آصف اقبال شاہ
ماہِ صیام اُمّتِ مسلمہ پر سایہ فگن ہوچکا ہے۔چہار دانگ عالم میں رہایش پذیر فرزندانِ توحید خُدا وندِ قدوس کے حکم کو بجالانے کے سلسلے میں روزہ رکھتے ہیں۔روزہ کا لبِ لباب بارگاہِ ایزدی کے سامنے اپنے آپکو تقویٰ شعار پیش کرنا مطلوب ہے اور ہمدردی،ایثار، نفسانی خواہشات پر لگام کسنا مقصود ہے۔ رمضان المبارک کو شھرُ القرآن کے نام سے بھی جانا جاتا ہے کیونکہ اس مہینے میں قران مجید نازل ہوا ہے۔ عام لفظوں میں اس مہینے کو نیکیوں کا موسمِ بہار کہا جاتا ہے کیونکہ اس میں نیکی آسان اور بدی کو انجام دینا مشکل بن جاتا ہے۔ ماہِ صیام تمام مہینوں کا سردار ہے جسمیں نفل ادا کرنے پر فرض کا ثواب مل جاتا ہے اور فرض کے ادا ہونے پر ستّر فرضوں کا ثواب حاصل ہوتا ہے۔ غریبوں،مسکینوں،محتاجوں،ناداروں اور کمزور لوگوں کی اعانت کرنا اس مہینے کا طُرہ امتیاز ہے جسمیں لوگ جود و سخا کا دامن وسیع کرکے مستحقین کی مدد کرتے ہیں ۔صبحِ صادق سے غروبِ آفتاب تک بھوکا رہنا روحانی ایک ٹریننگ ہے جس سے بے شمار فائد طبعی اعتبار سے حاصل تو ہوتے ہیں لیکن اور نفسانی خواہشات پر کنڑول کرنے کا ایک بہترین اور سازگار ماحول ہوتا ہے۔ اس ٹریننگ سے غریب لوگوں کی بھوک کا احساس بھی ہوتا ہے اور مرًوت اور موّدت کا جذبہ بھی اُبھر جاتا ہے۔رمضان المبارک کو راضی کرنے والے لوگوں کے لئے ایک خاص درواز ہ ہےجس سے ریّان کہتے ہیں جہاں سے روزہ دار جنّت میں داخل ہونگے اور پھر کبھی پیاس محسوس نہیں کرئینگے۔روزہ دار کے متعلق خُدا وندِ قدوس نے فرمایا روزہ میرے لئے اور میں ہی اسکا اجر ہوں۔ روزہ دار کے لئے احادیث میں کئ ساری بشارتیں وارد ہیں لیکن ساتھ میں گناہوں سے اجتناب کرنے کا حکم بھی دیا گیا ہے۔ غیبت،کذب بیانی،بہتان تراشی،حرام کمائ،ظُلم و جبر ،نا انصافی اور عیب جوئ سے دور رہنا روزہ کا بنیادی مقصد ہے۔۔۔۔۔
کیا ماہِ صیام کے اس تربیتی کورس سے ہماری زندگی میں کوئ انقلاب پیدا ہوجاتا ہے۔؟ ہاں ایک بات ضرور ہے کہ لوگوں میں سخاوت کا جذبہ بڑھ جاتا ہے،مساجد میں تِل دھرنے کی جگہ نہیں رہتی، لیکن اجتماعی امداد کا مزاج پیدا نہیں ہوپارہا ہے جس سے مقامی سطح پر ہزاروں لوگوں کی بہتر انداز میں بھرپور معاونت ہوسکتی ۔یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ خواہشات کو کنٹرول کرنے میں ہم بہت کمزور ثابت ہوتے ہیں ۔ مُختلف پکوانوں کی فکر میں پیسے کے ساتھ ساتھ قیمتی وقت ضایع ہوجاتا ہے اور یہ کام صرف اور صرف عورتوں کو انجام دینا پڑتا ہے۔ افطار اور سحری کے لئے مُختلف پکوان تیار کرنا،افرادِ خانہ کو کھانا پیش کرنا،بچّوں کو سکول کے لئے تیار کرنا،گھریلو کام وقت پر ادا کرنا اور رات دیر گئے تک کچن میں برتنوں کو دھونا ایک عورت کا کام سمجھا گیا ہے اور پھر معمولی نمک کی کمی پر اُنہیں ڈانٹ پلانا روز کا معمول بن چکا ہے۔ ماہِ صیام میں مرد حضرات کو چاہیے کہ وہ خواتین کے کاموں میں ہاتھ بٹائں آخر اُنکا بھی روزہ ہے اور وہ بھی انسان ہی ہیں۔ اس وقت عالمِ اسلام بے شمار مسائل سے دوچار ہیں اور ایسے میں فروعی مسائل پر مناظرہ بازی کرنے کے بجائے اُمّت کی بہبودی اور سرخروی کے لئے دعاوں کی محفلیں سجانے کی ضرورت ہے۔ خدا کرے یہ رمضان المبارک ہم سب کی نجات کا ذریعہ بن جائے۔