از : جناب آنند کمار جھا، ڈائرکٹر (گیس پروجیکٹس)، پیٹرولیم اور قدرتی گیس کی وزارت
حکومت ہند کمپریسڈ بایو گیس (سی بی جی) ایکو نظام کی ترقی کے معاملے میں بڑے اقدام کر رہی ہے۔ اس شعبے کے لیے مبینہ ہدف 15 ایم ایم ٹی کے بقدر سی بی جی سالانہ کی پیداوار کرنا ہے جبکہ یہ پہل قدمی اہم طور پر حجری ایندھن پر مبنی نقل و حمل کے نظام کے لیے ایک ہمہ گیر متبادل فراہم کرنے کے لیے اپنائی گئی تھی۔ اب اس شعبے کے متنوع امکانی فوائد ابھر کر سامنے آنے لگے ہیں۔ سی بی جی میں ایسے مضمرات ہیں جن کے ذریعہ یہ خالص صفر اخراج کی حکومت کی خواہش کی تکمیل میں اہم طور پر اپنا تعاون فراہم کر سکتی ہے۔ 15 ایم ایم ٹی کےبقدر سی بی جی مؤثر طور پر اس گھریلو قدرتی گیس کی طلب کا متبادل فراہم کر سکتی ہے جس کا استعمال سی این جی (ٹی)/ پی این جی (ڈی) 2030 تک سی جی ڈی کے شعبے کے لیے کیا جا سکتا ہے۔ مٹی میں تخفیف شدہ کاربن عنصر سی بی جی پلانٹوں میں پیدا کردہ ایف او ایم کے ذریعہ بحال کیا جا سکتا ہے۔ خمیر شدہ نامیاتی دیسی کھاد (ایف او ایم) بھی کیمیاوی کھادوں کے ایک حصے کا ایک متبادل ثابت ہو سکتی ہے۔ اس کے لیے کیمیاوی فرٹیلائزر سے حاصل ہونے والی نائیٹروجن کی قبولیت کو بڑھانا ہوگا۔ مٹی میں فاسفورس کی آمیزش کو بھی بڑھانا ہوگا اور اس کے لیے کاربن کا عنصر درکار ہوگا۔
وہ پہل قدمی جس کا آغاز حکومت نے کیا تھا، اب خصوصی توجہ کا شعبہ بن گئی ہے۔ متعدد اسکیمیں اور اس کے اندر دیگر خصوصیات پورے پیش منظر کا عنصر بن گئی ہیں۔ پیٹرولیم اور قدرتی گیس کی وزارت بایوماس کی حصولیابی کی مشینری کے معاملے میں مالی اسکیم کی امداد کی شکل میں سا منے آئی ہے۔ اس سلسلے میں سی بی جی پلانٹوں اور نیٹ ورک کے لیے مالی امداد فراہم کی جائے گی اور لازمی طور پر سی بی جی کو سی جی ڈی اداروں کے ساتھ مربوط کرنا ہوگا۔ کیمیاوی کھادوں کا محکمہ ایف او ایم کے لیے منڈی ترقیات مرکزی مالی امداد لے کر آیا ہے۔ نئی اور قابل احیاء توانائی کی وزارت اس شعبے کو مرکزی مالی امداد کے ذریعہ تعاون فراہم کرتی ہے۔ اسی طریقے سے ریاستی حکومتیں بھی اس شعبے کو مختلف النوع ترغیبات مثلاً رعایتی نرخوں پر آراضی کی فراہمی، مویشیوں کے چارے کے حصول کے لیے سبسڈی کی فراہمی، ایک ہی کھڑکی پر تمام تر منظوریاں فراہم کرنے کی سہولت، آراضی الاٹمنٹ کرنے کے معاملے میں ترجیح دینے کی سہولت وغیرہ کے ذریعہ شعبے کو اپنی حمایت فراہم کر رہی ہیں۔
تاہم ایکو نظام کا مالیہ ماڈل ابھی مستحکم ہونا باقی ہے۔ تمام تر مالیہ شعبے ابھی اپنے کلی مضمرات تک نہیں پہنچ سکے ہیں۔ ایف او ایم سے حاصل ہونے والا مالیہ جو ایک اہم معاون شے ہے، اسے ابھی حقیقی شکل دی جانی باقی ہے۔ کاربن کریڈٹ میکنزم ابھی کلی طور پر قائم نہیں ہوا ہے۔ اس سے کاربن کریڈٹ کے معاملے میں پیداوار اور اس سے حصول آمدنی کے سلسلے میں چند غیر یقینی باتیں پیش نظر ہیں۔ تمام تر مالیہ وسائل جو نقدی کی شکل میں نہیں ہیں ان کی وجہ سے بھی قرض دینے والی ایجنسیوں کے کچھ خدشات اور خطرے پیدا ہوتے ہیں۔ بالواسطہ طور پر یہ تمام خدشات اس شعبے کی نمو پر اثر انداز ہو رہے ہیں۔ پیدا کردہ ایف او ایم کے کلی طور پر مالی طور پر مفید نہ ہونے کی وجہ سے پلانٹوں کی افادیت کو یقینی بنانے کے لیے گیس پر توجہ مرکوز ہوگئی ہے۔ فی الحال سی بی جی پلانٹوں کے ذریعہ تیار کی جانے والی گیس کو کنبے کے لیے روزی روٹی کمانے کا واحد ذریعہ بننے کا بوجھ اٹھانا ہوگا۔ ملک کے چند علاقوں میں طلب سے متعلق چند مسائل، گیس کی کلی کھیپ اٹھانے کے پہلو پر اثر انداز ہوتا ہے۔ اس سے سی بی جی پلانٹوں کے لیے افادیت کا حامل ہونا مشکل ہو جاتا ہے اور پورے شعبے کی توسیع بھی متاثر ہوتی ہے۔ مالیہ کو گیس، ایف او ایم کے ساتھ ساتھ دیگر جگہوں سے بھی بہم پہنچانا ہوگا کیونکہ سبز پہلو یا دوسرے لفظوں میں کاربن کریڈٹ اس شعبے کے لیے درکار ہوگا اور دستیاب کرانا ہوگا۔
حکومت نے اس امر کو یقینی بنانے پر اپنی توجہ مرکوز کر رکھی ہے کہ سی بی جی کا آف ٹیک ایک ایسی صورتحال پیدا کرے کہ مجموعی گیس فروخت جو 2022-23 کے مالی سال میں تقریباً 12000 ٹن کے بقدر تھی، وہ 2023-24 کے مالی سال میں اضافے سے ہمکنار ہوکر 19000 ٹن کے بقدر پہنچ جائے۔ 2024-25 کے مالی سال کے لیے دو مہینوں کے لیے گیس کی کھیپ اٹھانے والے اعدادو شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ سی بی جی کا آف ٹیک اس سال دوگنے سے زیادہ ہونا چاہئے۔ تاہم گیس کی کلی مقدار اٹھانے سے متعلق چنوتیاں جو سی این جی / پی این جی کے لیے طلب کے معاملے میں اکثر یکساں نہیں ہوتیں ، وہ اس شعبے میں برقرار ہیں۔ حکومت سی بی جی پلانٹوں اور سی جی ڈی نیٹ ورک کے مابین پائپ لائن کنکٹیویٹی کو امداد فراہم کرنے کی ایک اسکیم لے کر آئی ہے تاکہ پلانٹوں کے ذریعہ تیار کی گئی گیس کی کلی مقدار کھیپ کی شکل میں پہنچائی جا سکے۔سی بی جی گرڈ وضع ہونے سے اس شعبے میں سی این جی/ پی این جی کی نسبتاً کم طلب کے مسئلے سے نمٹا جا سکے گا۔ اس کے ساتھ یہ بھی لازم ہوگا کہ سی جی ڈی نیٹ ورک کے توسط سے سی بی جی تک کھلی رسائی سہولت فراہم ہو تاکہ سی بی جی ملک بھر کے اصل طلب کے مراکز تک بہم پہنچائی جا سکے۔ ٹرنک پائپ لائنوں میں سی بی جی کو شامل کرکے جیسا کہ چند یوروپی ممالک مثلاً جرمنی میں کیا گیا ہے، کے ذریعہ اسے قومی گیس کھپت نمو کی داستان میں بدلنے میں مدد دی جا سکتی ہے۔
حکومت نے کیمیاوی کھادوں کی مارکیٹنگ سے متعلق کمپنیوں کے ذریعہ ایف او ایم کی فروخت پر ایم ڈی اے کا اعلان کیا ہے۔ اس کے نتیجے میں سی بی جی پروڈیوسر حضرات کو بھی اپنی منظوری دینی ہوگی تاہم یہ اسکیم ابھی تک رفتار نہیں پکڑ سکی کیونکہ تیار شدہ ایف او ایم کی دو منفرد خصوصیات ہوتی ہیں۔ پہلی یہ کہ جہاں ایف او ایم مٹی کے لیے کاربن فراہم کرنے والا ایک بڑا ذریعہ ہے، وہیں موازناتی طور پر اس میں زرخیزی کے عناصر کم ہوتے ہیں، لہٰذا یہ کیمیاوی کھادوں کی کمپنیوں کے لیے نسبتاً کم پرکشش ہو جاتی ہے۔ یعنی وہ کاشتکاروں کے لیے اسے نہیں خریدنا چاہتی ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ اس مصنوعہ کی نمی جذب کرنے کی صلاحیت ایسا پہلو ہے جو اس کے ذخیرے اور نقل و حمل کو ہلکا سا پیچیدہ بنا دیتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ اپنے کھیتوں میں کاشتکاروں کے ذریعہ کاربن کے اس مالامال ذریعہ کے استعمال کو لے کر بھی کاشتکاروں میں جوش و جذبے کا فقدان ہے۔
بھارت میں مٹی کے اندر کاربن کا عنصر اور شمالی بھارت کی ریاستیں یعنی ہریانہ، پنجاب او راترپردیش اور راجستھان اس لحاظ سے بہت پیچھے ہیں۔ یہ برعکس طور پر مٹی کی صلاحیت کو بھی متاثر کرتا ہے، یعنی یہاں کی مٹی کیمیاوی کھادوں کے ذریعہ فراہم کیے جانے والے نائیٹروجن اور فاسفورس کو جذب نہیں کرپاتیں، یعنی مٹی کی پیداواریت نہیں بڑھتی۔ مٹی کے اندر کاربن کے عناصر میں اضافہ کرنا لازمی ہے۔ دونوں لحاظ سے یعنی اسے زراعت کے لیے بہتر بنانے اور نائیٹروجن اور فاسفورس جذب کرنے کی قوت کے لحاظ سے بھی مضبوط بنانا ضروری ہے۔ اس عمل میں کاشتکاروں کو بھی بطور شراکت دار شامل کرنا بہت ضروری ہے۔ اس کے لیے انہیں ترغیبات فراہم کی جا سکتی ہیں۔ ایف او ایم کے مؤثر آف ٹیک اور کھپت کے لیے اس صورت میں یہ معاون ثابت ہو سکتی ہے جب کاشتکاروں کو حکومت کی جانب سے نامیاتی کاربن کے ہر ٹن پر ترغیب حاصل ہو۔ سی بی جی پروڈیوسر حضرات ایف او ایم کو کاشتکاروں کو بہم پہنچانے کے معاملے میں لاجسٹکس کے پہلو پر توجہ مرکوز کر سکتے ہیں۔لاجسٹکس کی لاگت اور ایف او ایم کی لاگت اس صورت میں سی بی جی پروڈیوسروں کے ذریعہ پر کشش بن جائے گی کیونکہ وہ نامیاتی کاربن کے پورے سلسلے اصناف کو کیمیاوی کھادوں کی کمپنیوں کو تفویض کر سکیں گی جنہیں کیمیاوی کھادوں کی بلینڈ شدہ فروخت کے توسط سے خالص صفر اخراج کی حفاظت کے لیے پابند عہد کیا گیا ہے۔ یعنی وہ کاشتکاروں کو خالص صفر اخراج والا مواد بھی فراہم کریں گی۔ اس سے نہ صرف یہ کہ مٹی کے اندر گھٹتا ہو کاربن کے عنصر کا مسئلہ حل ہو جائے گا اور اس کے ذریعہ کیمیاوی کھادوں پر دی جانے والی سبسڈی اور درکار بجٹ میں تخفیف ہوگی ساتھ ہی ساتھ اس سے تیار کیے گئے ایف او ایم کو مفید شکل دینا بھی ممکن ہوگا۔ اور کیمیاوی کھادوں کے شعبے میں مہلک اخراج کے مسئلے کو حل کرنے میں بھی مدد ملے گی۔
گیس کے محاذ پر حکومت سی جی ڈی اداروں کے لیے بلینڈنگ کی شرط لے کر آئی ہے۔ اس میں قابل احیاء گیس اسناد کے اجراء کی تجویز بھی شامل ہے۔ اس کے تحت ریگولیٹر ان آر جی سی اداروں کو مؤثر مفید شکل میں لانے کے لیے میکنزم وضع کر سکتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ بھارت عالمی بایو ایندھن اتحاد کو آگے بڑھانے کے لیے بھی شراکت دار ممالک کے ساتھ مل کر کام کر رہا ہے۔ بھارت میں تیار کردہ آر جی سی کے لیے ایک باہمی طور پر تسلیم شدہ فریم ورک ان اسناد کی برآمد کا ماحول بنانے میں دور رَس ثابت ہوگا اور اس کے ذریعہ مالی فوائد بھی حاصل ہوں گے۔ جہاں ایک جانب بھارت سے حیاتیاتی ایندھن برآمد کرنے پر چند بندشیں عائد ہیں تاہم وہ بندشیں حیاتیاتی ایندھن سے وابستہ سبز عناصر پر نافذ نہیں ہیں۔ سبز عناصر معقول مالیت گیس والے پہلو کو تقویت فراہم کرے گی اور اسے صارفین کو دیگر گیسوں کے بالمقابل مسابقتی قیمتوں پر فروخت کیا جا سکے گا۔ گھریلو گیس/ ایل این جی وغیرہ جو منڈی میں دستیاب ہے، اس کے معاملے میں بھی بہتری رونما ہوگی ۔چونکہ سی بی جی صنعت کے نزدیک دستیاب ہے، لہٰذا لاجسٹکس کی لاگت ایل این جی / آ ر این جی کے مقابلے میں کافی کم ہوگی جس کے تحت نقل و حمل اور نقل و حمل کے فاصلوں پر عائد ہونے والے ٹیکس کا پہلو آتا ہے۔ وہ تمام تر ذمہ دار ادارے بھی اسے اپنانے میں بالکل پس و پیش سے کام نہیں لیں گے یعنی سی بی جی کی خریداری کر سکیں گے جو ان سے متعلق ہیں کیونکہ ان کی لاجسٹکس لاگت کم ہو جائے گی۔
نقل و حمل کے شعبے کو کاربن سے مبرا بنانے کا عمل بھی سی بی جی کو بایو ایل این جی میں بدلنے اور اس کا استعمال لمبے فاصلے طے کرنے والے ٹرکوں کے لیے ایل این جی کا متبادل فراہم کرنے میں مفید ثابت ہوگی۔ ایسے علاقوںمیں جہاں سی این جی/ پی این جی ایکو نظام کے بڑے بڑے پلانٹ واقع ہیں، ہو سکتا ہے کہ ایسا کرنا بہت ممکن نہ ہو، تاہم تیار کی گئی سی بی جی کی مجموعی مقدار اور کھپت کے لیے ایسا کرنا ممکن ہوگا۔ سی بی جی کو بایو ایل این جی میں منتقل کرنا ہوگا اور اس کو ایل این جی کے طلب کے مراکز تک پہنچانا ہوگا جس سے سی بی جی کی مؤثر کھپت میں مدد حاصل ہوگی اور نقل و حمل کے شعبے کو کاربن سے مبرا بنانے میں آسانی ہوگی۔ سی بی جی کو رقیق شکل میں لانے کی لاگت صارفین سے وصول کی جا سکتی ہے۔ اس کے لیے بہم رسانی شدہ گھریلو گیس کے پول کو اس کا ایک حصہ بنانا ہوگا یعنی سی ڈی جی ادارے اس سے وابستہ ہوں گے۔
حکومت پورے نظام میں موجود عدم اثر انگیزیوں کے خاتمے کے لیے کام کر رہی ہے۔ اس شعبے کی سبز سرمایہ فراہمی کے معاملے میں کثیر پہلوئی ترقیاتی بینکوں کی امداد اس شعبے کی ترقی میں دور رَس معاون ثابت ہوگی۔ سبز کریڈٹ کو نہ صرف یہ کہ شعبے کو استحکام عطا کرے گی بلکہ ملک میں غیر ملکی زرمبادلہ لانے میں کردار ادا کرے گی۔
توانائی تغیر کا راستہ سبز گیس کے ذریعہ روشن ہونے کے لیے منتظر ہے۔