خضر محمد
موجودہ ٹیکنالوجی کے دورمیں جہاں ہر فرد تنہائی محسوس
کررہا ہے اور اجتماعی زندگی ختم ہوتی جارہی ہے وہیں پر دنیا اب مخلوط مذہبی معاشرے کی طرف بڑھ رہی ہے ۔ دنیا کے ہر ملک میں مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے طبقہ جات ایک ساتھ رہتے ہیں۔ مختلف عقائد کے لوگ زندگی کا سفر ایک ساتھ چلاتے ہیں اور یہ رجحان دنیا میں مذہبی رواداری کو فروغ دے رہاہے ۔ اس طرح کے مخلوط مذہبی معاشرے سے سماجی ہم آہنگی، ثقافت ، سماجی بندھنوں سے پاک بہتر معاشرہ تشکیل پارہاہے ۔ موجودہ صدی میں کثیر مذہبی معاشرے کی تشکیل انسانی بقاءاور عالمی امن کےلئے ضروری ہے اس کے بہت سے فوائد بھی ہیں اورکثیر مذہبی معاشرے کے سب سے اہم فوائد میں سے ایک سماجی ہم آہنگی کی صلاحیت ہے۔ جب مختلف مذہبی پس منظر سے تعلق رکھنے والے افراد اکٹھے ہوتے ہیں، تو وہ نقطہ نظر کا ایک نیا وژن بناتے ہیں جو باہمی احترام اور افہام و تفہیم کو فروغ دے سکتا ہے۔ ا س طرح سے مذہبی رنجش، دقیانوسی تصورات، مذہبی رجڑ پسندی، شدت پسندی اور مذہبی تعصب کو ختم کرنے میں مدد ملتی ہے ۔ اس طرح کے اقدامات سے ایک ایسا ماحول پیدا ہوتا ہے جس میں ایک دوسرے کے مذہبی جذبات کا احترام کیا جاتا ہے اور ثقافتی روایت کی تعظیم کی جاتی ہے جس سے انسانی اقدار فروغ پانی ہے ۔ مخلوط مذہبی معاشرے نے عالمی سطح پر غرب،تعلیم ، صحت اور دیگر سماجی مسائل کے حل کےلئے اقدامات اُٹھانے کی ترغیب دی ہے ۔ اس طرح سے یہ اقدامات مختلف عقائد کے درمیان ایک پُل کا کام بھی کرتی ہے جو مختلف عقائد کے درمیان اتحاد، مذہبی بھائی چارے اور مساوات کو بڑھاتی ہے ۔ اس طرح سے کثیر مذہبی معاشرہ اپنی منفرد روایات ، تہوار، ثقافت، کھانا پینا، رہن سہن، اور الگ الگ پوشاک ایک دوسرے سے اشتراک کا ذریعہ بنتے ہیں جو ایک مضبوط معاشرے کی بنیادی ڈالتے ہیں۔ یہ ثقافتی تبادلہ تخلیقی صلاحیتوں اور اختراعات کو فروغ دے کر معاشرے میں مجموعی معیار زندگی کو بڑھاتا ہے۔ مثال کے طور پر، نمایاں مذہبی تنوع والے شہر اکثر سال بھر میں مختلف قسم کے تہوار مناتے ہیں، جس سے شہریوں کو مختلف ثقافتی طریقوں کا تجربہ کرنے اور ان میں حصہ لینے کا موقع ملتا ہے۔ اس طرح کی تقریبات نہ صرف کمیونٹی کے ثقافتی منظر نامے کو تقویت دیتی ہیں بلکہ مختلف گروہوں کے درمیان شمولیت اور افہام و تفہیم کو بھی فروغ دیتی ہیں۔اسی طرح سے کھانوں کی روایات کا امتزاج ایک پھل پھولنے والی خوراک کی ثقافت کا باعث بھی بن سکتا ہے جو معاشرے کے کثیر مذہبی کردار کی عکاسی کرتا ہے۔ ایک کثیر مذہبی معاشرے کے معاشی فوائد کو اکثر نظر انداز کیا جاتا ہے لیکن یہ اتنے ہی اہم ہوتے ہیں۔ قارئین آج کے دور میں جیسا کہ ہم نے پہلے ہی عرض کیا ہے کہ لوگ زیادہ تر تنائی محسوس کرتے ہیں اپنے رشتے داروں، قرابت داروں ، دوست واحباب سے کٹ کر رہے گئے ہیں لیکن مخلوط مذہبی روایت سے ایک نئی اجتماعی زندگی کو فروغ مل رہا ہے اور آبادی افرادی قوت میں جدت اور تخلیقی صلاحیتوں کو آگے بڑھا سکتی ہے۔ مسائل کے حل کے لیے مختلف نقطہ نظر اور نقطہ نظر چیلنجوں کے مقابلے میں زیادہ موثر حل اور زیادہ موافقت کا باعث بن سکتے ہیں۔ جہاں مخلوط مذہبی سماج انسانی بندھن اور انسانیت پر مبنی معاشرے کی تشکیل میں رول اداکرتا ہے وہیں یہ سیاحت ، ثقافت اور معاشرت کےلئے بھی سود مند ثابت ہوسکتا ہے ۔
مختلف عقائد کے مذہبی مقامات سیاحوں کی دلچسپی کا مرکز بن سکتے ہیں جو دیگر مذاہب کے سیاحوں کو اپنی طرف راغب کرکے سیاحت کو بڑھانے کےلئے معاون ثابت ہوسکتے ہیں۔سیاح الگ الگ مذہبی رسومات، عبادات ، سے متعلق جانکاری حاصل کرسکتے ہیں اور اس سے سیاحت کو فروغ ملے گا جو روزگار کے وسائل پیدا کرنے کےلئے زیادہ موثر ثابت ہوسکتا ہے جو معیشت کو مضبوط کرنے میں بھی مدد گار ہوگا۔ اس کے علاوہ اس سے بنیادی ڈھانچے کی مضبوطی اور بہتری کو بھی یقینی بنایا جاسکتا ہے ۔ آج کے دور میں بین الاقوامی تعلقات اور کامیاب سفارتکاری کےلئے مختلف مذاہب سے متعلق جانکاری رکھنا بھی ضروری ہے کیوں کہ اس سے عالمی تعلقات بہتر بن سکتے ہیں ۔ اس طرح سے ایک نیا سماج کھلے ذہن کے ساتھ تشکیل پائے گا جس کے نزیدک کسی مذہب کے خلاف کوئی رنجش اور بغض نہیں ہوگا جو عالمی امن و بقائے انسانیت کےلئے بہت ضروری ہے ۔ قارئین جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ مذہبی اختلافات کی جڑیں دنیا بھر کے مختلف خطوں کو اپنی لپیٹ میں لے رہی ہیں، کثیر مذہبی تفہیم کو فروغ دینا ایک طاقتور آلہ کے طور پر کام کر سکتا ہے۔ مختلف مذاہب کے درمیان مکالمے اور تعاون کو فروغ دے کر، معاشرے بڑے پیمانے پر تنازعات کے حل اور قیام امن کی کوششوں کے لیے کام کر سکتے ہیں۔آج بھی دنیا کے مختلف علاقوں میںشورش جاری ہے اور اس کی بنیادی وجہ مذہبی تعصب ہی ہے اور یہ مذہبی لڑائی آج سے نہیں بلکہ صدیوں سے جاری ہے لیکن اگر ہم ایک دوسرے کے مذہبی عقائد کا احترام کریں گے تو یہ لڑائی ، جھگڑے اور فسادات کی نوبت ہی نہیں آئے گی۔ تعصبات اور غلط فہمیاں اب بھی موجود رہ سکتی ہیں، جو مختلف مذہبی گروہوں کے درمیان تناو¿ کا باعث بنتی ہیں۔ تاہم اس کےلئے سرکاری سطح پر اقدامات اُٹھائے جاسکتے ہیں، اس کےلئے مختلف سماجی تنظیموں کی خدمات حاصل کی جاسکتی ہے جو مذہبی رواداری ، بھائی چارے اور ایک دوسرے کے عقائد کے احترام کےلئے معاشرے میں جانکاری عام کرسکتے ہیں۔ اس کے علاوہ بنیادی سطح پر تعلیمی اداروں میں مذہبی رواداری ، آپسی بندھن کو فروغ دینے کےلئے لیکچررس کا اہتمام کیا جاسکتا ہے۔ غرض تعلیم کے ذریعے ہم اپنے معاشرے کو مذہبی رواداری، ہم آہنگی اور مساوات کے فروغ کےلئے تشکیل دے سکتے ہیں۔ اور وقت کی ضرورت بھی یہی ہے کہ ایک ایسا معاشرہ تشکیل پائے جہاں پر کسی بھی مذہب کے خلاف بغض، حسب ، کینہ پروری کےلئے کوئی جگہ نہ ہو بلکہ تمام عقائد کے لوگوں کو اپنے عقیدے کے مطابق زندگی گزارنے کی آزادی مئیسر ہو۔