغ دینا شامل ہے۔جس قدر وادی کشمیر میں مزدور طبقہ کی زندگی آسان ہوگی اور ان کو حقوق فراہم ہوں گے اسی قدر وادی میں تیز تر ترقی اور سماجی بدلاﺅ بھی ممکن ہے ۔