پاکستان میں صحافیوں کی ہلاکت اور اغواکاری کا دراز سلسلہ
صحافتی کسی بھی ملک میں جمہوریت کا ایک اہم ستون مانا جاتا ہے تاہم پاکستان میں اس ستون کو زمین بوس کردیا گیا ہے ۔ آئے روز جرنلسٹوں کو دھمکیاں ملتی ہیں اور آج تک سینکڑوں صحافیوں کو سچ بولنے اور لکھنے کی پاداش میں غائب کردیا گیا ہے ۔ ابھی حال ہی میں ایک نامور ٹی وی جرنلسٹ سمی ابراہیم کونامعلوم افراد کو اس بات پر اغوا کرلیا کیوں کہ انہوںنے سابق وزیر اعظم پاکستان عمران خان کی حمایت کی تھی ۔ پاکستانی ٹیلی ویژن چینل بول ٹی کے ساتھ کام کرنے والے سمی ابراہیم کے اہلخانہ کے مطابق اس کو سرکاری ایجنسیوں نے اغوا کرلیا ہے ۔ موصوف جرنلسٹ کوکہاں پر رکھا گیا اس حوالے سے اس کی فیملی کو کچھ نہیں بتایا گیا جن کو اس کے تحفظ سے متعلق خدشات ہیں۔ اسی طرح ایک اور جرنلسٹ ریاض خان کو سیالکوٹ انٹرنیشنل ائر پورٹ سے پولیس پارٹی نے گرفتار کرلیا اور ہنوز اس کا کہیں اتہ پتہ نہیں ہے اور ناہی اس کو کسی معاملے میں کسی عدالت میں پیش کیا گیا ۔ ریاض خان کے برادر عثمان خان نے الجزیرہ سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کے بھائی کی گمشدگی کے بعد انہیں بتایا گیا تھا کہ ریاض کو سیالکوٹ پولیس سٹیشن پہنچایا گیا لیکن وہاں پہنچنے پر پولیس نے گرفتاری سے لاعلمی کا تعلق قراردیا ۔ اعداد وشمار کے مطابق دو دہائیوں میں 97سے زائد صحافیوں کا قتل اور غائب کرنے کے واقعات رونماءہوئے ہیں ۔ 18فروری 2011میں ایک فری لانس جرنلسٹ عبدالدوست رند غائب ہوا۔ 29اگست 2008کو عبدالعزیز شاہین کو گولی سے مار دیا گیا۔اسی طرح 2012میں 29ستمبر کو اے آر وائی ٹیلی ویژن سے وابستہ عبدالحق بلوچ کو اغوا کرکے اسے غائب کردیا گیا تھا۔ اسی سال 28مئی کو WASH TVکے عبدالقادر حاجی زائی ، نومبر 2008کو روئل ٹی وی کے ساتھ کام کرنےوالے عبدالرزاق جوہرا کو گولی مار کر قتل کردیا گیا ۔ دسمبر 2010کو نیو زایکسپریس کے عبدالوہاب ،18مارچ 2021کو اجاے لال وانی جو کہ ڈیلی پچانو اور رائل ٹی وی کے ساتھ کام کرتے تھے ۔ 7فروری 2005کو خیبر ٹی وی کے الٰہ نور کو مار دیا گیا ۔ اسی طرح سال2005فروری سات کو ایسوسیٹ پریس ٹیلی وژن اور فرنٹیر پوسٹ سے کام کرنے والے عامر نواب کو ہلاک کردیا گیا۔ ستمبر 8سال 2015کو جیو ٹی وی کے ارشد علی جعفری کا قتل کردیا گیا۔ فری لانس جرنسلٹ اسداللہ کو سال 2001یکم ستمبر کو ہلاک کردیا گیا ۔ گیارہ جون 2011کو اسفند یار خان کو قتل کردیا گیا ۔اشرف ایئرین جو کہ ایکسپریس ٹیلی ویژن کے ساتھ کام کرتے تھے کو سال 2014کو جنوری 17کو قتل کردیا گیا ۔اسلم درانی ڈیلی پاکستان کے ساتھ کام کرنے والے صحافی کو سال 2013میں اپریل کے مہینے میں ہلاک کردیاگیا۔کوائش ٹیلی ویژن نیٹ ورک کے اورنگزیب تانیو ، کو مئی 10سال 2012میں قتل کردیا گیا ۔ اسی طرح اکتوبر گیارہ سال 2013کو کارک ٹائمز کے ایو ب کھٹک کو ہلاک کردیاگیا ۔ سماءٹی وی کے عزمت علی بنگاش کو سال 2010میں اپریل کے مہینے میں ہلاک کیا گیا تھا۔ عزیز میمون ڈیلی کیوش ، کے ٹی این نیوز کے صحافی کو 17فروری 2020میں قتل کردیا گیا۔
پاکستان میں ذرائع ابلاغ پر قدغن اور دباﺅ ، صحافیوں کا قتل اور غیر قانونی حراست کے واقعات کی فہرست لمبی ہے ۔ یہ معاملہ صرف صحافیوں تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ سیاسی سماجی کارکنوں خاص کر انسانی حقوق کے کارکنوں کا بھی ہے ۔ اب تک سینکڑوں سیاسی کارکن ، سماجی اور انسانی حقوق کے علمبردار غائب ہوئے ہیں۔ پاکستان میں کوئی بھی نام نہاد جمہوری حکومت ہو ، چاہئے فوجی ڈکٹیٹر جنرل پرویز مشرف کا دورہ ہو ، نواز شریف کی حکومت ہو ، عمران خان یاپھر شہباز شریف کا دور اقتدار ہو ۔ پاکستان میں ہر دور میں اس طرح کے واقعات پیش آئے ہیں اور آتے رہیںگے کیونکہ اس ملک میں عملی طو رپر فوج کا کنٹرول ہے اور فوجی اسٹبیلشمنٹ اور اس کی پالیسی کے خلاف کوئی بھی انسان آواز نہیں اُٹھاسکتا ۔قائرین کو یاد ہوگا کہ پرویز مشرف کے دور میں جب وہ فوجی سربراہ تھے تو اُس وقت نواز شریف کی حکومت تھی اور جب تک نواز شریف فوج کے اشاروں پر چلتے رہے ان کی حکومت سلامت رہی اور جب اس سے کسی بات کو ماننے سے انکار کیا تو سابق فوجی سربراہ پاکستان مرحوم پرویز مشرف نے نواز شریف کی حکومت کا تختہ پلٹ دیا اور ملک پر فوجی حکومت قائم کرکے خود راج کرنے لگے ۔ پاکستانی عوام کو ان فوجی سربراہوں نے اپنا غلام بنا کے رکھا ہے ۔اگر کہیں پر بھی کوئی صحافی یا ذرائع ابلا غ کا ادارہ فوج کی انا کے خلاف بات کرتا ہے تو یا تو اس کے صحافیوں کو کھلی دھمکیاں ملتی ہیں اور اگر وہ سچ کہنے سے باز نہ آئیں تو ان کو مختلف فرضی کیسوں میں پھنسا کر جیل کی نذر کردیا جاتا ہے اور اگر اس پر بھی بات نہ بنے تو ان کو غیر قانونی طور پر حراست میں لیکر ان کو ابدی نیند سلادیا جاتا ہے ۔ آئے روز اس طرح کے واقعات پاکستان میں پیش آتے ہیں۔ عالمی صحافتی اداروں ، انجمنوں اور ایجنسیوںنے بار ہا اپنی رپورٹ میں پاکستان میں میڈیا کے خلاف اس طرح کی کارروائیوں کی مذمت کی اور پاکستانی حکومت سے جواب طلب کیا تاہم پاکستان کی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ۔
پاکستان کشمیر میں بھارت کے خلاف درپردہ جنگ جاری رکھے ہوئے ہیں
حال ہی میں جنوبی کشمیر کے ضلع اننت ناگ میں پاکستانی ایجنسیوں کی ایماءپر ایک بزدلانہ کارروائی میں دہشت گردوں...
Read more