تحریر:الطاف مير/پی ایچ ڈی اسکالر
جامعہ علیہ اسلامیہ
جب بھارت میں سیاسی گفتگو اکثر تقسیم در تقسیم اور دو ٹوک خیالات کے گرد گھومتی ہے، ایک خاموش ثقافتی انقلاب جنم لے رہا ہے۔ مسلم تخلیق کاروں کی ایک علی فصل – فلم ساز، ادیب، مزاح نگار، سوشل میڈیا اثراندازہ اور ڈیجیٹل کاروباری شخصیات – اس بات کو نئے سن سے متعین کر رہی ہے کہ مسلمانوں کو کی نظر سے دیکھا اور پیش کیا جائے۔ ان کا کام شناختی سیاست سے آگے بڑھ کر ہندوستانی تنوع اور اجتماعیت کی روح سے ہم کلام ہوتا ہے، وہ تم تو مرکزی دھارے کی منظوری حاصل کرنے کے لیے محض تخالفی کردار ادا کر رہے ہیں، اور تم ہی خاموشی اختیار کر کے گوشہ نشین ہو رہے ہیں، بلکہ وہ اپنی کہانیوں کو ہندوستانی بیانیے کا لازمی حصہ بنا کر پیش کر رہے ہیں۔
تاریخی طور پر بھارتی عوامی ثقافت اور ذرائع ابلاغ نے مسلمانوں کو محدود زاویوں سے پیش کیا ہے ۔ کبھی انہیں ایک پرکشش اور غیر معمولی شبیہ کے طور پر دکھایا گیا، اور کبھی مکمل طور پر حاشیے پر رکھا گیا۔ مغل اعظم کی شان و شوکت سے لے کر 11/9 کے بعد دہشت گرد کے دقیانوسی گردارون تک باریک بینی اور حقیقت يعندالم علامي شاذ و نادر ہی دیکھنے کو ملی ممتاز مطلق شوینی گھول کے بجا طور پر نشاندہی کی ہے کہ بالی وڈ میں مسلمان کرداروں پر علامتی بوجه لاد دیا گیا ہے ۔ اکثر انہیں مظلوم عالم یا گزرتے ہوئے ماضی کی باقیات کے طور پر پیش کیا جاتا ہے، ایسے سطحی اور محدود خاکے 20 ملین سے زائد افراد پر مشتمل ایک پوری قوم کو یکسان دکھا کر اسے کی وسعت، تنوع اور رنگارنگی کو نظرانداز کرتے ہیں لیکن آج ایک على فعل اس بیانیے کو ازسرنو لکھ رہی ہے۔
حسن منہاج کی مثال لیجیے، جن کے لیفلکس تو بھارتی ناظرین کے دلوں کو چھو لیا، اگرچہ وہ امریکہ میں علیم ہیں، لیکن بھارتی سیاست اور قوم پرستی پر ان کی باریک بین اور جرات مندانہ گفتگو نے وطن میں اہم مکالمے کو جنم دیا، وہ ایک ایسے مہاجر آواز کی نمائندگی کرتے ہیں جو جنوبی ایشیائی شناخت آزاد ہے۔ میں جڑی ہوئی ہے، لیکن ریاستی بیانیوں کی حدود سے ڈیجیٹل پلیٹ فارمز متبادل بیانیوں کے لیے زرخیز زمین بن چکے ہیں۔ پوتیوں اور انسٹاگرام پر مسلم تخلیق کار کھانے، فیشن، سیاست، ادب اور ایمان جیسے موضوعات کو مجالی اور ذہانت کے ساتھ پیش کر رہے ہیں دانش علی، عادل خان اور ایمن سہانی جیسے الرانداز افراد ایسا مواد تخلیق کر رہے ہیں جو مسلمانوں کی روزمرہ زندگی کو معمول کا حصہ بنا کر دکھاتا ہے، اور ان اجاره داران نظریاتی سانچوں کو توڑتا ہے جو پرانے ذرائع ابلاغ نے قائم کر رکھے تھے۔ ادھر اے آر رحمان سلمان علی اور سلیم سلیمان جیسے فنکار طویل عرصے سے ایک کثرت پسند ثقافتی سرچ کے علم بردار رہے ہیں۔ ان کا تخلیقی اشتراک مذہبی حدبندیوں سے بلند ہو کر ایک زیادہ جامع قومی شناخت کو فروغ دیتا ہے۔ خالد جاوید جیسے معاصر لکشن نگار جن کے ناول The Paradise of Food نے 2022 کا جے سی بی انعام برائے ادب حاصل کیا – باده اشت. خواہش اور ماورالیات جیسے موضوعات میں گہرائی سے اترتے ہیں اور مسلم زندگی کی ایسی داخلی تصویریں پیش کرتے ہیں جو دقیانومی تصورات یا مظلومیت کے خانوں سے بالاتر
پیو ریسرچ سینٹر کی ایک رپورٹ (2021) کے مطابق، 14 فیصد بھارتیوں کا مالک ہے کہ تمام مذاہب کا احترام ضروری ہے۔ تاہم اسی تصورت سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ بہت سے لوگ اپنی مذیبی شناخت کو ذاتی اور سماجی زندگی سے الگ رکھنا پسند کرتے ہیں، جو اس بات کی علامت ہے کہ معاشرے میں گیری فرقہ وارانہ خدشات موجود ہیں۔ ایسے میں مسلم فنکارہ جو خوانی اور ثقافتی میدانوں میں اپنی جگہ بناتے ہیں۔ بغیر کسی دقیانوسی تصور کو تقویت دیے، دراصل معمول کا حصہ بننے کا عمل انجام دے رہے ہیں، ان کی کامیابی ان ذہنی دیواروں کو منهدم کرنے میں مدد دیتی ہے، جو عشروں سے ایک منظم صحاح میں رہنے کے سبب بہت سے بھارتیوں نے انجانے میں قائم کر لی ہیں۔ ثقافت ان کمیونٹیوں کو دوبارہ چول رہی ہے جو تفرقہ انگیز اور فرقہ وارانہ سیاست کے میں بکھر چکی تھیں، جب کوئی حجاب پہننے والی لڑکی انسٹاگرام کی ایک والول ریل پر بالی ولا نفعے پر رقص کرتی ہے، یا جب کوئی پوڈ کاست اسلامی فن تعمیر اور دلت مسلم یکجہتی
پر روشنی ڈالتا ہے، تو ہم تنوع کو محلی برداشت کرنے کے بجائے اسے عملا قبول ہوئے دیکھتے ہیں۔ یہ صرف مختلف شناختوں کا سالم وجود نہیں، بلکہ ان کے ساتھ بامعلی مکالمہ ہے۔ یہ تخلیق کار تم لو خاموش تماشائی ہیں، نہ ہی تعالی علامت یہ ایک ایسا راستہ بعوار کر رہے ہیں جہاں پر فخر سے مسلمان ہونا اور فخر سے بھارتی ہونا کوئی تضاد نہیں، بلکہ ایک دوسرے کو مکمل کرنے والے مع ہیں۔ اس کے اثرات صرف میڈیا میں تحائندگی تک محدود نہیں بلکہ اس سے آگے
یژه گر سماجی اور سیاسی تبدیلی کی بنیاد رکھتے ہیں۔ یہ تخلیق کار
بھارتی مسلمانوں کو دیکھنے کے زاویے کو بدل کر خود بھارتی ہوئے۔
کے مفہوم کو نئے انداز میں تشکیل دے رہے ہیں وہ اپنی جگہ اپنی
آواز اور اپنا بیانیہ دوبارہ حاصل کر رہے ہیں، پرانا سانچہ لود
رہا ہے ۔ اور اس کی جگہ ایک نیا منظر نامہ ابھر رہا ہے، جہاں
مهارتی مسلمان کسی اور کی کہانی کے کردار نہیں بلکہ خود اس کہانی
کے خالق بن چکے ہیں۔
Kashmir – A Paradise Unexplored
Tucked away in the far north of the Indian subcontinent, Kashmir has often been described as 'Paradise on Earth'. With...
Read more