ملک میں گرمی کی شدت میں مختلف چلینجوں کا سامنا
پوری دنیا کے ساتھ ساتھ موسمیاتی تبدیلی کے براہ راست اثرات ہندوستان پر بھی پڑ رہے ہیں جیسا کہ ہم نے ملک میں رواں موسم گرماءمیں دیکھا کہ ملک کے مختلف حصوں میں شدت کی گرمی نے لوگوں کا حال بے حال کردیا تھا کیوں کہ اس طرح کی گرمی پہلے نہیں دیکھی گئی تھی۔ راجستھان کے ریگستانی علاقوں سے لیکر کیرالہ کے ساحلی علاقوں تک غیر متوقع موسم دیکھا گیا جس کے نتیجے میں لوگ مختلف پریشانیوں میں مبتلاءہوئے اور کئی ایک لوگوں کی شدت کی گرمی سے جان بھی چلی گئی ۔ عام طور پر بھارت میں موسم گرماءکے ایام بہت زیادہ پریشان کن رہتے ہیں اور شدت کی گرمی کا لوگوں کو سامنا رہتا ہے لیکن رواں برس یعنی 2024میں درجہ حرارت نے تمام ریکارڈ توڑ دیئے اور جھلسادینے والی گرمی کا اثر رہا ۔ رواں برس کی اگر بات کریں تو ملک کی راجدھانی سے لیکر راجستھان، گجرات ، شمالی ہندوستان کے کچھ حصوں کے علاوہ بہت سے علاقوں میں درجہ حرارت میں اضافہ ہوا یہاں تک کہ 45ڈگری سیلیس سے تجاوز کرگیا ۔ اس شدید گرمی کے نتیجے میں کئی جانوں کا ضیاع ہوا ، کاروباری سرگرمیاں متاثر ہوئیں اور سب سے بڑی بات جو تھی وہ یہ کہ گرمی کے نتیجے میں بجلی کی کھپت زیادہ ہوئی ۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ وادی کشمیر جو عام طور پر متعدل آب و ہوا کےلئے جانی جاتی ہیں میں بھی گرمی کا زور رہا اور آج کل بھی شدید گرمی محسوس کی جارہی ہے ۔ وادی کشمیر میں ماہ جون میں گرمی نے گزشتہ کئی سالوں کا ریکارڈ توڑ دیا جب دن کا زیادہ سے زیادہ درجہ حرارت 35ڈگری سیلیس سے تجاوز کرگیا۔ اسی طرح رواں ماہ یعنی جولائی میں شہر کا زیادہ سے زیادہ درجہ حرارت 35.6 ڈگری سیلسیس ریکارڈ کیا گیا، جو 25 سالوں میں جولائی کا گرم ترین دن تھا۔ اس شدید گرمی نے 1999 میں قائم کیے گئے پچھلے ریکارڈ کو پیچھے چھوڑ دیا، جب درجہ حرارت 37 ڈگری سیلسیس تک بڑھ گیا تھا۔وادی کشمیر کے لوگ اس شدید گرمی کے عادی نہیں ہیں اور جب یہاں پر درجہ حرارت 33ڈگر تک پہنچ جاتا ہے تو بارش شروع ہوجاتی تھی جس سے درجہ حرار ت میں کمی ہوتی تھی لیکن رواں برس ایسا کچھ نہیں ہوا ۔ محکمہ موسمیات کی پیش گوئی کے باوجود بھی بارش نہیں ہوئی اور ناہی درجہ حرارت میں کوئی کمی دیکھنے کو ملی ۔ وادی میں شدید گرمی نے لوگوں کو طرح طرح کے مصائب و مشکلات سے دوچار کیا ۔ گرمی کی بڑھتی شدت نے ان کی صحت کو متاثر کیا، ہیٹ ویو سے اسٹروک کے واقعات بڑھنے کا خطرہ رہتا ہے۔ خاص طور پر بچے ، بزرگ افراد اور مختلف امراض میں مبتلاءلوگوں کو شدید پریشانی ہوئی ہے اور لوگوں کو پانی کی کمی کا بھی سامنا رہا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ گرمی کی لہر نے خطے میں زراعت اور مویشیوں پر پڑنے والے ممکنہ اثرات کے بارے میں بھی خدشات کو جنم دیا ہے۔ زیادہ درجہ حرارت فصل کی ناکامی، پیداوار میں کمی، اور آبپاشی کے لیے پانی کی طلب میں اضافے کا باعث بن سکتا ہے۔ مویشیوں کو بھی گرمی کے دباو¿ کا خطرہ ہے، جو ان کی صحت اور پیداواری صلاحیت کو متاثر کر سکتا ہے۔زرعی سرگرمیوں کےلئے وادی کشمیر میں آب و ہوا معتدل ہے اور زمین زیادہ نم رہتی ہے جس کے باعث پیدار بھی بڑھتی ہے لیکن جب موسم مسلسل خشک رہے گا اور بارش نہیں ہوگی درجہ حرارت بڑھے گا تو زرعی اراضی سوکھے کا شکار ہوگی ۔ اگر ہم وادی میں رواں برس کے گرم موسم کی وجوہات کا پتہ لگانے کی کوشش کریں گے تو ماہرین موسمیات اور ماہرین ماحولیات نے کہا ہے کہ وادی میں موسمی تبدیلی کی سب سے بڑی وجہ جنگلات کا کٹاﺅ ، آبی ذخائر کالفت ہونا اور آلودگی ہے ۔ اس کے علاوہ عالمی سطح پر جو موسمی تبدیلی کا رجحان بڑھ گیا ہے اس کے اثرات جموں کشمیر پر بھی پڑ رہے ہیں۔
موسم گرم رہنے اور درجہ حرارت میں مسلسل اضافہ کے پیش نظر ”اینڈین میٹرولیجیل ڈیپارٹمنٹ“ نے لوگوں کو مشورہ دیا ہے کہ وہ زیادہ درجہ حرارت میں احتیاطی تبدابیر اختیار کریں ۔ لوگوں کو کھلے دھوپ میں نکلنے سے منع کیا گیا اور جسم میں پانی کی مقدار کو بڑھانے کےلئے پانی کا استعمال زیادہ کریں تاکہ ڈی ہایڈریشن “ سے بچاجسکے ۔ جولائی کے مہینے میں ملک میں مون سون شروع ہوتا ہے لیکن رواں برس اس میں بھی تاخیر ہوئی اور مون سون میں تاخیر کے سبب زرعی سرگرمیاں بھی متاثر ہوئیں ہیں۔ کسانوں، خاص طور پر مہاراشٹر اور کرناٹک جیسی موسمی بارشوں پر بہت زیادہ انحصار کرنے والی ریاستوں میں غیر یقینی صورتحال کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ مانسون میں تاخیر سے بوائی کے نظام الاوقات اور فصل کی پیداوار کو خطرہ لاحق ہے۔ بروقت مانسون کی پیشین گوئی پریشانی میں بدل گئی کیونکہ ماہرین موسمیات نے موسمیاتی بے ضابطگیوں کی وجہ سے بارش کے بے ترتیب نمونوں کی پیش گوئی کرتے ہوئے اپنی پیشین گوئیوں پر نظر ثانی کی۔تاخیر نے آبی ذخائر کی سطح کو بھی متاثر کیا، جو آبپاشی اور شہری پانی کی فراہمی دونوں کے لیے ضروری ہے۔ پانی کے تحفظ کے اقدامات ناگزیر ہو گئے کیونکہ چنئی اور بنگلورو جیسے شہر پانی کے ذخائر کی کمی سے دوچار ہیں، جس سے پانی کے پائیدار انتظام کی حکمت عملیوں کی فوری ضرورت کو اجاگر کیا جا رہا ہے۔اگر مون سون کی سرگرمیاں وقت پر ہوتی ہیں تو کسان بھی اسی حساب سے اپنی سرگرمیاں شروع کرتے ہیں لیکن جب اس میں کوئی تبدیلی ہوتی ہے تو کسانوں کو بھی اپنی سرگرمیوں میں تبدیلی لانی پڑتی ہے اور یہ فصل کی پیداوار میں تاخیر کا سبب بن سکتا ہے ۔
جہاں تک رواں برس یعنی 2024میں موسم گرما کی بات ہے تو مختلف شہروں میں کام کرنے والے لوگ گرمی کی وجہ سے واپس اپنے شہروں کو آنے کےلئے مجبور ہوئے جو حالات کووڈ 19میں پیدا ہوئے تھے جب سبھی لوگ اپنے اپنے گھروں کو لوٹے تھے اسی طرح آج بھی مختلف شہروں سے لوگ اپنے وطن پہنچے کیوں کہ گرمی کے نتیجے میں ان کے روزگار کے مواقعے بھی محدود ہوئے ۔ گرمی سے واپس آنے والے شہریوں کا اثر زیادہ راجدھانی دلی اور ممبئی جیسے بڑے شہروں پر زیادہ پڑا جہاں پر پہلے سے ہی بنیاد ی ڈھانچے سے متعلق مسائل ہے ۔ لوگوں کو رہنے کی جگہ کی کمی کا سامنا پہلے سے ہی تھا اوپر سے جب لوگ شہروں سے واپس آئے تو ان مکینوں کو دباﺅ کا سامنا کرنا پڑا۔ اس نے یہ بھی ظاہر کیا کہ شہری بنیادی ڈھانچے ، طبی اور رہائش کےلئے نئے سرے سے منصوبہ بندی کی ضرورت ہے اور صحت عامہ کو بہتر بنانے کی طرف خاص توجہ دینی ہوگی۔
جہاں سال 2024کی گرمی کی شدت نے کئی خامیوں کی نشاندہی کی ہے وہیں اس نے ملک کی ترقی کی سطح کو بھی اُجاگر کیا خاص کر ہندوستان کی سائنسی شعبے میں اختراعی صلاحیت اُجاگر کیا ،بائل ایپلیکیشنز اور خودکار الرٹ سسٹم نے حکام کو کمزور کمیونٹیز تک پہنچنے کے قابل بنایا، جو انتہائی موسمی واقعات کے دوران محفوظ رہنے کے لیے رہنمائی پیش کرتے ہیںکیوں کہ گرمی کی شدت کی قبل از وقت پیمائش اور ابتدائی انتباہات سے لوگ چوکنا رہے جس نے اموات کو کم کرنے میں مدد کی اگر ایسا نہ ہوتا تو اس ریکارڈ توڑ گرمی کی وجہ سے زیادہ سے زیادہ لوگوں کی جان چلی جاتی ۔
ملک میں قابل تجدید توانائی یعنی شمسی توانائی کے شعبے میں کافی ترقی ہوئی ہے اور اس کا استعمال سے ٹیکنالوجی کو بروئے کار لانے کا سلسلہ بھی تیزی سے بڑھ رہا ہے ۔ شمسی توانائی کے زیادہ سے زیادہ استعمال کی وجہ سے کافی حد تک ماحولیات کو بھی تحافظ فراہم ہوگا ۔رواں موسم گرما نے کئی طرح سے ملک کو آگے بڑھنے میں بھی مدد کی ہے اگرچہ اس کے نتائج صحت عامہ پر بھی پڑے ہیں لیکن ان چلینجوں سے نمٹنے کےلئے ملک کو تیار رہنے اور ان کا توڑ کرنے کی طرف بھی اشارہ ملا ہے ۔
EARTH DAY IN KASHMIR: A GREEN SYMPHONY OF PATRIOTISM, POWER AND PRESERVATION
Earth Day, observed globally on April 22, is more than just a calendar occasion it is a worldwide clarion call...
Read more