پھر کوئی آیا،دل ِزار،نہیں کوئی نہیں
محمد سلیم سالک
لڑکپن میں خونچہ فروش سے مونگ پھلی کی ایک پڑیا خریدی۔جوں ہی میں نے مونگ پھلی کے دانے ختم کئے تو کاغذ کے ایک طرف خوش خطی میں کچھ اشعار لکھے ہوئے تھے،چونکہ میں اس عمر میں شعرو شاعری سے نابلد تھا توغیر دانستہ طور پر مجھے ان اشعار میں ایک مصرعہ گنگنانے میں قدرے لطف محسوس ہوا اور یوں وہ مصرعہ مجھے ازبر ہوگیا۔
پھر کوئی آیا،دل ِزار،نہیں کوئی نہیں
بارہویں جماعت کے امتحان میں کامیاب ہونے کے بعد امر سنگھ کالج میں داخلہ لیا۔ وہاں اکثر ادبی محفلیں ”تاثیر ہال“ میں ہوتیں اور میں ایک کونے میں بیٹھ کر ادبی محفلوں کا حظ لیتا اور اس کوشش میں رہتا کہ میں بھی ان تقریبات میں حصہ لوں۔لیکن میری اتنی ہمت نہیں بندھتی کہ میں اپنی کوئی تخلیق سامنے آکر سب کو سناؤں۔ان دنوں مجھے آزاد نظمیں لکھنے کاشوق چرایا تھا جو بعد میں معیار ی تخلیقا ت پڑھ کر چھوٹ گیا۔ ہمارے نصاب میں نظموں کے حوالے سے ایک باب ہواکرتاتھا جس میں حالیؔ،اقبالؔ،جوشؔ،فیض احمد فیض۔ؔ راشدؔ،میراؔجی، اختر ؔالایمان،محی الدین مخدومؔ وغیرہ قابل ذکرشعراء ہیں۔جب استاد ِ محترم نے فیضؔ کی نظم ”تنہائی“ کی قرأت اپنے مخصوص انداز میں کی۔میری خوشی کی انتہاہی نہیں رہی کیونکہ یہ وہی اشعار تھے،جو میں نے غیر دانستہ طور پر لڑکپن میں پڑھے تھے۔نظم کے اشعار یوں ہیں:
پھر کوئی آیا،دل ِ زار، نہیں کوئی نہیں
راہ رو ہوگا،کہیں اور چلا جائے گا
ڈھل چکی رات،بکھرنے لگا تاروں کا غبار
لڑکھڑانے لگے ایوانوں میں خوابیدہ چراغ
سوگئی راستہ تک تک کے ہر اک راہگزار
اجنبی خاک نے دھندلا دیے قدموں کے سراغ
گل کروشمعیں،بڑھادو مے و مینا و ایاغ
اپنے بے خواب کواڑوں کو مقفل کرلو
اب یہاں کوئی نہیں،کوئی نہیں آئے گا
استاد محترم نے اپنا لیکچر اس بات پر ختم کیا کہ ہمارے کالج میں جو”تاثیر ہا ل“ ہے، وہ اصل میں پروفیسرمحمد دین تاثیر کے نام منسوب ہے، جو فیض احمد فیضؔ کے ہم زلف تھے۔ساتھ ہی یہ انکشاف کیا کہ فیض احمد فیض ؔکا نکاح شیخ محمد عبداللہ نے پڑھوایاہے۔یہ سن کرمیری معلومات میں اضافہ ہواکہ فیض ؔ کی نکاح خوانی کشمیر میں ہوئی ہے۔ساتھ ہی کچھ سوالات نے جنم لیا کہ فیض کشمیر کب آئے اور ان کی شادی کہاں پر ہوئی۔پہلے میں نے سوچا شاید انہوں نے کسی کشمیری لڑکی سے شادی کی ہوگی لیکن بعد میں پتا چلا کہ وہ ایک انگریز میم تھی جس کا نام ایلس ؔتھا۔
اصل میں واقعہ یوں ہے کہ پروفیسر محمد دین تاثیر المعروف ایم،ڈی تا ثیر امر سنگھ کالج کے بانی پرنسپل رہے ہیں۔ان کو علامہ اقبال ؔکے ساتھ بڑی قربت رہی ہے یہاں تک کہ علامہ اقبالؔ نے کیمبرج یونیورسٹی میں پی۔ایچ۔ڈی کرنے کے لئے انہیں ایک سفارشی مراسلہ بھی دیا،جس کی وجہ سے انہیں وہاں کافی عزت ملی۔ تاثیر مرحوم ایک محنتی اور ہونہار طالب علم تھے۔انہوں نے بڑی محنت سے پی۔ایچ۔ڈی کے لئے اپنا مقالہ ”انگریزی ادب کی پانچ سو سالہ تاریخ کا تنقید ی اور تحقیقی جائزہ“ قلم بند کیا،جسے بہت سراہا گیا۔مرحوم برصغیرکے پہلے شخص ہیں جنہوں نے کیمبر ج یونیورسٹی سے پی۔ایچ۔ڈی کیاہے۔ کیمبر ج سے واپسی پر انہوں نے مسلم اینگلو اورینٹل کالج امرتسر میں بحیثیت پرنسپل عہدہ سنبھالا۔ان دنوں فیض احمد فیض ؔ اسی کالج میں انگریزی پڑھایا کرتے تھے۔ دنوں میں گہری دوستی ہوگئی۔ایک دن تاثیرؔ صاحب سودا سلف لانے کے لئے بازار گئے تھے تو وہاں ایک لند ن نژاد خاتون سے سامنا ہوا۔جس کا نام کرسٹیبل جارج تھا۔ پہلے پہل بات ملاقات تک بڑھی، پھر دوستی اور آخر پر دونوں کی شادی ہوگئی۔دلچسپ بات یہ ہے کہ کرسٹیبل جارج کااسلامی نام بلقیس تاثیر رکھا گیا اور نکاح خوانی علامہ اقبال نے لاہور میں انجام دی۔ساتھ ہی نکاح خوانی کے لئے ایک شرط نامہ مرتب ہوا،جو علامہ اقبال نے انگریزی میں تحریر کیا۔ حسن اتفاق دیکھئے کہ جب بلقیس تاثیر کی بہن ایلس جارج امرتسر سیر وسیاحت کی غرض سے آئی تھی۔ وہاں ایلس کی ملاقات فیض احمد فیضؔ کے ساتھ ہوئی۔دوسال عشق و عاشقی میں گزر گئے۔ پھر28/اکتوبر 1941ء کومس ا یلس جارج سے اسلامی شرع کے مطابق نکاح ہوا۔فیض ؔ کی مالی حالت اگرچہ ان د نو ں نہایت ہی پتلی تھی پھر بھی انہوں نے پانچ ہزار رو پے بطور مہر ادا کئے۔نکاح کے بعد ایلس کا اسلامی نام ”کلثوم“ رکھا گیا جو فیض کی والدہ نے تجویز کیا تھا۔بعد میں فیض نے اپنے شعری مجموعے ”دستِ صبا“ کا انتساب کلثوم کے نام کیا۔مرزا ظفر الحسن فیض کی شادی کے بارے میں لکھتے ہیں کہ
”براتیوں میں جوشؔ ملیح آبادی اور مجازؔ مرحوم بھی شامل تھے۔فیضؔ کے مالی حالات اتنے سقیم تھے کہ وہ اپنے لئے کپڑے بھی نہ سلواسکے۔صرف ایلس ؔ کے لئے ایک انگوٹھی خرید سکے کیوں کہ ایلس ؔ نے صرف یہی خواہش کی تھی کہ انہیں شادی میں انگوٹھی ضرور پہنائی جائے۔متفرق اخراجات کے لئے فیض کو میاں افتخار الدین مرحوم سے تین سو روپے قرض لینے پڑے تھے۔ نکاح نامے پر فیض ؔ اور ایلس ؔ کے دستخطوں کے ساتھ شیخ محمد عبداللہ،جی۔ایم صادق، ڈاکٹر تاثیر اور نور حسین کے دستخط ہیں جو ان دنوں سری نگر میں ہیلتھ انسپکٹر تھے۔بیگم تاثیر کے بھی دستخط ہیں جو ایلس کی سگی بہن ہیں۔نکاح سے پہلے طرفین میں ایک تحریری معاہدہ ہواجو اس معاہدے کی نقل ہے جو علامہ اقبال ؔنے ڈاکٹرتاثیر اور بیگم تاثیر کی شادی کے سلسلے میں انگریزی میں مرتب کیا تھا۔“
…… l……