تیس بتیس برس کے پہلے کشمیر کو جس کسی ذی حس اور باشعور کشمیری نے دیکھا اور جیا ہوگا اسکے وہ کشمیر بلا شک و تردد جنت تھا۔ کیونکہ معنوی اعتبار سے جنت اسی جگہ کو کہیں گے جہاں آدمی چین و امن سے رہے۔ اور واقعی 1990سے پہلا والا کشمیر جنت تھا۔ لیکن 1990سے جب سے پاکستان نے اس جنت کو دہشت گردی کی آگ لگادی یہ جھلس رہا ہے۔لیکن اگر آج کی تاریخ میں اس جلے اور جھلسے جنت میں امن اور آشتی کی ٹھنڈی ہوائیں چل رہی ہیں اور زندگی کی بہاریں کھل رہی ہیں تو اسمیں ہماری فوج کا مسیحائی کردار بھی ہے۔
ہماری فوج نے جہاں دہشت گردی کے خلاف ایک زبردست جنگ لڑی ہیاور اسکے عسکری دم خم کو زیر و زبر کر دیا ہے وہی کشمیری سماج کی عمومی بہبودی و بہتری کے لیے اس نے آپریشن گُڈول کے تحت ایک انقلابی اور اصلاحی کار خیر انجام دیا ہے اور دے بھی رہا ہے۔
کشمیر کی گلی کوچوں نے وہ بھی دن دیکھے ہیں جب دن دہاڑے دہشت گرد بندوقیں لے کر گھومتے تھے۔جس گھر کے اندر چاہتے گھس جاتے تھے۔اپنی من مرضی کا کھانا منگواتے تھے۔ روپیہ پیسہ بھی بزور بندوق عوام سے لیتے تھے۔ مجال تھی کسی کی کہ کوئی زبان کھول سکتا تھا۔ سماج میں عزت داروں کی طرح طرح سے پگڑی اُچھالتے تھے۔ جن کا تعلق سیاست سے تھا ان کو خوفزدہ کرکے دبایا جاتا تھا اور بہتوں کو مخبری کے جھوٹیالزام میں قتل کیا گیا۔ذاتی عنادوں کی بنیاد پر سینکڈوں کی معصوم جانیں لیں۔ لڑکیوں کے چہرے تیزاب سے جلائے گیے۔اسلیے کہ وہ نقاب نہیں پہنا کرتی تھیں۔ بندوق کے بل پر آفسروں سے پیسہ اینٹھ لیتے تھے۔ اتنا ہی نہیں بلکہ بڑے بڑے عسکری کمانڈر اپنے رشتہ داروں اور جان پہچان والوں کو سرکاری نوکریاں بھی دلواتے تھے۔ الغرض دہشت گردی کے اس سیاسی اور سماجی انارکزم میں کشمیر نے خود کو جلتے، جھلستے، اور تڑپتے دیکھاہے۔ راتوں کو تڑپتے دیکھا ہے، دنوں کو ٹرپتے دیکھاہے۔ اس انارکزم میں بچے جلے، جوان جلے، بوڑھے جلے۔ بچے یتیم ہوئے، جوان جوانی میں نظر مرگ ہوئے، جوان عورتیں بیوہ ہوئیں اور بوڑھے ماں باپ بے سہارا ہوئے۔
لیکن اس دہشت گردی اور انارکزم جس کے پیچھے پاکستان کا بے تحاشہ پیسہ اور ہتھیار کام کر رہاتھا کو بالآخر ہمارے ملک کی دور اندیشانہ سیاست اور ہمارے ملک کی دلیرانہ فوج نے قابو کر ہی لیا۔اگرچہ ابھی بھی دہشت گردی کا سانپ پھن اٹھاتا ہے مگر سچ تو یہ ہے کہ یہ اب آخری سانسوں میں لاٹ مار رہا ہے۔
اگرچہ کشمیر میں اس انارکزم پر قابو پانے میں سیاست اور سفارت کا اپنا انفرادی کردار ہے مگر جس کردار کو ہم مسیحائی کردار کہہ سکتے ہیں وہ بلا شبہ ہماری دلیر فوج کا ہے۔ ہماری دلیر فوج نے دیدہ دلیری سے اس دہشت گردی کا کشمیر کے میدانوں سے لیکر کشمیر کے جنگلوں تک اور جنگلوں سے لیکر پہاڑوں تک کیا۔ یہ وہ جنگ تو نہیں تھی جسے دو ملکوں کی فوج دوبدو دن کو لڑتی ہے بلکہ یہ دہشت گردی کی جنگ ہے۔ جسکا نہ کوئی چہرہ ہے اور یہ ہی کوئی شکل۔ یہ وہ دشمن ہے جو جھاڑی میں بھی ہے، گلی میں بھی ہے، بازار میں بھی ہے، گھر کے اندر بھی ہے اور اسکے صحن میں بھی ہے، جو ابھی آگے ہے اور ابھی پیچھے۔ ایسے دشمن سے وہی فوج لڑ سکتی ہے جس کے اندر دلیری کے ساتھ ساتھ کمال حکمت اور کمال صبر ہوگا۔ اور بلا شبہ ہماری فوج نے یہ ثابت کر دیا کہ وہ دلیری، حکمت اور صبر کا ایک قابل تحسین نمونہ ہے۔
ہماری فوج نے اپنی جنگ دہشت گردی کی بیخ کنی تک ہی محدود نہیں رکھی، بلکہ اس نے تعلیم کے میدان میں اُتر کر ناخواندگی اور جہالت کے اندھیرے سے بھی جنگ لڑی اور لڑ رہی ہے۔ آپریشن گُڈول کے تحت اس وقت پانچاس کے قریب اسکول اسٹیٹ بورڑ آف اسکول ایجوکیشن میں رجسٹر ہیں اور میدان میں کام کر رہے ہیں۔ یہ تعلیمی ادارے جہاں پڑھے لکھے جوانوں کے لیے روزگار کا وسیلہ بھی ہیں وہی ان کے اندر اب ہزاروں کی تعداد میں بچے تعلیم کے نور سے بھی منور ہوتے ہیں۔ ان تعلیمی اداروں میں دہشت گردی کیتشدُد کی لپٹ میں آئے بچوں کو ہر طرح کی اعانت اور معاونت سے نوازہ جاتا ہے۔
ہماری فوج نییہ جنگ جہاں عسکری محاذ پر لڑکر دہشت گردی کو دھول چٹائی وہی یہ ایجوکیشن کے میدان میں بھی ایک قابل تحسین کام انجام دے رہی ہے۔
انفراسٹکچر ڈیولپمنٹ فیلڈ میں بھی ہماری فوج آفریں آفریں کی مستحق ہے۔ 1990 کے آغاز میں دہشت گردوں نے پلوں کو بُرباد کیا، جس سے جہاں عوام مشکلات میں مبتلا ہوئی وہی سرکاری مشنری کو بھی مسائل سے دو چار ہونا پڑتا تھا۔ کیونکہ دہشت گردی کی وجہ سے سرکاری مشنری کھل کر کام انجام نہیں دے پاتی تھی۔ لیکن اس عوامی مشکل اور سرکاری پریشانی کا سد باب ہماری فوج نے چھوٹے بڑے ہزاروں لوہے کے پُل بنا کر کیا۔ جن پلوں پر اب سرکار آہستہ آہستہ کام کر رہی ہے۔
اسیطرح آپریشن گڈول کے تحت وُومن اور یوتھ امپاورمنٹ کے باب میں عورتوں کو مختلف طرح کی اسکل ٹرینگ دی جاتی ہے۔ جسمیں کمپوٹر ٹرینگ، بُنائی، سلائی، موم بتی بنانے کی ٹرینگ، تھیلے بنانے کی ٹرینگ، کارپٹ اور باسکٹ بنانے کی ٹرینگ، اور فیشن ڈزایئنگ بہت سیوکیشنل ٹرینگ سنٹرس (وی۔ٹی۔سی) میں فراہم کی جاتی ہے۔
اس مختصر سے آرٹیکل میں ہماری فوج کی وہ مسیحائی کارکردگی کا جائیزہ لینا نہایت ہی مشکل ہے۔البتہ ایک خاکہ سامنے آتا ہے جس سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ ہماری فوج نے نہ صرف کشمیری عوام کو دہشت گردوں کی بندوق سے نجات دلائی بلکہ ہر ممکن فرنٹ پر اس قوم کی اعانت، استعانت اور معاونت کی ہے۔ یہی وہ کار مسیحائی جو ہمارے ملک کی فوج انجام دے رہی ہے۔ ہماری فوج دینا کی وہ پہلی اور آخری فوج ہے جو اپنے عوم کے دلوں کو جیتنے میں اپنا رات دن ایک کر رہی ہے۔
The Smile that Defined You, A Tribute to Prof. Ravina Hassan
I have been more like an Englishman than a Frenchman here while attempting this tribute. The English man observes E.M...
Read more