Jameel mustafa
دنیا میں خوراک کے تحفظ کے سلسلے میں عالمی سطح پر عالمی خوراک کا دن 16اکتوبر کو منایا جاتا ہے ۔ اس دن کا مقصدعالمی سطح پر خوراک اور غذائیت کی اہمیت کو اُجاگر کرنا ہے ۔ اس دن کا آغاز 1945سے اقوام متحدہ کی جانب سے کیا گیا تھا ۔ اس دن کا مقصد پائیدار خوراک کے نظام پر زور دیتے ہوئے بھوک، غذائیت کی کمی، اور غذائی تحفظ کی اہمیت کے بارے میں بیداری پیدا کرنا ہے۔جہاں تک وادی کشمیر میں اس دن کی ہمیت کا تعلق ہے تو کشمیر وادی جس کا قریب ستر فیصدی آبادی کا حصہ زراعت کے شعبے سے تعلق رکھتا ہے میں اس کی امیت بڑھ جاتی ہے ۔اس دن کو مناتے ہوئے وادی کشمیر میں خوراک اور ذراعت کی سرگرمیوں کو درپیش چلینجوں کو اُجاگر کرنے اور ان سے نمٹنے کےلئے کافی اہمیت کا حامل ہے ۔ یہاں اس دن کے حوالے سے اپنی نئی نسل کو زرعی سرگرمیوں کی طرف مائل کرنا اور انہیں اس کے تحفظ کے بارے میں جانکاری فراہم کرنا ہے ۔ عالمی سطح پر اگر ہم نظر ڈالیں تو بہت سارے ایسے ممالک ہیں جن میں خوراک اور غذائی کی قلت پائی جاتی ہے اور عالمی تنظیمیں ”بھوک “ کو صفر تک پہنچانے کےلئے کام کرتی ہیں ۔ دنیا بھر م یں لاکھوں افراد بھوک سے کئی امراض کے شکار ہوتے ہیں خاص کر بچے بھوک اور افلاس کے شکار ہوکر از جان ہوجاتے ہیں۔ اس دن پر ان علاقوں کی طرف خصوصی توجہ دی جاتی ہے اور عالمی سطح پر ایک ہدف مقرر کرتا ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ ممالک کو بھوک سے نجات دلائی جائے ۔
قارئین کو معلوم ہے کہ زندگی گزارنے اور زندہ رہنے کےلئے خوراک بنیادی ضرورت ہے اور یہ انسانی مسئلہ سے جڑا ہوا ہے ۔ اس دن کو منانے کا بھی یہی مقصد ہوتا ہے کہ اس دن کے حوالے سے پوری دنیا کی توجہ ایسے علاقوں کی طرف متوجہ کرائے جائیں جہاں پر لوگ خوراک سے محروم رہنے کی وجہ سے انسانی بحران کے شکار بن جاتے ہیں ۔ خورا ک کا عالمی دن زرعی سرگرمیوں کی ضرورت کو بھی اُجاگر کرتا ہے اور خوراک کو ضائع کرنے کے رجحان کو کم کرنے میں بھی مدد کرتا ہے ۔ جیسا کہ پہلے ہی عرض کیا جاچکا ہے کہ وادی کشمیر میں ستر فیصدی دیہی آبادی براہ راست زرعی سرگرمیوںسے جڑی ہوئی ہے ۔ کشمیر میں صدیوں سے زرعی سیکٹر معاشی استحکام کےلئے فعال ہے ۔ یہاں پر چاول، دالیں ، سیب ، خشک میوہ جات جیسے اخروٹ ، بادام و غیرہ زرعی سرگرمیوں کا اہم حصہ ہے جو یہاں پر نہ صرف معیشت کےلئے اہم ہے بلکہ یہ روزگار کی فراہمی کا بھی ذریعہ ہے ۔ یہ زرعی ورثہ نہ صرف کشمیر کے ماضی کا حصہ ہے بلکہ ہمارے آباو¿ اجداد سے ایک زندہ تعلق اور ہمارے مستقبل کا وعدہ ہے۔کشمیر وادی میں زرخیز زمین ہونے کے باوجود بھی زرعی سیکٹر کو متعدد چلینج درپیش ہیں جن میں سب سے اہم موسمیاتی تبدیلی ہے ۔ بے وقت بارش، برفباری اور طویل خشک سالی سے یہاں پر زرعی سیکٹر کافی متاثر ہوتا ہے جبکہ زرعی شعبے میں بنیادی ڈھانچے کی عدم دستیابی بھی ایک اہم چلینج ہیں۔ یہ مسائل خطے کے کئی حصوں میں فصلوں کی کم پیداوار، کسانوں کی آمدنی میں کمی اور خوراک کی عدم تحفظ کا باعث بنے ہیں۔ عالمی یوم خوراک ان چیلنجوں پر غور کرنے اور اپنے بھرپور زرعی ورثے کو محفوظ رکھتے ہوئے تمام کشمیریوں کے لیے غذائی تحفظ کو یقینی بنانے کے طریقے تلاش کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔وادی کشمیر میں گزشتہ کئی سالوں سے موسمیاتی تبدیلی کا سامنا رہا ہے ۔
اس وجہ سے فصل کی تیاری اور پیداوار میں کمی ہوتی ہے اور زرعی سرگرمیاں متاثر ہوتی ہیں۔ اس لیے عالمی یوم خوراک، کشمیر کے کسانوں کو ان نئی حقیقتوں کے مطابق ڈھالنے میں مدد کرنے کے لیے آب و ہوا کے لیے لچکدار کاشتکاری کے طریقوں کی ضرورت پر بات کرنے کے لیے ایک پلیٹ فارم کے طور پر کام کرتا ہے۔ چونکہ وادی کشمیر زرعی سرگرمیوں کےلئے موزون خطہ ہے یہاں پر سیب کی کاشتکاری معاشی استحکام کےلئے اہم مانی جاتی ہے ۔ سیب کی کاشت کے بعد زعفران کی کاشت اہم مانی جاتی ہے اور موسمی تبدیلی کی وجہ سے زعفران کی کاشت میں بھی کمی دیکھنے کو ملی ہے ۔ خوراک کا عالمی دن خوراک کے ضیاع اور غیر پائیدار زرعی طریقوں سے دوچار دنیا میں پائیدار خوراک کے نظام کی ضرورت کو بھی اجاگر کرتا ہے۔ کشمیر میں، جہاں کاشتکاری کے روایتی طریقے ثقافت میں گہرائی سے جڑے ہوئے ہیں، وہاں ہم میں سے ہر ایک کے لیے ایک موقع ہے کہ وہ نامیاتی کاشتکاری اور پائیدار زرعی طریقوں کو فروغ دے کر اس ورثے کو آگے بڑھائیں۔ کشمیر میں پائیدار خوراک کے نظام کو فروغ دینے کے لیے ہماری کوششیں صرف زرعی پیداوار بڑھانے کے لیے نہیں ہیں۔ وہ اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ آنے والی نسلوں کو انہی قدرتی وسائل تک رسائی حاصل ہو جو اس خطے کو صدیوں سے برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ نامیاتی کاشتکاری کی حوصلہ افزائی، کیمیائی کھادوں کے استعمال کو کم کرنا اور پانی کے تحفظ کی تکنیک کو فروغ دینا اس سمت میں اہم اقدامات ہیں۔ حکومت کی جانب سے مختلف زرعی اسکیموں اور سبسڈیز کے ذریعے پائیدار زراعت کو فروغ دینے کی کوششیں قابل ستائش ہیں، لیکن طویل مدتی پائیداری کو یقینی بنانے کے لیے مزید بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔جیسے کہ باہر کی ریاستوں میں کاشتکاروں کی جانب سے نامیاتی کاشتکاری کی طرف توجہ دی جارہی ہے اور نئے نئے طریقے آزمائے جاتے ہیں خاص کر بدلتے موسمی صورتحال کے موافق ہی کاشتکاری کی جاتی ہے جس سے موسمی تبدیلی کا زرعی سرگرمیوں پر کم اثر پڑتا ہے۔
جہاں کشمیر وادی میں خوراک کے تحفظ کی بات ہے تو وادی کشمیر میں تحفظ خوراک کی جانب کافی کم توجہ دی جارہی ہے ۔ سیاسی عدم استحکام ، موسمی تبدیلی ، قدرتی آفات جیسے مسائل کی وجہ سے کشمیر میں خوراک عدم تحفظ کا شکار ہوگیا ہے ۔ جس کی وجہ سے کشمیر وادی کا کمزور طبقہ مناسب خوراک تک رسائی سے محروم ہوگیا ہے خاص طور پر اگر ہم دیہی علاقوں کی بات کریں تو دیہی علاقوں میں لوگ بہتر خوراک سے محروم ہیں۔ تحقیقاتی رپورٹ سے پتہ چلا ہے کہ وادی کشمیر کے دور دراز علاقوں کے لوگ سخت سردیوں میں کئی مہینوں تک لوگوں کو بہتر خوراک دستیاب نہیں رہتا ہے اور وہ زیادہ تر کم غذائیات والی خوراک پر منحصر رہتے ہیں۔ خوراک کا عالمی دن منانے کا بھی یہی غرض ہے کہ خوراک کی ضرورت کو اُجاگر کرنے کے ساتھ ساتھ ان لوگوں تک خوراک پہنچانے کےلئے کوششیں کی جانی چاہئے جو خوراک سے محروم ہوتے ہیں۔ اس کےلئے نجی ادارے ، اور سرکار بہتر ڈھنگ سے کام کرسکتی ہے۔ حکومت خوراک ذخیرہ کرنے کی سہولیات کو بہتر بنا سکتی ہے، ضروری اشیائے خوردونوش کے لیے سبسڈی فراہم کر سکتی ہے، اور خوراک کی قلت سے متاثرہ افراد کے لیے حفاظتی جال بنا سکتی ہے۔
جہاں تک وادی کشمیر میں مقامی فصلوں کی کاشتکاری کی بات ہے تو مقامی سطح پر کاشت کئے جارہے مختلف اشیاءکی پیداوار کم ہوگئی ہے جن میں باجرا، دالیں اور بھر پور غذائیت سے بھرے چاول کی مختلف اقسام ہیں ۔ اس کی کئی وجوہات ہیں ایک تو زرعی اراضی کو تعمیراتی سرگرمیوں کےلئے استعمال میں لاجاتا ہے دوسرا لوگ اب زیادہ تر میوہ جات خاص کر ہائی ڈنسٹی میوہ جات کی کاشتکاری کی طرف زیادہ توجہ دیتے ہیں جس میں زیادی منافع ہوتا ہے ۔ اسلئے جہاں ہم عالمی یوم خوراک کو مناتے ہیں وہیںہمیں یہ بات دھیان میں رکھنی چاہئے کہ وادی کشمیر جو کہ زرعی اعتبار سے کافی زرخیز زمین ہے میں کاشتکاری کو کافی چلینج کا سامنا ہے اور موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کےلئے ٹھوس اور جدید طرز کاشتکاری کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔