سڑک نقل و حمل اور شاہراہوں کے مرکزی وزیر، جناب نتن گڈکری
معاشی ترقی پیدا کرنا اور ترقی کے فوائد سب تک پہنچانا حکم رانی کی شاہ کلید ہے۔ بہتر معیار زندگی اور “زندگی میں آسانی” ان پالیسیوں کے نتیجے میں پیدا ہوتے ہیں جن کا مقصد نئے معاشی مواقع کے لیے صحیح حالات پیدا کرنا ہے۔ اعلیٰ معاشی ترقی سماجی ترقی کے لیے زیادہ فنڈز کی دستیابی کا باعث بنتی ہے، جس سے نمو اور ترقی کا دور شروع ہوجاتا ہے۔ ہماری جی ڈی پی کے لیے 5 ٹریلین امریکی ڈالر کا نشانہ ایک پرعزم نشانہ ہے، اور اس کے حصول کی حکمت عملی کا محور نمو کے لیے ایکو سسٹم کی تشکیل ہے جس کی بنیاد بنیادی ڈھانچے کی تشکیل اور آتم نربھر بھارت ہیں۔ آزادی کے 75 سال مکمل ہونے پر آزادی کے امرت مہوتسو کے موقع پر ہم نے ترقی کے ایک پرعزم سفر کا آغاز کیا ہے۔
معاشی ترقی کو مہمیز کرنے کے لیے 2014 سے بنیادی ڈھانچے کی ترقی حکومت کی کوششوں کا بنیادی حصہ رہی ہے۔ توجہ نہ صرف جسمانی بنیادی ڈھانچے بلکہ ڈیجیٹل بنیادی ڈھانچے پر بھی مرکوز رہی ہے۔ یو پی آئی پہل کے ذریعے تخلیق کردہ ڈیجیٹل بنیادی ڈھانچہ ایک نادر کام یابی رہی ہے۔
معاشی ترقی پر اس کے ضربی افزائش کے اثر کے ساتھ طبعی بنیادی ڈھانچے کی تشکیل بھی اہم ہے۔ وزیراعظم جناب نریندر مودی کی قیادت میں حکومت بنیادی ڈھانچے میں سرمایہ کاری پر زور دے رہی ہے۔
بنیادی ڈھانچے کی تعمیر کے لیے درکار بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کو مدنظر رکھتے ہوئے بنیادی ڈھانچے کے جو ترقیاتی منصوبے شروع کیے جانے تھے ان کا واضح روڈمیپ تشکیل دینے کا فیصلہ کیا گیا۔ اس کے لیے نیشنل انفراسٹرکچر پائپ لائن (این آئی پی) وجود میں آئی جس کے پروجیکٹوں کے لیے 111 لاکھ کروڑ روپے کی سرمایہ کاری درکار تھی۔ این آئی پی حال ہی میں شروع کردہ گتی شکتی پروگرام کے ساتھ مل کر بہتر ہم آہنگی اور منصوبہ بندی کی بنیاد پر مکمل نقطہ نظر اور بروقت ترسیل کو یقینی بنائے گی۔
ہمارے جیسے گوناگونی کے حامل ملک میں بنیادی ڈھانچے کی ترقی کے لیے تفصیلی منصوبہ بندی اور سہولت کاری کی ضرورت ہے۔ بھرت مالا پروگرام نے ہمیں شاہراہوں کی ترقی کا خاکہ مربوط انداز میں دیا۔ اس پروگرام میں 34,800 کلومیٹر قومی شاہراہوں کی تعمیر کا تصور کیا گیا تھا۔ یہ پروگرام راہداری پر مبنی نیشنل ہائی وے ڈویلپمنٹ پروگرام کے بعد آیا ہے جو ملک کے 550 سے زیادہ اضلاع کو جوڑنے اور قومی شاہراہوں پر کل مال برداری کا 70 سے 80 فیصد حصہ پورا کرنے والا ہے۔
براؤن فیلڈ کی توسیع اور شاہراہوں کی بہتری ایک اہم مقصد کی تکمیل کرتی ہے، لیکن لاجسٹک کی لاگت کو کم کرنے کے معاملے میں انقلاب آفریں عنصر اہم کارگو اوریجن-ڈیسٹی نیشن مراکز کو جوڑنے والے ایکسس کنٹرولڈ گرین فیلڈ ایکسپریس وے کی تعمیر ہے۔ اس کے نتیجے میں بھارت مالا فیز 1 کے حصے کے طور پر 5 فلیگ شپ ایکسپریس وے اور 17 ایکسس کنٹرول راہداریاں تیار کی جارہی ہیں جن کی کل سرمایہ لاگت 3.6 لاکھ کروڑ روپے ہے۔
اب وقت آگیا ہے کہ ہم بھرت مالا پروگرام کا دوسرا مرحلہ شروع کریں۔ ہمارے عزائم ملک بھر کے عوام کی توقعات پیش نظر بلند ہیں۔ مالی سال 2009-10 سے مالی سال 2009-14 تک قومی شاہراہوں کے لیے کاموں کی تفویض کی رفتار 5،900 کلومیٹر سالانہ سے تقریباً دگنی ہو کر مالی سال 2014-15 سے 11,000 کلومیٹر سالانہ ہو گئی ہے۔ اسی طرح مالی سال 2014-15 سے سالانہ تعمیر کی رفتار 1.8 گنا سے بڑھ کر 9000 کلومیٹر سالانہ ہوگئی ہے جب کہ مالی سال 2009-10 اور مالی سال 2013-14 تک سالانہ 4,900کلومیٹر تعمیر ہوتی تھی۔
لاجسٹک کی لاگت کو کم کرنا ہوگا اور یہ کسی حد تک شاہراہوں کو ترقی دے کر ہوگا لیکن یہ خود شاہراہوں میں سرمایہ کاری سے زیادہ سے زیادہ منافع حاصل کرنے کے لیے کافی نہیں ہے۔ ملٹی ماڈل لاجسٹک پارک (ایم ایم ایل پیز) وزیر اعظم گتی شکتی نیشنل ماسٹر پلان میں بیان کردہ وژن کے مطابق مربوط اور موثر نقل و حمل کو یقینی بنانے کے لیے اہمیت کے حامل ہیں۔ ملک بھر میں ایم ایم ایل پیز کو 35 اسٹریٹجک مقامات (جیسے جوگی گھوپا، ناگپور، چنئی، اندور، بنگلورو وغیرہ) میں تیار کیا جارہا ہے تاکہ لاجسٹک شعبے میں نااہلی سے نمٹا جاسکے۔ یہ 35 ایم ایم ایل پیز ملک کی سڑک مال برداری کی 50 فیصد سے زیادہ نقل و حمل کی ضروریات کو پورا کریں گے۔
بائیں بازو کی انتہا پسندی سے متاثرہ اضلاع میں شاہراہوں کی ترقی پر بھی 2014 سے خصوصی توجہ دی گئی ہے۔ مثال کے طور پر رائے پور اور وشاکھاپٹنم کے درمیان ایک گرین فیلڈ راہداری تیار کی جارہی ہے جو چھتیس گڑھ، اڈیشہ اور آندھرا پردیش کے پسماندہ اضلاع سے گزر رہی ہے۔
14.96 کلومیٹر پر سری نگر لیہہ سڑک پر زوجیلا سرنگ لداخ میں بلتل (سونمرگ) اور مینامرگ کے درمیان فاصلہ 40 کلومیٹر سے کم کرکے 13 کلومیٹر کر دے گی جس سے سفر کا وقت تین گھنٹے سے کم ہو کر 15 منٹ رہ جائے گا۔
بنیادی ڈھانچے کی ترقی کو بڑھانے کے لیے بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کی ضرورت ہوتی ہے۔ نیشنل مونیٹائزیشن پائپ لائن کے حصے کے طور پر این ایچ اے آئی نے سڑک منصوبوں کو مونیٹائز کرنے کے لیے اپنی آئی این وی آئی ٹی (InvIT) پہل کا آغاز کیا ہے۔ اثاثوں کی طویل مدتی نوعیت کے پیش نظر اِنوِٹ کی اکائیوں کو بین الاقوامی اور گھریلو ادارہ جاتی سرمایہ کاروں کے سامنے رکھا گیا۔ 5 سڑکوں پر مشتمل ابتدائی پورٹ فولیو نے غیر ملکی سرمایہ کاروں کی 50 فیصد سرمایہ کاری سے 8,000 کروڑ روپے اکٹھا کیے۔
آخری اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ بنیادی ڈھانچے کی ترقی کے دوران ماحولیات کا تحفظ ایک توازن کا ایک نازک عمل ہوتا ہے۔ میری اپروچ اس طرح کے حالات پیدا ہونے کی صورت میں ماحولیات کے تحفظ کی طرف جھکاؤ کی ہے۔ شاہراہوں کے ساتھ درختوں کی شجرکاری میں پیش رفت کا میں ذاتی طور پر جائزہ لیتا ہوں۔
سڑک نقل و حمل اور شاہراہوں کی وزرات نے ستمبر 2015 میں گرین کوریڈور تیار کرنے اور پائیدار ماحولیات کی ترقی کے لیے قومی شاہراہوں کے ساتھ گرین کوریڈور تیار کرنے کی پالیسی (شجرکاری، اشجار کی منتقلی، خوب صورتی اور دیکھ بھال) کی پالیسی وضع کی تھی۔ اس پالیسی کے بعد کے برسوں میں، 2016-17 سے 2020-21 تک 2 کروڑ سے زائد پودے لگائے گئے ہیں۔
2021-2022 میں نومبر تک این ایچ اے آئی کی جانب سے مجموعی طور پر 63 لاکھ سے زیادہ نئے پودے لگائے گئے ہیں جن میں ایونیو پلانٹیشن کا تناسب 27.5 لاکھ ہے جب کہ وسطی شجرکاری 35.6 لاکھ نئے پودوں کی ہے۔ مزید برآں فیلڈ انسپکشن کے روایتی طریقوں کے ساتھ ڈرون ویڈیو گرافی اور جیو ٹیگنگ کی جدید ترین ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے شجرکاری کی کڑی نگرانی کی جاتی ہے۔
اس عمل میں ہم نے بہت سے دیگر لوگوں کے درمیان دنیا میں سب سے زیادہ 37 کلومیٹر یومیہ ہائی وے کی تعمیر کی شرح کے ساتھ کچھ عالمی ریکارڈ بنائے ہیں۔