(سکندر بشیر)
لفظ منشیات کے ذہن میں آتے ہی بالی ووڈ انڈیا کی \;39;\;39;ہارے راما ہرے کرشنا\;39;\;39;اور \;39;\;39;اُڑتا پنجاب\;39;\;39; جیسی فلموں کے نقش نظروں کے سامنے ابھرتے ہیں ۔ یہ وہ فل میں ہیں جن میں یہ بات آشکارہ کی جاتی ہے کہ کس طرح منشتات کی لت ایک جوان کو لگتی ہے اور پھرکسطرح اس لت سے جوانون کی جوانیاں اور زندگیاں بُرباد ہوجاتی ہیں ۔ ان فلموں سےباہرجب ایسے جوانوں ،جنکو اس لت نے گھیر لیا ہوتا ہے، کا سامنا ہوتا ہےتو انکی جسمانی حالت قابل رحم ہوتی ہے ۔ انکی دماغی حالت یوں ہوتی ہے کہ یہ خود سے اور اپنے آس پاس کے ماحول سے بیگانہ ہوتے ہیں ۔ اگرچہ شروع شروع میں ایک جوان کے جسم پر اسکے اثرات زیادہ گھمبیر نہیں لگتے مگر پھر سال دو سال گذر جانے کے بعد اسکے لگے زہریلے اثرات ظاہر ہونے شروع ہوجاتے ہیں ۔ کمزوری اور ناتوانی جسم کو آپکڑ لیتی ہے ۔ جسم کوئی بھی محنت کاکام کرنے کا متحمل نہیں رہتا ۔ جسم ایک بوجھ سا لگتا ہے اور دماغ ہر وقت جیسے کسی بھاری وزن سے بوجھل رہتاہے ۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ جسم قطعی آرام پسندی اور دماغ سونے کو ترجیح دیتا ہے ۔ ایک جان بےکار ہوکر رہ جاتی ہے ۔
اس تصویر کا دوسرا بھیانک رُخ یہ ہے کہ منشیات کی لت کا مارا صرف یہ نہیں کہ خود پر ایک باری بوجھ ہوتا ہے بلکہ اسی وقت وہ اپنے والدین کےلیے سوہان روح اور سماج کے لیے ایک مرض بنتاہے ۔ والدین کو بچوں سے یہ امید رہتی ہے کہ بچے جوان ہوکر جہاں اپنی خود کی زندگیوں کا سہارا بنیں گے وہی انکی امیدوں کا بھی وسیلہ بنیں گے ۔ لیکن جب امید اور آس کے درخت کو منشیات کا کیڑا لگ کر گُھن کی طرح بوسیدہ کرتا ہے تو جہاں یہ درخت ناکارہ ہوگیا وہی والدین کی امیدیں بھی خاک ہو جاتی ہیں ۔ اور سماج کے اندر ایک بیماری اور مرض پنپ جاتا ہے ۔
ہماری ریاست جموں کشمیر میں ایک تحقیق کے اندازے سے 6لاکھ جوان منشیات کی بُری اور جان لیوا کت میں مبتلا ہیں ۔ یہ چھ لاکھ جوان خود لے لیے ایک عذاب، اپنے والدین کے لیے ایک عتاب اور سماج کے لیے ایک مرض ہیں ۔
ہماری ریاست جموں کشمیر میں چونکہ گذشتہ تین دہائیؤں سے پاکستان دہشت گردی کا ایک سیاسی اور عسکری نیٹورک چلا رہا ہے ۔ اس نیٹورک کوآگے بڑھانے میں جہاں پاکستان کو گیلانی جیسے سیاسی افراد درکار ہیں وہی عبداللہ بنگرو جیسے ہتھیار چلانے والے انسان نما درندے بھی ضرورت ہیں ۔ اور اسی وقت زیرزمین کام کرنے والے دہشت گردوں کی مدد اور اعانت کے لیے بالائے زمین بھی افراد چاہیے ہوتے ہیں ۔ بالائے زمین کام کرنےکے واسطے جوانوں کو پہلے نشہ کا عادی بنایا جاتا ہے ۔ پھرانہیں پیسہ دے کر اپنا کام نکلواتے ہیں ۔ اسطرح سے دہشت گردی کا بالائے زمین نیٹورک کام کرتا ہے ۔
منشیات سے کشمیر میں دہشت گرد تین طرح کے ٹارگٹ ہٹ کرتے ہیں :
1 ۔ ۔ بالائے زمین کام کرنے والے افراد کا حصول
2 ۔ ۔ اسکی تسکری سے پیسہ کا حصول اور
3 ۔ ۔ اسی پیسہ سے سیاسی ورکروں کی استعانت
کسی بھی نیٹ ورک یا تنظیم کا کھڑا رہنا اور فعالیت سے کام کرنا پیسہ اور مطلوبہ افرادسے ہی ممکن ہے ۔ مگر پیسہ کسی بھی نیٹورک کے لیے ریڑھ کی ہڈی کا درجہ رکھتی ہے ۔ جس طرح ریڑھ کی ہڈی پر سارا جسم کھڑا رہتا ہے اسی طرح پیسہ پر ایک تنظیم کھڑی رہتی ہے ۔ اور کشمیر میں دہشت گرد نیٹورک کے لیے منشیات یہی ریڑھ کی ہڈی کا کام دیتی ہے ۔ منشیات ایک طرف سیاسی دہشتگردوں اور عسکری دہشت گردوں کو ایندھن فراہم کرتاہے دوسری طرف یہ زہر جوان نسل کو کاٹے جارہا ہے ۔ اسی بھیانک اور بدترین صورتحال کیطرف جموں کشمیر پولیس کے ڈائریکٹر شری دلباغ سنگھ 12 فروری 2022 کو کہا کہ:
\;39;\;39;ٍ منشیات دہشت گردی سے بھی بڑا چلینج بن کر اُبھر رہی ہے ۔ یہ دہشت گردوں کو پیسے کے ذریعے نہ صرف آکسیجن فراہم کر رہا ہے بلکہ یہ ہمارے نوجوانوں کو مستقبل کو تاریک بنا رہا ہے ۔ دہشت گرد انفرادی طور پر لوگوں کو نشانہ بنا رہے رہے ہیں ۔ چاہے وہ عام شہری ہوں یا سکورٹی فورسز لیکن منشیات کے گروہ خاندانوں کو نشانہ بنا رہے ہیں اور معاشرے کو تباہی کی طرف دھکیل رہی ہے ۔ ہم بڑے پیمانے پر منشیات پکڑ رہے ہیں اور دہشت گردی کو مدد دینے کے لیے منشیات کی اسمنگلنگ سے حاصل ہونے والی رقم بھی\;39;\;39; ۔
اس حقیقت کا اعتراف خود پاکستان(جو دہشت گردی کا مجرم بھی ہے) کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کیا کہ منشیات اور دہشت گردی کا تعلق ہے ۔ پاکستان کے مشہور اخبار جنگ نے موصوف کا ایک بیان اپنے 28 جولائی 2021کے شمارے میں یوں قلم بند کیا ہے:
\;39;\;39;منشیات سے حاصل ہونی والی رقم دہشت گردی کے لیے استعمال کی جارہی ہے ۔ \;39;\;39;
منشیات کی تسکری اور اس سے حاصل ہونے والے پیسے سے دہشت گردی کی استعانت دراصل ایک بین الاقوامی مسئلہ ہے ۔ وقت کا شدید تقاضہ ہے کہ اس اخلاق سوز اور انسانیت سوز مسئلہ کے خلاف ہر ملک کو ایک جھٹ ہوکر لڑنا ہوگا ۔