وقف ترمیمی ایکٹ کے خلاف ملک بھر میں جو احتجاج کی لہر دوڑ گئی تھی وہ اچانک ختم ہوگئی کیوں کہ لوگوں کو اس بات کا احساس ہوگیا کہ وقف کے چلانے والوں نے وقف جائیداد کو کس طرح اپنے مفادات کی خاطر استعمال کیا تھا جبکہ مستحقین کو اس کا کوئی فائدہ نہیں ملا۔ وقف بورڈ کا قیام اس لئے لایا گیا تھا تاکہ عام لوگوں کو فائدہ پہنچنانے کے ساتھ ساتھ بورڈ اس ملی جائیداد کی حفاظت بھی کرے اور اس کے اثاثوں کو بڑھانے کے علاوہ فلاحی اداروں کا قیام عمل میں لائے جیسے سکول، کالج، تعلیمی ادارے ، ہسپتال اور دیگر طرز کے فلاحی کام انجام دیئے جاسکیں۔ البتہ ایسا نہیں ہوا بلکہ اس کو سیاست کے بازی گروںنے اپنے مفادات کی خاطر استعمال کیا۔ بورڈ کی ذمہ داری تھی کہ وہ ایسے بچوں کےلئے سکالر شپ فراہم کرتا جو غریب کنبوں سے تعلق رکھتے ہیں اور تعلیم کو جاری رکھنے میں مالی مشکلات کا سامنا کرتے تھے۔ اس کے علاہ غریب مسلم کنبوں کو لڑکیوں کی شادیوں کےلئے ”لون “ کی صورت میں قرضہ جات فراہم کرنا ، اسی ادارے کی ذمہ داری تھی۔ وقف اثاثوں میں اضافہ کرتے ہوئے ہسپتالوں کا قیام عمل میں لایا جاتا جہاں غریب مریضوں کا مفت علاج کیا جاتا لیکن ایسا بھی نہیں ہوا۔ قارئین جیسے کہ جانتے ہیں کہ ملک بھر میں مختلف مذاہب کی جانب سے ادارے چلائے جاتے ہیں ہم یہاں پر کئی ایک کی مثالیں پیش کرسکتے ہیں جن میں ”سکھ طبقہ کی جانب سے چلائی جانے والے ادارے خالصہ “اور شری ماتا وشنو دیوی ٹرسٹ کی مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں۔ قارئین کو معلوم ہوگا کہ شیر ماتا ویشنو دیوی ٹرسٹ کی جانب سے کٹرا میں ویشنو دیوی یونیورسٹی، کے علاوہ دیگر اہم ادارے چلائے جاتے ہیں جبکہ ٹرسٹ کی جانب سے ایک ہسپتال بھی چلایا جارہا ہے۔ا سی طرح خالصہ پنتھ ٹرسٹ کی جانب سے مختلف فلاحی کام کیئے جارہے ہیں۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ملک میں جہاں لاکھوں ”بھکاری “روزانہ بھیک مانگ کر اپنا پیٹ پالنے پر مجبور کرتے ہیں البتہ کوئی بھی سکھ بھیک نہیں مانگا کیوں کہ خالصہ پنتھ ٹرسٹ کی جانب سے اس طرح کے غریب سیکھ کنبوں کو مالی امداد کی جاتی ہے تاکہ ان کی زندگی آرام سے کٹ جائے۔ اس کے علاوہ سکھ بلا تفرق مذہب کسی بھی شہری کے علاج کےلئے کام کرتے ہیں جبکہ سکھوں کی جانب سے چلائے جانے والے فلاحی اداروں کی جانب سے کئی جگہوں پر ہسپتال بھی بنائے جاچکے ہیں جن میں مریضوں کا مفت علاج کیاجاتا ہے اسی طرح لوگوں کو روزانہ مفت کھانا بھی فراہم کیا جاتا ہے۔ غرض صرف مسلم وقف بورڈ ہی ایسا ادارہ ہے جس کی جانب سے کئی بھی فلاحی کام انجام نہیں دیا جاتا ہے ناہی کسی کو قرضہ فراہم کیا جاتا ہے اور ناہی کسی کا علاج کیا کرایا جاتا ہے اور ناہی طلبہ کےلئے کوئی سکالر شپ سکیم جاری کی جاچکی ہے۔ کیوں کہ سیاست دانوں نے اس ملی ادارے کو صرف اپنے ہی مفاد کےلئے استعمال کیا ہے۔ جہاں تک وادی کشمیر کی بات ہے تو وادی کشمیر میں بھی اس وقف ترمیمی بل کے خلاف مذہبی جماعتوں کی جانب سے برہمی کااظہار کیا گیا تھا تاہم یہاں پر بھی لوگ خاموش رہے کیوں کہ وادی کشمیر میں بھی وقف بورڈ کو چلانے والوں نے کبھی کسی کا بھلا نہیں کیا ہے صرف اس کے منتظمین ، ملازمین اور سیاست دانوں نے اس ملی ادارے کو اپنے مفاد کےلئے استعمال کیا ہے یہی وجہ ہے کہ اس ایکٹ کے خلاف لوگوں نے خاموشی اختیار کی ہے کیوں کہ ان کی سمجھ میں یہ بات آچکی ہے کہ
اس ملی ادارے کے چلانے والوں کی جوابدہی ضروری ہے اور اس جائیداد کو اسی مقصد کےلئے استعمال میں لایا جانا ضروری ہے جس کےلئے یہ لوگوں کی جانب سے وقف کی جاتی ہے اور اس کےلئے وقف ترمیمی ایکٹ ہی ایک ایسا قانون لائے گا جس میں جوابدہی اور احتساب ہوگا۔
THE EVOLVING DIGITAL LANDSCAPE OF KASHMIR: A DECADE OF TRANSFORMATION
Last ten years have ushered in a significant wave of digital transformation across India and Jammu and Kashmir has been...
Read more