ہماری ریاست جموں کشمیر میں جہاد کے نام پر جو شورش یا ہنگامہ آریَ جاری ہے کیا واقعی اسکی نسبت اسلامی جہاد سے کی جاسکتی ہے;238; کیا اسلامی اقدار اور اصول اسطرح کی جدو جہد کو سند دیتے ہیں ;238; اگر واقعہ ایسا نہیں ہے، اور یقیناً نہیں ہے، پھر جو مسلمان جہاد کے نام پر اس شورش میں ملوث تھے اور ہیں انکے متعلق اسلام کا ضابط اصول کیا کہتا ہے;238;
ایک مسلمان کسی کے گھر میں بغیر اجازت کے داخل ہوتا ہے ۔ تو قرآن کی نظر میں اس سے ایک اخلاقی جرم صادر ہو جاتاہے ۔ ارشاد ہے: یایھا الذین امنولا تدخلوبیوتاغیربیوتکم حتی تستانسو و تسلموعلی اھلھا ۔ سورہ نور ۔ (مومنو! اپنے گھروں کے سوا دوسرے لوگوں کے گھروں میں گھروالوں سے اجازت لیے اور انکو سلام کیے بغیر داخل نہ ہوا کرو) ۔ اسلام اپنے مانے والوں کی اخلاقی تربیت کرتا ہے کہ مسلمان کسی دوسرے کے گھر میں بغیر اجازت اور سلام کیے داخل نہیں ہوسکتا ۔ اخلاق کا کسقدر اعلی معیار ہے ۔ کیا ایک مسلمان جبراً کسی دوسرے کے گھر میں داخل ہو سکتا ہے;238; جواب ہے نہیں ہو سکتا ہے ۔ یہاں تو جبر کا سوال ہی پیدا نہیں ہو سکتا ہے!
اب ایک نہیں دو نہیں دس دس کا ٹولہ مجاہدوں کے نام سے یعنی اسلامی جہاد کے نام پر اجازت کے بغیر، سلام کے بغیر، بلکل جبراً گھر میں داخل ہوتے ہیں ۔ اور اگر ذرا سی مزاحمت ہوتی ہے تو دراوزے توڑے جاتے ہیں ۔ اور کبھی کبھی تو مار پیٹ تک نوبت آ ٓجاتی ہے ۔ پھر کھانا فرمایئش پر منگوایا جاتا ہے ۔ کشمیر میں جہاد کرنے والوں کا یہ طرز اخلاق رہاہے ۔ آپ قرآن کی سورہ نور کی متذکربالا آیت مبارکہ کی روشنی میں کشمیری مجاہدوں کا طرز اخلاق کا جایئزہ لیں اور فیصلہ کریں کہ کیا یہ کسی بھی صورت میں اسلام کو قبول ہو سکتا ہے ۔ کیا اسطرح کے رویے کو دہشتگردانہ رویہ نہیں کہا جاسکتا ہے ۔ کیا اسطرح کے اخلاق سے گرے عمل کواسلامی جہاد یا قرآنی جہاد سے نسبت دی جا سکتی ہے;238; یہ رویہ دہشتگردانہ ہے اور اسکا دور دور کا بھی تعلق اسلام کے اعلی اخلاقی معیار سے نہیں ہو سکتا ہے!
قرآن کریم کا واضع ارشاد ہے:
قتل نفسا بغیر نفس او فساد فی الارض فکانماقتل الناس جمیعا ۔ و من احیاھا فکانما احیا الناس جمیعا ۔ (جس نے کسی ایک کو قتل کیا جبکہ یہ قتل خون کے بدلے یا زمین میں فساد پھیلانے کے جرم میں نہ ہو تو گویا اس نے تمام انسانوں کو قتل کیا اور جس نے کسی ایک کی جان بچایء تو گویا اس نے تمام انسانوں کی جان بچایَ) ۔ (المایدہ ۔ ۳۲)
بازار لوگوں سے بھرا ہے ۔ لوگوں کی چہل پہل ہے ۔ ایسے میں کچھ ایک مسلمان جو خود کو اسلامی جہاد سے نسبت کرتے ہیں بندوق اور گرنیڈ سے بقول انکے دشمن فوج کے محافظ دستے پر پہلے گرنیڈ سے حملہ کرتے ہیں اور پھر گولیاں چلاتے ہیں ۔ بازار میں اتھل پتھل ہوجاتی ہے ۔ ایک ہولناکی سارے فضا کو گھیر لیتی ہے ۔ ہا ہو کا عالم چھا جاتا ہے ۔ گولیوں کے تبادلے میں (جسکا آغاز کچھ مسلمان جو اپنی نسبت اسلام یا اسلامی جہاد سے کرتے ہیں نے کیا ہوتا ہے)چند گھڑیوں کے بعد بازار سے انسانی لاشیں اُٹھایء جاتی ہیں ۔ کبھی پانچ، کبھی دس، کبھی بیس! لاشوں کے ساتھ ان سے دوگنی یا تگنی تعداد میں اسپتالوں میں زخمی ایڈمٹ ہوجاتے ہیں ۔ کویء آنکھ سے محروم ہوجاتا ہے ۔ کویء ٹانگ سے لاچار ہوجاتاہے ۔ کویء بازو سے معذور ہو جاتا ہے ۔ اور جن کی لاشیں اُٹھایء جاتی ہیں وہ اپنے پیچھے یا بے سہارا ماں باپ یا بچے یتیم اور انکے ساتھ بیوا مایئیں ۔
بازار کی اس شورش میں جسکی بھی لاش اٹھی وہ ناحق قتل ہے ۔ اور ناحق قتل قرآن کی روشنی میں (یعنی اس اسلام کی روشنی میں جس کے ساتھ گرنیڈ اور گولیاں چلانے والے مسلمان اپنی جدو جہد کی نسبت کرتے ہیں )ساری انسانیت کا قتل ہے ۔ اور یہ انسانیت کا قتل ایک بار ہی نہیں ہزارہا ہزارہا بار ہوتا ہے ۔ قتل ناحق میں گری انسانی لاش چاہے وہ ہندو کی ہو،، سکھ کی ہو، مسلم کی ہو، کسی کی بھی ہو انسانیت کے قتل کا اعلان ہوتی ہے ۔ اور انسانیت کا یہ قاتل اپنے آپ کو قرآن سے نسبت دیتا ہے!اپنے آپ کو مسلمان کہتا ہے! یہاں پر، اس صورتحال میں ، یہ مسلمان اور قرآن دو قطعی متضاد چیزیں ہیں ۔ جنکا ایک ساتھ جمع ہونا قطعی ناممکن ہے!
اس صورتحال کا دوسرا بدنما اور انسانیت سوز پہلو یہ ہے کہ یہ اپنے آپ کو مسلمان کہنے والے، اپنے آپ کو قرآن سے منسوب کرنے والے، اپنے آپ کو مجاہد کہنے والے، اپنے اس جہل اور جبر والے جہاد سے ہزار ہا والدینوں کو بے سہارا کر جاتے ہیں ۔ ہزارہا بچوں کو یتیم اور بہنوں کو بیوا کر جاتے ہیں ۔ ان سب کی زندگیاں جہنم زار بن جاتی ہیں ۔ جہاں انکی انفرادی زندگیاں شکستہ اور زبوں حال ہو جاتی ہیں وہی مجموعی سطح پر سارے سماج پر اسکے بریاور منفی اثرات پڑتے ہیں ۔ کیونکہ ہر سماج آپ میں ایک اکایَ ہوتا ہے، جس میں ہر ایک دوسرے کو متاثر کرتا ہے ۔
جو بھی شخص چاہے وہ مرد ہو، عورت ہو، جوان ہو یا عمر رسیدہ ہو اور مسلمان بھی ہو،اگر وہ(کشمیر میں اس چلتی شورش کا جسکا نام جہاد رکھا گیا ہے)بلاواسطہ یا بلواسطہ طورسے حصہ بنتا ہے، تو اسے سمجھ لینا چاہے کہ وہ ایک عظیم گناہ کا حصہ ہے! وہ ایک عظیم فتنہ کا حصہ ہے!
یہ جو ریاست میں پچھلی تین دہایئیوں سے جہاد کے نام پر کیا جا رہا ہے ۔ یہ ایک شورش ہے، ایک فتنہ ہے! اسکا تعلق مسلمان سے نہیں ، مسلمانی سے نہیں !انسان سے نہیں ، انسانیت سے نہیں !