سری نگر، 7 جون محکمہ تعلیم کی طرف سے کورونا کرفیو کے دوران تعلیم کی شمع کو فروزاں رکھنے کے لئے آن لائن کلاسز کا اقدام ایک بار پھر سعی لاحاصل ہی ثابت ہو رہا ہے۔
والدین کا ماننا ہے کہ آن لائن کلاسز سے کمیونٹی کلاسز زیادہ موثر ہیں لہٰذا انتظامیہ کو کمیونٹی کلاسز کا فوری طور اہتمام کرنا چاہئے۔
ان کا کہنا ہے کہ بچے آن لائن کلاسز کے دوران موبائل فون پر اپنی دلچسپی کی گیمز وغیرہ کھیل رہے ہوتے ہیں جبکہ دور افتادہ دیہات میں کہیں انٹرنیٹ سہولیات کا مسئلہ ہے تو کئی علاقے ایسے بھی ہیں جہاں والدین کے پاس سمارٹ فون ہی نہیں ہیں۔
لوگوں کا کہنا ہے کہ دیہات میں کمیونٹی کلاسز کا بہترین بندوبست کیا جاسکتا ہے لیکن انتظامیہ اس کی جانب متوجہ ہونے کی زحمت گوارا نہیں کر رہی ہے۔
بتا دیں کہ وادی کشمیر میں گذشتہ تین برسوں سے تعلیم و تربیت کا سلسلہ مسلسل معطل ہے جس کی وجہ سے طلبا کا مستقبل داؤ پر لگ گیا ہے۔
نثار احمد نامی ایک والد نے یو این آئی اردو کے ساتھ بات کرتے ہوئے کہا کہ آن لائن کلاسز ایک فضول مشق ہے بلکہ کمیونٹی کلاسز اس سے زیادہ موثر ہیں۔
انہوں نے کہا کہ بچے آن لائن کلاسز کے دوران موبائل فون پر اپنی پسند کی گیمز وغیرہ کھیل رہے ہوتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اس سے بچوں اور اساتذہ کی حاضری ضرور ہو جاتی ہے لیکن پڑھائی نہیں ہوتی ہے۔
موصوف والد کا الزام تھا کہ نجی سکولوں میں تو کچھ نہ کچھ ہوتا ہے لیکن سرکاری اسکولوں میں جواب دہی کا کوئی نظم ہے نہ احساس ذمہ داری۔
ایک دیہی علاقے کے والد نے اپنا نام مخفی رکھنے کی خواہش ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے علاقے میں اچھی طرح سے کمیونٹی کلاسز لئے جا سکتے ہیں لیکن نہ انتظامیہ اس کی طرف متوجہ ہے اور نہ ہی اساتذہ اس بات سے بخوبی وقف ہونے کے باوجود بھی ایسا کرنے کی زحمت گوارا کر رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ بعض پڑھے لکھے رضا کار نوجوان گاؤں سے کچھ دور وسیع و عریض سبزہ زاروں میں بچوں کو لے کر سماجی دوری کا خیال رکھتے ہوئے پڑھاتے ہیں لیکن سرکار سے موٹی رقم تنخواہ وصول کرنے والے اساتذہ اپنے ہی کاموں کے ساتھ مصروف ہیں۔
ایک والد جس کا بچہ ایک سرکاری اسکول میں زیر تعلیم ہے، نے بتایا: ‘میرا بچہ ایک سرکاری اسکول میں پڑھتا ہے اس کو آج یہ بھی یاد نہیں ہے کہ وہ کس جماعت کا طالب علم ہے کیونکہ اب ایک سال ہی نہیں بلکہ مسلسل تین برسوں سے وہ کتابوں اور اسکول سے دور ہے’۔
انہوں نے کہا سرکاری اساتذہ کے اپنے بچے بڑے نجی تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم ہیں جہاں کچھ نہ کچھ تو پڑھایا جاتا ہے اور اس کے علاوہ وہ خود بھی صبح یا شام کے وقت اپنے بچوں کو پڑھا سکتے ہیں لیکن ان بچوں جن کے والدین ان پڑھ ہیں، کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔
ایک اسکالر نے بتایا کہ لاک ڈاؤن کے دوران شعبہ تعلیم سب سے زیادہ متاثر ہوتا ہے جبکہ یہ شعبہ سب سے کم متاثر ہونا چاہئے تھا کیونکہ اس شعبے کو ہونے والے نقصان کی تلافی مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے۔
انہوں نے بتایا کہ شعبہ تجارت کو ہونے والے نقصان کی بھر پائی بھی کی جا سکتی ہے اور اس کو برداشت بھی کیا جا سکتا ہے لیکن شعبہ تعلیم کا نقصان نا قابل برداشت بھی ہے اور اس کی بھرپائی نا ممکن بھی ہے۔
ان کا مطالبہ تھا کہ انتظامیہ کمیونٹی کلاسز کا اہتمام کر کے بچوں کے تعلیمی مستقبل کو برباد ہونے سے بچائیں۔
یو این آئی