سرحدی ضلع کپوارہ میں ٹیٹوال پُل ایک خوبصورت اور تاریخی پُل ہے ۔ یہ صرف دو علاقوں کو جوڑنے کا کام نہیں کرتا بلکہ یہ پُل ایک ایسی داستان بیان کرتا ہے جو جرات اور بہادری کی علامت ہے ۔ کشن گنگا پر بنا یہ پل تعمیرات کی ایک عمدہ مثال ہے جبکہ یہ پل کئی اہم واقعات تاریخ کا گواہ بھی ہے ۔ یہ دل کش وادیوں کے دامن میں ایک عظیم داستان کی یاد لاتا ہے ۔ جو کہ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان 1947میں ہوئی جنگ کی گواہدی بھی دیتا ہے ۔ قارئین ٹیٹوال کا یہ پل ہندوستان کے ان عظیم بہادروں کی قربانیوں کی داستان اُجاگر کرتا ہے جنہوںنے بھارت کی آزادی کے بعد اپنی سرزمین کی حفاظت کےلئے دن تھی اور برصغیر ہندوپاک جب 1947میں وجود میں آیا تو ہندوستان کی تقسیم کے ساتھ ہی اس علاقے کو حملے آوروں سے خالی کرنے کےلئے ان اہلکاروں نے دی تھی ۔ تقسیم ہند کے بعد پاکستانی قبائلیوںنے اس پُل کو عبور کرتے ہوئے وادی کشمیر میں دراندازی کی جبکہ ان قبائلیوں کو پاکستانی فوج کی بھر پور حمایت تھی ۔ کشن گنگا پر بنے اس پل کو عبور کرتے ہی ان قبائلیوں کا سامنا بھارتی فوج سے ہوا اور انہیں اس کا اندازہ نہیں تھا کہ بھارتی فوج اس طرح سے ان مزاحمت کرے گی ۔ اس دراندازی کے تناظر میں دونوں جانب جنگ چھڑ گئی اور دونوں جانب خونین تصام ہوا۔ اس پُل کے نزدیک علاقے کو اُس وقت سٹریٹجک اہمیت تھی کیوں کہ اس پل کے اس پار کشمیر تک ان قبائلیوں کی رسائی آسان بنتی اسلئے کشن گنگا پر بنا یہ پل میدان جنگ میں تبدیل ہوا جس لاشیں بچھنی شروع ہوئیں ۔ پاکستانی فوج اور قبائلیوںنے دریاءکے ایک کنارے پر قبضہ کرلیا تھا جبکہ دوسری طرف بھارتی فوج کا قبضہ تھا اس وجہ سے اس دریا پر بنا یہ پُل اہم تھا ۔ ا س پل پر قبضہ کرنے کےلئے بھارتی فوج نے حکمت عملی تیار کرلی اور فوج کے لیفٹیننٹ کرنل دیوان رنجیت رائے کی قیادت میں ایک فوجی ٹکڑی نے پل کو دوبارہ حاصل کرنے کےلئے حملہ کردیا ۔ اس حملے نے باضابطہ طور پر جنگ چھیڑ دی اور بھارتی فوجیوںنے شدید مشکلات کے باوجود غیر معمولی بہادری کامظاہرہ کرتے ہوئے اس پل پر قبضہ کرلیا اور اس طرح سے اس اہم جگہ پر بھارتی فوج کاقبضہ برقرار رہا ۔
قارئین اس فوجی کارروائی کے دوران ہندوستانی فوج نے نہ صرف اس پل پر قبضہ کرلیا اور دراندازی کو واپس جانے پر مجبور کردیا بلکہ انہوںنے ایک تاریخ بھی رقم کرلی جو کہ ہمت، جوش، بہادری اور عزم پر مبنی تھی ۔ اس جنگ کو ہندوستانی فوج کے حوصلے ، بہادری اور قربانی کے طور پر یاد کیا جاتا ہے کیوں کہ ٹیٹوال کی جنگ ہندوستان اور پاکستانی فوج کےمابین ایک اہم تاریخی لڑائی تھی کیوں کہ درانداز کشمیر کی زمین پر قبضہ کرنے کا ارادہ رکھتا تھا جبکہ ہندوستان فوج نے عزم کیا ہوا تھا کہ زمین کا ایک ٹکڑا بھی نہیں چھوڑا جائے گا۔ فوج نے اپنی جگہ کا مکمل دفاع کیا اور دراندازوں کی ناکامی کےلئے اپنی بھر پور طاقت کا مظاہرہ کیا ۔ ٹیٹوال پل کو حاصل کرنے کےلئے دوطرفہ لڑائی کئی دنوں تک جاری رہی اور ہندوستان فوج کی غیر متزلزل حوصلے نے حملہ آوروں کو سخت تصادم آرائی کے بعد پیچھے ہٹنے پر مجبور کیا اور اس طرح سے ہندوستانی فوج نے ٹیٹوال کو غیر ملکی قبضے سے آزاد کرالیا ۔ ٹیٹوال پل نے کئی لڑائیاں دیکھیں اور خونین تصادم آرائیوں کا مشاہدہ کیا جو کہ آج بھی ایک عظیم تاریخ کا عکاس ہے ۔ عام لوگوں کی زندگیوں پر اس طرح کے تواریخی واقعات گہرے اثرات چھوڑتا ہے اور زندگیوں کو تبدیل کرتا ہے تاہم جنگ سے لگے گھاﺅ بھر تو جاتے ہیں لیکن جو قربانیاں پیش کی جاتی ہیں ان کی یادیں ہمیشہ تازہ رہتی ہیں۔ ان ہی قربانیوں کی نشانی ٹیٹوال کا یہ پل بھی ہے ۔ قارئین جہاں یہ پل ہندوستان اور پاکستان کے درمیان ہونے والی لڑائی کا چشم دید گواہ ہے اور ایک تاریخی نشانی ہے وہیں یہ اب موجود دور میں سیاحوں کی دلچسپی کا مرکز بھی بن رہا ہے ۔ نہ صرف ملک بلکہ بیرون ممالک سے بھی سیاح اس تواریخی اہمیت کے حامل پل کو دیکھنے کےلئے آتے ہیں ۔ یہ پل قدرتی خوبصورتی پر مبنی پہاڑیوں کے درمیان ایک صاف و شفاف بہتے دریا پر بنا ہے جو ایک دلفریب نظارہ پیش کرتا ہے ۔ یہ پل سیاحو ں اور فطرت سے شگف رکھنے والوں کےلئے کسی عجوبے سے کم نہیں ہے ۔ اس پل کے آس پاس رہنے والے لوگ بھی اس پر فخر کرتے ہیں کیوں کہ یہ پل مقامی لوگوں کے ثقافت اور تہذیب کا حصہ ہے قومی ورثہ ہے جس کےلئے آنے والی نسلوں کو بھی فخر ہوگا۔ قارئین اس ٹیٹوال پُل کو کھولنے کا مطالبہ کیا جارہا ہے اور ہندوستان اور پاکستان کے مابین اس کو ایک مضبوط رشتہ قائم کرنے کےلئے استعمال کی وکالت کی جاتی ہے ۔ آر پار رہنے والے لوگوں کو آپس میں ملانے کےلئے اس پل کی اہمیت اور زیادہ ہے ۔ ٹیٹوال پل 1947میں سرزمین کےلئے دی جانے والی قربانیوں کی نشانی ہے اور یہ ایک اہم تاریخی جگہ ہے جس کی حفاظت کےلئے ہندوستانی فوجی اہلکاروںنے اپنی جانیں نچھاور کی تھیں اور تب سے یہ آج تک ایک عظیم یاد گار کے طور پر بھی کھڑا ہے
پاکستانی آرمی چیف عاصم منیر کا منظر عام سے غائب رہنا ایک خوف کی عکاس
پہلگام حملہ پر پورے ہندوستان میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی اور جوابی کارروائی کا مطالبہ زور پکڑتا...
Read more