شکیلہ اندرابی؍سرینگر؍ سرینگر شہر میں ٹریفک جام پر قابو پانے کے لئے یوں توکئی اقدامات کرنے کا دعویٰ تو متعلقہ محکمہ کررہا ہے ۔اور شہرسرینگر کے لگ بھگ ہر ایک چوراہے پر اب ٹریفک کو قابو کرنے کے لئے سگنل بھی لگائی گئیں ہیں لیکن ان ٹریفک سگنلوں کا تب کوئی فائدہ ٹرانسپورٹر کو حاصل ہوگا ۔جب ان کے مطابق ٹریفک کی آوا جاہی ہوگی اور دوسرا مسئلہ یہ بھی ہے کہ اگر اسی سگنل کے ہی راستے سے ٹرانسپورٹ کو آنے جانے دیا جائے گا۔لیکن یہاں تو کچھ عجیب ہی صورتحال ہر ایک سگنل کے چوراہے یا three way پر دیکھنے کو مل رہی ہے جہاں پر ٹریفک کو کنٹرول کرنے کے لئے ان سگنلوں کو لگا یا گیا ہے ،وہاں سے تو ٹریفک کی آوا جاہی کی اجازت ہی نہیں رکھی گئی ہے۔بلکہ یا تو عارضی راستے بناکر ٹریفک کو اسی طرف موڈ دیا گیا ہے یا پھر اس سے آگے والے یو ٹرن کے پاس گاڑیوں کو موڑنے کی اجازت رکھی گئی ہے ۔عام لوگ یہ تعجب کررہے ہیں کہ اگر ٹریفک سگنل پوری دنیا میں اس لئے لگائی گئی ہیں کہ ٹریفک کا نظام بلا خلل جاری رہے تو پھر سرینگر شہر میں ٹرانسپورٹروں کو ان ٹریفک سگنلوں کا کیا فائدہ جب ٹریفک کو نہ ہی ان کے ماتحت رکھا گیا ہے ا ور نہ ہی ٹریفک کواس طرف سے آنے یاجانے کی اجازت رکھی گئی ہے ۔بلکہ آگے جاکر گاڑیوں کو کسی اور موڈ پر ‘U TURN’ لینا پڑتا ہے ۔مثال کے طور پر مولانا آزاد روڑ پر چار جگہ پر ٹریفک سگنل لگائی گئی ہیں لیکن سنگر مال کمپلیکس،مولانا آزاد وومن کالج کے سامنے اور KMD یارڈ کے سامنے لگائی گئی سگنلوں میں سے ایک بھی جگہ نہیں ہے جہا ں پر ٹریفک کو چاروں طرف سے نکلنے کا راستہ دیا گیا ہے ۔ہر ایک جگہ پر یا تو دوطرف کھلے رکھے گئے ہیں یا پھر تین ایک یا دو سائیڈ بند رکھے گئے ہیں۔اسکے علاوہ عبداللہ پل کے پار بھی ایسا ہی نظارہ پیش کیا جارہا ہے ۔جہاں سنگل کے ایک سائیڈ کو بند کرکے آگے راجباغ جاکر گاڑی موڈ دینی پڑتی ہے ۔عوامی حلقوں کے مطابق شہر کے بیچوں بیچ جتنی بھی ٹریفک سگنل لگائے گئے ہیں ان پر ٹریفک پولیس کا کوئی بھی اہلکار ڈیوٹی پر نہیں ہے جو ٹریفک نظام کی درستی کرنے میں مدد کرتا۔اسی طرح سے بائی پاس پر بھی کئی جگہ پر شہر کے اندر آنے اور شہر سے باہر جانے کے راستوں پر ٹریفک سگنل لگائے تو گئے ہیں لیکن بمنہ کراسنگ پر سڑک کو بند کر کے ٹرانسپورٹروں کے لئے ایک ایسی مصیبت کھڑی کر دی گئی ہے جس کی کوئی مثال نہیں۔مستقل راستہ بند کرکے بائی پاس جیسی مصروف شاہراہ پر سڑک کو بیچوں بیچ کاٹ کر اس طرح خطر ناک طریقے سے یو ٹرن رکھا گیا ہے جس میں حادثات ہونے کا زیادہ خطرہ لگ رہا ہے ۔اس کی کیا وجہ ہے کہ ٹریفک سگلنل لگا کر بھی ٹریفک کو اس سائیڈ سے نکلنے کی اجازت نہیں رکھی گئی ہے ۔یہ کیا معاملہ ہے کہ اپنی مقررہ جگہ سے سڑک کو کراس کرکے جانا نہیں بلکہ آگے والے یو ٹرن پر ہی گاڑی موڑنے کی اجازت ہے ۔ٹرانسپورٹروں کا الزام ہے کہ اس طرح کا ٹریفک نظام چلانے کاقانون شاید وادی کے بغیر کسی اورجگہ لاگو نہیں ہوگا ۔کیونکہ ٹریفک سگنل کا مطلب ہی ہے کہ ٹریفک کو ایک منظم طریقے پر چلانے پر شہریوں کومجبور کیا جائے ۔یہ نہیں کہ جس طرف سے مرضی بنے اس طرف ہانکا جائے ۔عوامی حلقوں نے یہ بھی سوال کیا ہے کہ کیا ان DIVERSIONS کو بنانے کی اجازت اعلیٰ حکام کی طرف سے ہی ملی ہے یا یہ کام فیلڈ عملہ جو خود کو زیادہ محنت سے بچانے کے چکر میں ا یسا کرتا ہے ؟تاکہ دن پھر آرام سے موبائل فون پر ویڈیو گیموں کا لطف اُٹھا یا جاسکے۔اور ٹریفک کی نقل وحمل میں آرہی دشواری سے کم سے کم اس جگہ پر بچا جاسکے ۔لیکن یہ بھی غور طلب ہے کہ ابھی سردیوں کا موسم ہے اور کچھ لوگ سردی سے بچنے کے لئے دوسری ریاستوں میں ابھی رہایش پذیر ہیں۔یا پھر چند لوگ تجارتی مقاصد کے لئے وادی سے باہر گئے ہوئے ہیں۔اور ٹریفک کا دباؤ کافی حد تک کم ہے ۔لیکن جیسے جیسے موسم بہار آنے لگے گا اور نہ صرف وہ لوگ اپنے گھروں کو آئیں گے بلکہ سیاحوں کی آمد بھی شروع ہوگی ۔اسکے علاوہ باہری ریاستوں سے لاکھوں کی تعداد میں مزدوری کرنے اور گداکری کرنے کے لئے بھی لوگ وادی کی طرف لوٹ کر آئیں گے۔ تو اس وقت کس طرح سے ٹریفک کا نظام درست رہے گا ۔ان یوٹرنوں پر جو اصل جگہ سے ہٹا کر یا ڑکاوٹیں کھڑی کرکے بند کی گئی ہیں۔یہ دیکھنے والی بات ہوگی۔ اس کے علاوہ ٹریفک پولیس سڑکوں پر کھڑی گاڑیوں کو اگر ہٹانے کا کام بھی کرتا تو شاید ٹریفک کی درستگی اس سے بھی ہوتی ۔شہر سرینگر کے سارے علاقوں میں روڑ سائیڈ پارکنگ کی مصیبت نے جس قدر عوام کو پریشان کیا ہوا ہے ۔اس کی کوئی حد نہیں۔سڑکوں کے دونوں کنارے پارکنگ والی گاڑیوں سے بند ہیں۔ایسے میں ٹرانسپورٹ کا نظام کیسے درست ہوگا۔شہر خاص کے نوہٹہ خانیار اور دوسری جگہوں پر تو بڑی سڑکوں کو گلیوں میں تبدیل کیا گیا ہے ۔ مشکل سے ایک ہی گاڑی کے نکلنے کی جگہ رکھی گئی ہے ۔ایسے میں راہ گیراور ٹرانسپورٹر کن مشکلات کا سامنا کررہے ہیں وہ تو عوام ہی جانتے ہیں۔کیونکہ حکام تو خاموش تماشائی بن کر دیکھ رہے ہیں۔
G20 meeting will open new avenues for educated youth
جی ٹونٹی اجلاس سے تعلیم یافتہ نوجوانوں کے لئے نئی راہیں کھلیں گی...
Read more