از قلمِ
خان سکندر بشیر
فطرت کے اس بے پناہ اور وسیع کارخانے میں کیا کیا موجود ہے جو ابھی انسان کی تحقیقی آنکھ سے مستور ہے.. کوئی نہیں جانتا… مگر اسکے اندر جو بھی ہے وہ اپنے آپ میں برا ہے اور نہ اچھا ہے..اور جو بات کسی بھی شئے کو بری یا اچھی بناتی ہے وہ اسکا استعمال ہے.. جسکی سیدھی سادی مثال یہ ہے کہ سانپ کے زہر سے آپ ویکسین بھی بنا سکتے ہیں جو انسانی حیات کے لیے عین رحمت ہے اور یہی زہر آپ کسی کی زندگی کو موت کے گھاٹ اتارنے میں بھی استعمال کر سکتے ہیں… اسطرح نیچر کے اس عظیم مخزن میں جو شئے ہے اسکا اثر انسان کے سوچ کے تابع ہے.. یعنی سوچ اگر منفی ہے تو استعمال اور اثر منفی ہوگا… اور سوچ اگر مثبت ہے تو استعمال اور اثر بھی مثبت ہوگا…. نیوکلیر توانائی (انرجی) سے بجلی بھی پیدا کی جا سکتی ہے جو اسکا مثبت (positive) پہلو ہے جو انسانی حیات کو آسائش اور اطمینان سے مالامال کر سکتی ہےاور عین اسی اسی توانائی سے اٹم بامب بھی بنایا جا سکتا ہے جو انسانی زندگی کو پل کے پل میں تہہ و بالا کرسکتی ہے… اسطرح مٹا کے رکھ دے کہ جیسے کبھی زمین پر تھی نہیں!
قدرت کے اس کارخانہ میں جہاں انسان کی تحقیقات سے نت نئی چیزیں موردِ وجود آچکی ہیں انہی میں ایک اور ایجاد سائیبر خلا ہے..یعنی Cyberspace ہے..
سائیبر خلا( cyberspace) کی سادہ لفظوں میں تعریف کی جائے تو یہ ہوگی کہ یہ ایک عالمگیر (worldwide) برقیاتی (electronic) واسطہ (medium) ہے جسکے بدولت ڈیجٹل مواصلات(communication) اور اعداد و شمار (data) ممکن ہے! نیوکلیر توانائی کی طرح سائیبر خلا کا بھی استعمال منفی اور مثبت ہوتا ہے…انسان چاہیے تو سائیبر خلا سے اپنے ہم نفسوں تک ویب سائٹ کے توسل سے پُر حیات انفارمیشن پل کے پل میں بیج سکتا ہے… اور یہی انسان چاہے تو ایسی بات پھیلا سکتا ہے جس سے فتنہ اور فساد بپا ہوجائے یا کوئی ایسا شیطانی عمل ایسا بھی کر سکتا ہے کہ کسی علاقے کے ڈیجٹل نیٹورک کو ہیک کرکے ایک بڑی سطح پر انسانی آبادی کو ذھنی عتاب میں مبتلا کر سکتا ہے!
اسی سائیبر خلا (cyberspace) سے ملکوں کے درمیان سائیبر جنگ ( cyberwarfare) بھی چھڑ سکتی ہے جس سے ایک ملک دوسرے ملک کے حفاظتی اداروں اور معاشی اداروں کو ہائی جیک کرکے زبردست ضرب لگا سکتا ہے…. اسی سائیبر خلا کے مادیم سے نیٹ وار (netwar) کیے جاسکتے ہیں!
سوشل میڈیا جیسے فیس بٗک… انسٹاگرام… واٹساپ.. ٹویٹر وغیرہ اسی سائیبر خلا کے مختلف چینل ہیں… بالکل اسی طرح جس طرح کسی بہت عظیم جھیل سے پانی کی نکاسی کے لیے نہریں (canal) کھودی جائیں تاکہ مختلف جگہوں یا علاقوں کو پانی سے سیراب کیا جا سکے!
سائیبر خلا کے منفی استعمال کا ایک شیطانی شاخسانہ سائیبر دھشیت گردی ہے… یعنی cyber terrorism!! سائیبر دھشیت گردی میں شدت پسند (radical) لوگ جو کسی مخصوص نظریہ (ideology) کے ہلحامی ہوتے ہیں اپنی مخصوص آئیڈلوجی سے اوروں کو اپنی طرح شدت پسندی(radicalization)کی طرف مائل کرنے کے واسطے سائیبر خلا کا استعمال کرتے ہیں..
ابھی ابھی چند دن ہوئے یعنی 15 جنوری 2022 کو دہلی پولیس نے ایک اکیس سال کے انجینئرنگ اسٹوڈنٹ… نیرج بشونی.. کو گرفتار کیا… اس انجینیرنگ طالب علم نے بُولی بائی ( Bulli Bai)نام سے ایک دیجٹل سافٹ ویر (application) بنایا تھا جس پر مسلمان عورتوں جن میں جرنلسٹ… ایکٹوسٹ شامل ہیں … یہاں تک کہ جے این یو لاپتہ (missing) طالب علم نجیب احمد کی ماں کو بھی بولی(auction) کے لیے ڈالا تھا… یہ مذموم اور قابل مذمت حرکت ہے جس سے دنیا کا کوئ بھی باحس.. باشعور… اور با اخلاق انساں احسن نظروں سے نہیں دیکھے گا بلکہ پہلی ہی نظر میں اس فعل سے نفرت کرے گا….!
نیرج بشونی کے اس سارے شاخسانے پر Mr Kaushik Deka انڈیا ٹوڈے میگزین میں اپنے مضمون ” The Poisoned Well” کے تحت تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
” Despite his wallflower behaviour on social media, Neeraj Bishoni kept a Quora profile, and his words there…….offer us peeks into a mind warped by radicalism.
ترجمہ :
سوشل میڈیا پر سیدھے سادے چال چلن کے باوجود ‘ نیرج کا ایک کورا پروفائل بھی ہے اور اسکے الفاظ……… ایک ایسے ذھن کو سامنے لاتے ہیں جو شدت پسندی یعنی دھشیت گردی میں ڈھالا گیا ہے!
بادالنظری میں دیکھا جائے تو نیرج بشونی ایک مجرم نظر آتا ہے… مگر ذرا گہرائی میں جاکر پتہ چلتا ہے وہ ایک شدت پسند اور دہشت گرد ہے… جو سائیبر خلا کا غلط استعمال کرتا ہے! جو سائیبر نیٹورک… بظاہر… اومکاریشور… وشال کمار…. ماینک راوت… شویتا سنگھ…. جو نیرج بشونی کیساتھ بولی بائی ڈیجٹل اسکینڈل میں ملوث پائے گئے سائیبر مجرم ( cybercrimnal) جنہوں نے سائیبر جرم( cyber crime) کیا ہے مگر بباطن یہ سائیبر دھشیت گرد جنہوں نے ایک خاص فرقہ کے جذبات مجروح کیے… انکو ذھنی کرب میں مبتلا کیا….!!
اسطرح کشمیر میں سوشل میڈیا پر بالخصوص فیسبک اور ٹویٹر پر جعلی ناموں سے بھی اور معلوم چہروں سے ” تحریک” کے نام سے شدت پسندی کو فروغ دینے میں توانائیاں صرف کرتے ہیں…. ان میں اکثر کی تعداد ایسوں کی ہے جو کشمیر مسلہ کے ابجد سے بھی واقفیت نہیں رکھتےہیں … جنکو محض انکے سفلی جذبات اڑائے جارہے ہیں… مگر چند ایسے بھی ہیں جو باہر کے ملکوں میں پڑھتے اور رہتے ہوئے اس کارِبد سے ڈالر کماتے ہیں… جن میں ذیاد تر ” ملٹنسی سے وابستہ افراد جیسے علی شاہ (گیلانی)…. شبیرشاہ….. آسیہ اندرابی…ایوب ٹھاکر وغیرہ کے بچےقابل ذکر ہیں….. ان بچوں کے والدین نے بھی تحریک کے نام پر معصوم کشمیروں کا لہو پی لیا اور اب ان کے صاحبزادے اور صاحبزادیاں بھی سائیبر نیٹورک کے ذریعہ سے کشمیری نوجوانوں کو گمراہی پر ڈال رہے ہیں اور خود انگلینڈ… ملیشیا… کینیڈا…. جیسے ملکوں میں اعلیٰ تعلیم کے ساتھ ساتھ ڈالر بھی کماتے ہیں…
عام کشمیری نوجوانوں کو چاہیے کہ ہوش کے ناخن لیں…. اور ان افراد کا کھلے ذھن سے مشاہدہ اور تجزیہ کریں جو انہیں سوشل نیٹ ورکنگ سائٹوں پر تحریک کے حوالے سے ریڈکلیزیشن کا پاٹ پڑھاتے ہیں…. اور کھلی آنکھوں سے ان افراد کو جو سوشل میڈیا پرتحریک کے علم بردار بنے بیٹھے ہیں دیکھنا چاہیے کہ وہ کہاں ہیں؟ کیا کرتے ہیں؟ اور جس روپیہ پیسہ پر وہ باہر کے ملکوں میں بڑے بڑے اسکولوں میں اور بڑی بڑی یونیورسٹیز میں اعلیٰ تعلیم پڑھتے ہیں ‘ وہ روپیہ پیسہ کدھر سے آتا ہے؟ پیسے نا پیڑ پر لگتے ہیں نہ گھاس کی طرح زمین اگاتی ہے!
افسوس صد افسوس! جن لوگوں نے کشمیری جوانوں کو تحریک کا پاٹ پڑھایا انکے بچے اعلیٰ عہدوں پر فائض ہیں…. اعلیٰ یونیورسٹیوں میں اعلیٰ ڈگریاں حاصل کررہے ہیں…. اور جو سیدھےسادے کشمیری انکے بہکاوے میں آئے یا تو وہ اپنے پیچھے یتیم اور بیوائیں چھوڑ گئے یا پھر آج مجبور و مقہور زندگی گذار رہے ہیں… اور انکے بچے پریشان و پراگندہ حال ہیں!
ھندوستان میں جو بھی باشعور انسان سائیبر خلا سے جڑا ہے اس سے چاہیے کہ وہ اس نعمت کو اپنے معاشرے اور ملک کی بہبودی کی خاطر استعمال کرے اور ایک سائیبر انسانیت نواز یعنی cyber-humanist بنے نہ کہ
cyber- terrorist!…
حکومت کو چاہیے کہ چند حفاظتی اقدامات کو بروئے کار لائے :
** ایک قانون
Cyber Infiltration prevention Act
وضع کرے تاکہ ساییبر شدت پسندوں پر قدغن لگائی جاسکے
** حکومت کو چاہیے کہ ایک سائیبر ڈائکرٹوریٹ قایم کرے جسکے ہر ضلع میں ایک ضلع سائیبر نگراں کمشن
(District Monitoring Cyber Commission) کا ماتحتی دفتر ہو اور اسکے باضابطہ اصول و قوانین متعین کی جائیں
** سائنس اور ٹیکنالوجی کے زیر وزارت ایک ٹریننگ انسٹچوٹ قائم کیا جائے جہاں انفارمیشن ٹیکنالوجی(IT) کے شعبے سے منسوب اسٹوڈنٹ کو سائیبر نگرانی( Cybermonotoring) کی مخصوص ٹریننگ دی جائے..!
یہ مضمون RAND جو امریکہ کی تھنک ٹینک ہے کی ایک اسٹڈی کے لائن پر مختتم کرتا ہوں :
” Furure conflicts will be fought more by networks than by hierarchies and that whoever masters the network form will gain major advantages.”
ترجمہ : مستقبل کے تنازعات تنظیم بندی سے نہیں بلکہ نیٹورکوں سے لڑے جائیں گے….. اور جو نیٹورک میں ذیادہ صلاحیت مند ہوگا وہ ذیادہ منفعت پائے گا۔