Friday, May 16, 2025
  • Contact
  • About us
  • Advertise
  • Careers
  • Privacy Policy
Gadyal Kashmir
  • Home
  • Kashmir
  • Jammu
  • World
  • National
  • Sports
  • Article
  • ePaper
No Result
View All Result
Gadyal Kashmir
Home Opinion Article

گلگت بلتستان سمیت پورے منقسم جموں کشمیر کی اصل حقیقت

Gadyal Desk by Gadyal Desk
29/12/2022
A A
BRIDGING OUR DESTINY- GILGIT BALTISTAN
FacebookTwitterWhatsappTelegram

 

جموں کشمیر رقبہ کے لحاظ سے ملک کی پانچویں بڑی ریاست ہے تاہم موجودہ وقت میں جموں کشمیر چار حصوں میں بٹی ہوئی ہے ایک حصہ پاکستان کے زیر قبضہ ہے ایک حصہ چین کے زیر تسلط ہے اور لداخ تیسرا حصہ ہے جبکہ ملک کا تاج کہلانے والا ایک حصہ جموں کشمیر یوٹی ہے ۔ منقسم جموں کشمیر کی ایک وسیع تاریخ ہے جس کی اصلیت سے اکثر لوگ ناواقف ہے ۔ جیسے جیسے میں بڑھتا گیا اور میری سوچھ بالغ ہوتی گئی میں یہ سمجھنے لگا کہ جس ارض بے نیاز میں میرا گزر بسر ہورہا ہے وہ ایک لمبے عرصے سے تنازعات اور خلفشار کی شکار رہی ہے ۔ میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ کشمیری عوام پاکستان کی چال بازیاں سمجھ کیوں نہیں پاتے ، کشمیر کے حوالے سے اس ملک کے دعوئے سراسر فریبانہ اور جھوٹے ہیں اس کے ساتھ ساتھ اس ملک نے ہمیشہ سے ہی کشمیر کو بھارت کے خلاف بطور ہتھیار بنایا ہے اور کشمیر میں حالات بگاڑنے میں رول اداکررہا ہے ۔ابتدائی تعلیم کےلئے مجھے ایک مدرسے میں داخل کرایا گیا اور آٹھ سال کی عمر تک میں وہیں پر زیر تعلیم تھا لیکن میرے والدین نے مجھے آرمی گڈ ول سکول میں داخلہ کرایا جس کے لئے میں اپنے والدین کا شکریہ اداکرتا ہوں جنہوں نے مجھے شمالی کشمیر کے بہترین سکولوں میں سے ایک سکول میں میرا داخلہ کرایا۔ میں تواریخ میں دلچسپی لینے لگا خاص کر اپنے ملک بھارت اور جموں کشمیر کے حوالے سے جغرافیائی حدود اور تواریخ میں دلچسپی لینے لگا ۔

Related posts

The Smile that Defined You, A Tribute to Prof. Ravina Hassan

The Smile that Defined You, A Tribute to Prof. Ravina Hassan

14/05/2025

INDIA’S INVESTMENT IN KASHMIR’S FUTURE: A TRANSFORMATIVE JOURNEY

14/05/2025

اسی اثناءمیں ایک دن ایک آفیسر ہمارے سکول میں آیا جس نے کشمیر کے بارے میں کئی حقائق سے پردہ اُٹھاتے ہوئے کشمیر کی تاریخ پر ایک مفصل تقریر کی۔ آفیسر کی تقریر میں بغور سن رہاتھا اور اس بات پر غور کررہا تھا کہ کشمیر اور ملک کے بارے میں جتنی جانکاری ملی تھی اس سے کہیں زیادہ اس سے متعلق علم ہوا اور میں سوچ رہا تھا کہ ایک فخریہ تاریخ سے ہمیں کیوں ناواقف رکھا گیا ہے ۔ میں نے اس کے بارے میں مزید پڑھنا شروع کیا اور جیسا کہ میں نے کئی کتابیں پڑھی، میں نے محسوس کیا کہ کشمیر واقعی میرے ملک کا تاج ہے اور ہم سب کو اس پر فخر ہونا چاہیے۔ جب میں نے یہ پڑھا کہ پاکستان نے میری سرزمین کا اتنا بڑا حصہ بغیر کسی تاریخی دعوے کے کیسے چھین لیا، میں نے اپنے دوستوں سے اس بارے میں کھل کر بات کی۔ مجھے اب بھی یاد ہے کہ اسکول میں آنے والے افسر نے گلگت بلتستان، اکسائی چن اور پی او کے وغیرہ کے بارے میں بات کی تھی، میں حیران تھا کہ مجھے جغرافیہ کے اسباق میں اس بارے میں کیوں نہیں پڑھایا جا رہا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ جموں و کشمیر کا کل رقبہ 222236 مربع کلومیٹر ہے۔ اس میں پاکستان کے غیر قانونی قبضے کے تحت 72935 مربع کلومیٹر، چین کے تحت 37555 مربع کلومیٹر اور پاکستان کی جانب سے غیر قانونی طور پر 5180 مربع کلومیٹر چین کو دیا گیا ہے۔ درحقیقت میرا جموں و کشمیر بشمول لداخ ہندوستان کی تمام ریاستوں میں رقبے کے لحاظ سے پانچویں نمبر پر ہے اور ایک ایسی جگہ ہے جو کئی طریقوں سے پہلے نمبر پر ہے۔
پاکستان کے زیر قبضہ گلگت اور بلتستان ایک خوبصورت علاقہ ہے جو غیر قانونی طور پر مقبوضہ کشمیر کا بڑا حصہ ہے۔ یہ خطہ قراقرم کے سلسلے، پامیر کے پہاڑوں اور کوہ ہندوکش سے گھرا ہوا ہے۔ نانگا پربت اور کے ٹوچوٹیاں بہت معروف نام ہیں۔ یہ خطہ مسحور کن خوبصورتی کا حامل ہے اور بہت سے تاریخی مقامات اور عالمی ثقافتی ورثے کے مقامات کا مسکن ہے۔ اس علاقے کو موٹے طور پر تین خطوں گلگت، بلتستان اور دیامر میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ اس وقت علاقے کو دس اضلاع میں تقسیم کیا گیا ہے۔ یہ پورا خطہ جموں اور کشمیر کا اٹوٹ حصہ رہا ہے اور مہابھارت کی کہانیوں اور موجودہ دور کے شنکراچاریہ اور کھیر بھوانی مندروں سے ظاہر ہوتا ہے۔ درحقیقت حالیہ تاریخ اشوک، للیتادتیہ اور مسلم خاندان کے دور کے ثقافتی، سماجی اور مذہبی روابط کو بھی ظاہر کرتی ہے۔ چکوں کا تعلق بھی گلگت کے علاقے سے تھا۔ یہاں کثیر نسلی اور لسانی گروہ ہیں جو وہاں رہتے ہیں جیسے شیعہ، بلتی، یشکن، مغل، کشمیری، پٹھان اور خطہ لداخ کے لوگ بھی یہاں آباد ہیں۔
یہاں ڈوگرہ اور سکھ حکمرانوں کی نشانیاں بھی تازہ ہے جیسے ان کا دور حالیہ واقعات ہیں جن سے کوئی مورخ انکار نہیں کر سکتا۔ انگریزوں کی آمد کے ساتھ ہی، روس کی طرف سے وسطی ایشیائی جمہوریہ ممالک میں دکھائی جانے والی دلچسپی اور چترال کے علاقے میں افغانستان کی دلچسپی کے پیش نظر یہ خطہ زیادہ اہم ہو گیا۔ یہ خطہ 1947 تک راجہ گلاب سنگھ کے مکمل کنٹرول میں تھا۔ آزادی کے بعد ہی میجر براو¿ن، انچارج برطانوی افسر نے گھناو¿نا کھیل کھیلا اور بغاوت کی اور مقامی آبادی کے علم میں لائے بغیر اس خطے کے پاکستان کے ساتھ الحاق کا انتظام کیا۔ اس جگہ کے لوگ آج بھی تکلیف اٹھاتے ہیں اور ان کے ساتھ ہونے والی غلطی کا احساس کرتے ہیں اور کس طرح ایک فیصلے نے ان کی تقدیر اور مستقبل کی امنگیں بدل دی ہیں۔ معاملات کو مزید خراب کرنے کے لیے پاکستان نے 1963 میں ٹرانس قراقرم کا راستہ چین کو دے دیا۔اس خطے کی سرحدیں پاکستان، افغانستان اور چین کے ساتھ ملتی ہیں اور یہ سی اے آر یعنی متحدہ روس ممالک اور مغربی ایشیا کا گیٹ وے ہے۔ قزاکستان، ازبکستان، ترکمانستان، کرغزستان اور تاجکستان جیسے ممالک کے پاس غیر استعمال شدہ معدنی ذخائر ہیں اور ہر ملک کے پاس عالمی تیل اور گیس کے ذخائر کا تقریباً چار فیصد ہے۔ اس پاور ہاو¿س سے ہمارا زمینی رابطہ ہماری معیشت کو کئی گنا بڑھا دے گا۔ یہ خطہ قدرتی وسائل خصوصاً معدنی ذخائر سے بھرا ہوا ہے۔ جنوبی حصے میں نکل، سیسہ، تانبا اور زرقون ہے اور شمالی علاقے میں سونا، چاندی، گارنیٹ اور پکھراج کی کثرت ہے۔ یہ سب کچھ غیر استعمال شدہ رہتا ہے۔ چھ بڑی معاون ندیوں اور بہت سے گلیشیئرز اور جھیلوں کی موجودگی کی وجہ سے اس خطے میں ہائیڈرو الیکٹرک کی وسیع صلاحیت موجود ہے۔ قطبی خطے سے باہر تین طویل ترین گلیشیئر اس خطے میں واقع ہیں۔ ایک تحقیق کے مطابق اگر صلاحیت کو استعمال کیا جائے تو یہ 40000 میگاواٹ پن بجلی پیدا کر سکتا ہے۔ بلند ہمالیہ اور شاندار دریاو¿ں کی وجہ سے اس میں سیاحت کی بڑی صلاحیت ہے۔ قدیم زمانے سے اس علاقے میں بھرپور ہندوستانی تاریخ اسے بلٹٹ قلعہ کی طرح یونیسکو کے ثقافتی ورثے کی ایک بہترین جگہ بناتی ہے۔
اس پورے خطے میں وادی سب سے خوبصورت ترین علاقہ ہے جہاں جنگلی حیاتیات ، جڑی بوٹیاں نباتات اور حیوانات بڑی مقدار میں موجود ہیں اس کے علاوہ یہاں پر کئی اقسام کی نایاب لکڑی بھی موجود ہیں جو کہ ایک قومی سرمایہ ہے ۔ اسکے ساتھ ساتھ پانی کے ذخائرکی بہتات بھی ہے جس سے یہ خطہ زرخیز بن جاتا ہے ۔میںتواریخ کے اوراق پڑھتا گیا اور میں سوچ رہا تھا کہ اگر یہ سارا علاقہ کشمیر کی طرح ہندوستان کا حصہ ہوتاتو ہمارا مقدرکچھ اور ہوتا پاکستان کے ساتھ چین کا زمینی راستے سے کوئی تعلق نہیںرہتا۔ اور ہمارے دیگر ممالک کے ساتھ زمینی راستے استوار ہوتے جس سے یہاںکی معیشت اور سیاحت کو چارچاند لگ جاتے ۔اگر ایسا ہوتا توہمارارابطہ سی اے آر ممالک سے براہ راست ہوتا۔ یہ جگہ دنیا کا نمبر ایک سیاحتی مقام بن جاتا اور شاردا پیٹھ جیسے مقامات بہت سے لوگوں کے لیے زیارت گاہ بن جاتے۔ اقتصادی طور پر ہم سی اے آرمیں تیل اور گیس سے مالا مال علاقوں سے اپنی توانائی کی فراہمی کو پورا کرنے کے قابل ہوتے۔ نیز ہم نایاب زمینی دھاتوں اور دیگر معدنیات کے بڑے پروڈیوسر ہوتے۔ ہم ہائیڈرو الیکٹرک کی بے پناہ صلاحیت سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں کیونکہ بڑے دریا ہمارے کنٹرول میں ہوتے اور پاکستان سمیت دیگر ریاستوں اور ممالک کو اضافی بجلی فراہم کرنے کے قابل ہوتے۔ یقیناً ہماری معاشی حالت اس سے کہیں بہتر ہوتی جو آج ہے۔ چین کے ساتھ ہمارے تعلقات مختلف ہوتے اور فوج کے لیے دہرے محاذ کی جنگ کا مخمصہ ختم ہو جاتا۔ اس سے بڑی فوجی بچت بھی ہوتی کیونکہ سیاچن گلیشیئر پر فوج کی تعیناتی کی ضرورت نہیں پڑتی اور اس سے دفاعی اخراجات بھی کم ہوجاتے۔ا س خطے سے متعلق ہمیںسوشل میڈیا اور ویب سائٹس پر زیادہ سے زیادہ تبصرہ کرنا چاہئے اس کے ساتھ ساتھ جموںکشمیر سرکار کوچاہئے کہ وہ اپنی سرکاری ویب سائٹس پر اس خطے سے متعلق پوری جانکاری اور تواریخی شواہد دستیاب رکھیں ۔ اس ہندوستانی سرزمین کی اہمیت کو ظاہر کرنے کے لیے بہت سے کام کیے جا سکتے ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ سرکار کی طرف سے جو اقدامات اُٹھانے ضروری ہیں ان میں سرکاری اسکیمیں پورے پی او کے میں لاگو ہونی چاہئیں اور سیاسی عمل میں حصہ لینے کی اجازت ہونی چاہیے کیونکہ ان علاقوں کے لیے سیٹیں پہلے ہی محفوظ ہیں۔ اس خطے کے ذہین طلباءکو سبسڈی والی نشستیں اور اسکالرشپ باقی ہندوستان کی یونیورسٹیوں میں دی جانی چاہئے۔ ہم میں سے اکثر اس تاریخ سے بے خبر ہیںاورشائد میںبھی ابھی تک بے خبری کی حالت میں ہوتا اگر آرمی افسر تواریخ پر مفصل تقریر نہ کرتا ۔ لیکن میں نے قصد کرلیا ہے کہ میں منقسم جموں کشمیر لداخ کے ہر باشندے کو اس بات سے باخبرکروں گااور اپنے لئے ایک نئی تقدیر لکھوں گا کیوںکہ وارث کو دنیاکے نقشے پر اس کا صحیح مقام درکار ہے ۔اس کےلئے سرکار ی سطح پر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے اور نوجوان نسل کو اس حقیقت اور تواریخ سے باخبرکرنے کی ضرورت ہے تاکہ ہر ایک نوجوان اپنے منقسم جموںکشمیر کی ہیت اور حیثیت سے باخبر رہے ۔

Gadyal Desk
Gadyal Desk
Previous Post

Narrow escape’ for Hina Bhat in Jammu fire incident

Next Post

Budgam Police observed ‘Thana Diwas’ at PS Beerwah, PS Khag,PS Khansahib, PS Chadoora, PP Humhama and PP Soibugh

Related Posts

The Smile that Defined You, A Tribute to Prof. Ravina Hassan
Article

The Smile that Defined You, A Tribute to Prof. Ravina Hassan

by Gadyal Desk
14/05/2025
0

I have been more like an Englishman than a Frenchman here while attempting this tribute. The English man observes E.M...

Read more

INDIA’S INVESTMENT IN KASHMIR’S FUTURE: A TRANSFORMATIVE JOURNEY

14/05/2025
THE YOUTH OF GUREZ VALLEY: DREAMS BEYOND THE MOUNTAINS

THE YOUTH OF GUREZ VALLEY: DREAMS BEYOND THE MOUNTAINS

14/05/2025
With Gratitude and Respect: Bidding Adieu to Our Guiding Light

دہشت گردی کا کوئی مذہب نہیں :پہلگام کا حملہ(خونریزی )اور ہندوستان کی انسانیت

13/05/2025
‘We Were Ready, We Remain Ready’: Top Military Brass Reaffirms Armed Forces’ Readiness After Operation Sindoor

Pakistan Testing India’s Patience

13/05/2025
Next Post
Budgam Police observed ‘Thana Diwas’ at PS Beerwah, PS Khag,PS Khansahib, PS Chadoora, PP Humhama and PP Soibugh

Budgam Police observed 'Thana Diwas' at PS Beerwah, PS Khag,PS Khansahib, PS Chadoora, PP Humhama and PP Soibugh

  • Contact
  • About us
  • Advertise
  • Careers
  • Privacy Policy
e-mail: [email protected]

© 2022 Gadyal - Designed and Developed by GITS.

No Result
View All Result
  • Home
  • Kashmir
  • Jammu
  • World
  • National
  • Sports
  • Article
  • ePaper

© 2022 Gadyal - Designed and Developed by GITS.