کشمیریت نام ہے مذہبی رواداری اور بھائی چارے کا
کشمیریت صرف ایک خطے کی تمدن ، ثقافت اور سماجی تانے بانے کا نام نہیں ہے بلکہ کشمیریت مذہبی رواداری ، بھائی چارے ، یکسانیت، تمام عقائد کی قبولیت کے فلسفہ کا نام ہے ۔ یہ بین فرقہ وارانہ ہم آہنگی، ادبی عظمت، روحانیت، اور مختلف ثقافتوں کے درمیان باہمی شراکت داری کا مظہر ہے۔ کشمیریت کی صدیوں ملی جلی روایت رہی ہے یہاں پر بلا مذہب و ملت لوگ ایک دوسرے کے دکھ درد میں ساتھ دیتے آئے ہیں اور ہر خوشی ایک ساتھ منانے کا چلن بھی یہاں کا مسکن رہا ہے ۔ کشمیریت کشمیری معاشرے کے ہر پہلو میں موجود ہے اور ان کے مذہبی اور ثقافتی طریقوں پر اس کا خاصا اثر ہے۔کشمیر میں ہر مذہب کے لوگ ایک دائرے میں بندے ہوئے ہیں جس کو کشمیریت کہتے ہیں ۔ ہر ایک انسان میں کشمیری بستی ہے ۔ کشمیری زبان و علم و ہنر میں کشمیری جھلکتی ہے ۔ تاریخی تغیرو تبدیلی اور حالات و وقعات بھی کشمیریت پر انداز نہیں ہوئے ہیں ۔ تاریخی حالات اور دیگر وجوہات کی وجہ سے وادی کشمیر پر ثقافتی یلغار کے باوجود کشمیریت ایک الگ ثقافت کے طور پر زندہ ہے۔کشمیر اور کشمیریت کو اگر کسی دور میں نقصان سے دوچار ہونا پڑ ا ہے تو وہ گزشتہ تین دہائیوں کے نامساعدحالات ہے ۔ اس درپردہ جنگ میں یہاں کے عوام کو خاصا نقصان اُٹھانا پڑا ہے خاص کر یہاں پر مذہبی بھائی چارے اور مذہبی رواداری اس سے اگرچہ کسی حد تک متاثر ہوئی ہے تاہم کشمیریوںنے کشمیریت کو زندہ رکھنے میں اہم رول اداکیا ہے ۔ دوسری جانب یہاں پر تعینات فوج نے بھی لوگوں کی تکالیف کو کم کرنے کی پہل کی ہے ۔ سرحدوں کی سخت نگرانی ، اندرونی حالات سے نبرد آزما ہونے کے ساتھ ساتھ فوج نے دور درازعلاقوں کے لوگوں کی تکلیف کو دور کرنے میں رول نبھایا ہے ۔ ”آپریشن سد بھاونا“ کے تحت لوگوں کی مختلف طریقوں سے مدد کی گئی ۔ جن دور دراز علاقوں میں طبی سہولیت کا فقدان رہتا ہے ان علاقوں میں مختلف ایام میں فوج نے طبی کیمپ منعقد کرائے ، دیہی اور دور دراز علاقوں کے نوجوانوں کےلئے مختلف کھیلوں کے پروگرام منعقد کرائے گئے ۔ اس کے علاوہ طلبہ کی تعلیم پر بھی خاصی توجہ دی گئی ۔ آپریشن سد بھاونا “کے تین اہم اہداف پر زیادہ توجہ دی گئی جس میں دور دراز علاقوں کے بچوں کو تعلیم کی طرف راغب کرنا، خواتین اورنوجوانوں کو حقیقی آزادی سے متعارف کرانا اور صحت شعبہ میں بہتری کےلئے کام کیا گیا ۔ ان اہداف کے حصول کے ساتھ ساتھ نوجوانوں کی صلاحیت سازی پر بھی زور دیا گیا ۔ سدبھاونا کا اصل مقصد لوگوں کے ذہنوں اور دلوں کو جیتنا ہے اور اس سے عوام اور فوج کے مابین دوریوں کو مٹانے کی طرف ایک کوشش کے طور پر بھی عملایا گیا ۔ جموں کشمیر دنیا کا واحد خطہ ہے جہاں پر فوج جنگجومخالف ،کارروائیوں کے باوجود بھی لوگوں کی بہتری کےلئے کام کررہی ہے ۔ ایک طرف فوج سرحدوں پر دشمن کے عزائم کو ناکام بنارہی ہے دوسری طرف اندورنی طور پر ملٹنسی مخالف آپریشن چلارہی ہے اور اس کے باوجود بھی فوج سیول انتظامیہ کے شانہ شانہ لوگوں کو درپیش مسائل کے حل کے ازالہ کےلئے کوششیں کرری ہیں۔ یہ غیر معمولی کوشش جموں و کشمیر کے لوگوں کے ساتھ وردی پوش کمیونٹی کی وابستگی اور وفاداری کی ایک شاندار مثال کے طور پر کام کرتی ہے۔ہندوستان کے کسی بھی حصے جہاں فوج موجود ہے کے بنسبت جموں کشمیر وہ جگہ ہے جہاں پر فوج ترقی کےلئے کام کررہی ہے ۔ فوج کی کاوشوں سے وادی کشمیر میں امن و سلامتی کو یقینی بنایاگیا ہے جس کی وجہ سے آج وادی کشمیر ٹورازم کا ہب بن رہا ہے ۔ اسی طرح اگر لداخ کی بات کی جائے تو لداخ میں بھی فوج بنیادی ڈھانچے کی ترقی میں رول اداکررہی ہے جس سے اس خطے کے لوگوں کی طرز زندگی بہتر سے بہتر بنتی جارہی ہے ۔ کسی بھی معاشرے میں ترقی کا عنصر تب تک پھل پھول نہیں جاتا ہے جب تک نہ اس معاشرے میں قانون کی بالادستی ہو جس کے لئے فوج گزشتہ تین دہائیوں سے جموں کشمیر میں کام کررہی ہے ۔
فوج بڑے پیمانے پر یہاں سماجی سرگرمیاں چلارہی ہے جس میں جموں کشمیر کی اقتصادی بہتری ہورہی ہے ۔ بے روزگار نوجوانوں کو روزگار فراہم کرنے کےلئے مختلف سکیموں کے تحت انہیں روزگار فراہم کیا جارہاہے ۔ فوج جہاں پر تعینات ہوتی ہیں وہاں پر تجارت پھلنے پھولنے لگتی ہے کیوں کہ فوجی یونٹی میں تعینات اہلکار اپنی ضرورت کی چیزیں مقامی دکانداروں سے ہی حاصل کرتے ہیں جس سے دکانداروں کا بھی کام بڑھتا ہے ۔ اسی طرح غیر دور دراز پہاڑی علاقوں میں تعینات فوجی اہلکاروں کو کھانے پینے اور دیگر اشیاءپہنچانے کےلئے مقامی نوجوانوں کو بطور پورٹر تعینات کیا جاتا ہے جبکہ ان کے ٹیٹوﺅں کو اس کام کےلئے حاصل کیا جاتا ہے جس سے ان مقامی لوگوں کی آمدنی بھی بڑھتی ہے ۔ اسی طرح فوج کی زیلی شاخ بارڈر روڑ آرگنائزیشن فوج کی تعمیر کردہ سڑکوں میں کام کے دوران مقامی نوجوانوں کو روزگار ملتا ہے ۔ اس کے علاوہ فوج نے جموں و کشمیر کے متعدد نامور کھلاڑیوں کی نہ صرف قومی بلکہ بین الاقوامی شہرت حاصل کرنے میں مدد کی ہے، جیسے کہ محترمہ تجمل الاسلام، ایک کشمیری لڑکی جس نے اٹلی میں2016 ورلڈ کک باکسنگ چیمپئن شپ کے انڈر8 ڈویڑن میں گولڈ میڈل جیت کر تاریخ رقم کی۔اس طرح کشمیریت کو زندہ رکھنے میں فوج کا بھی ایک اہم رول ہے ۔اس لئے یہاںکے لیڈران خاص کر مذہبی لیڈروں کو چاہئے کہ وہ کسی بھی ذاتی مقصد کو بالائے طاق رکھ کر کشمیریوں کے اُس سکیولر کشمیریت کو زندہ کرنے کےلئے کوششیںکریں جس میں وہ لوگ صدیوں سے رہ رہے ہیں۔ کشمیر صرف ایک خطہ نہیں ہے بلکہ اس کو عرف عام میں چھوٹا بھارت بھی کہا جاتا ہے جہاں پر سبھی مذاہب کے لوگ مختلف زبان جاننے والے ایک ساتھ مل جل کر رہ رہے ہیں اور ایک دوسرے کے سکھ دکھ میں ساتھ ایک دوسرے کا ساتھ دیتے ہیں۔
Revolutionizing Winter Vacations: Shaping Innovators and Leaders of Tomorrow
“The function of education is to teach one to think intensively and to think critically. Intelligence plus character – that...
Read more