سری نگر، 25 جون سی پی آئی (ایم) کے سینیئر لیڈر اور پیپلز الائنس فار گپکار ڈیکلریشن (پی اے جی ڈی) کے ترجمان محمد یوسف تاریگامی نے کہا کہ کل جماعتی اجلاس کے دوران وزیر اعظم نریندر مودی نے ہمیں بغور سنا لیکن مطالبات پورا کرنے اور گوناگوں خدشات کا ازالہ کرنے کی کوئی ٹھوس یقین دہانی نہیں کرائی۔
مسٹر تاریگامی نے نئی دہلی سے یو این آئی اردو کو فون پر بتایا: ‘جہاں تک بات، توقعات یا میٹنگ سے کیا نکل کر آیا ہے، کی ہے پہلی بات یہ ہے کہ ہمیں بولنے کا موقع ملا ہے اور دوسری بات یہ ہے کہ ہمیں اپنے مطالبات و خدشات پر وزیر اعظم کی طرف سے کوئی ٹھوس یقین دہانی نہیں ملی ہے۔ میں اس سے زیادہ کچھ نہیں کہوں گا۔’
انہوں نے کہا: ‘میں نے وزیر اعظم سے کہا کہ آپ نے میٹنگ بلائی اور ہمیں بولنے کا موقع دیا جو ایک قابل تحسین اقدام ہے لیکن اچھا یہ ہوتا اگر ایسی ایک میٹنگ پانچ اگست 2019 کے فیصلے لئے جانے سے قبل بلائی جاتی’۔
یہ پوچھے جانے پر کہ کیا آنے والے دنوں میں سری نگر میں پی اے جی ڈی کی کوئی میٹنگ متوقع ہے تو ان کا کہنا تھا کہ فی الحال ہم دہلی میں ہی ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا: ‘میں ہفتے کو سری نگر کے لئے روانہ ہو جائوں گا۔ باقی لیڈران کا کیا پروگرام ہے میں نہیں جانتا۔ میں نے کسی سے پوچھا بھی نہیں’۔
بتا دیں کہ قومی راجدھانی نئی دہلی میں جمعرات کو وزیر اعظم مودی نے اپنی سرکاری رہائش گاہ پر جموں و کشمیر کی سبھی سیاسی جماعتوں کے رہنمائوں کی میٹنگ کی صدارت کی جس میں آٹھ سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے 14 سیاسی رہنمائوں بشمول چار سابق وزرائے اعلیٰ نے شرکت کی۔
وزیر داخلہ امت شاہ، لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا اور وزیر اعظم کے دفتر میں تعینات وزیر مملکت ڈاکٹر جتیندر سنگھ بھی اس میٹنگ میں موجود تھے۔
بتایا جا رہا ہے کہ میٹنگ کے دوران وزیر اعظم مودی نے سیاسی رہنمائوں کو خصوصی آئینی حیثیت کی بحالی کا وعدہ کیا ہے نہ ریاستی درجے کی فوری بحالی کا۔ تاہم اسمبلی حلقوں کی از سر نو حد بندی کے فوراً بعد اسمبلی انتخابات کرانے کا وعدہ کیا ہے۔
پانچ اگست 2019 کے بعد یہ پہلی بار ہے کہ جموں و کشمیر کے سیاسی رہنماؤں کو وزیراعظم مودی سے ملاقات کے لیے مدعو کیا گیا تھا۔
حکومت نے پانچ اگست 2019 کو نہ صرف جموں و کشمیر کو حاصل خصوصی آئینی حیثیت ختم کی تھی بلکہ اس خطے کو دو حصوں میں تقسیم کر کے وفاق کے زیر انتظام دو علاقوں میں تبدیل کر دیا تھا۔
حکومت نے یہ سخت اقدامات اٹھانے سے ایک روز قبل یعنی چار اگست کو اکثر سیاسی رہنمائوں بشمول تین سابق وزرائے اعلیٰ ڈاکٹر فاروق عبداللہ، عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی کو سخت قوانین کے تحت نظر بند کر دیا تھا۔
بعد ازاں ان میں سے کسی کو سات ماہ بعد تو کسی کو 14 ماہ بعد رہا کر دیا گیا۔ محبوبہ مفتی کی جماعت پی ڈی پی کے دو رہنما ایسے ہیں جنہیں گذشتہ روز وزیراعظم مودی کے اجلاس کے دعوے نامے تقسیم ہونے کے دوران ہی رہا کیا گیا۔
یو این آئی
وادی کشمیر میں وقف اثاثوں کی صحیح نگرانی اور ترقی ناگزیر
وقف املاک نہ کسی مذہبی لیڈر کی ملکیت ہوتی ہے اور ناہی کسی خاص انجمن کی ملکیت ہے بلکہ یہ...
Read more