وادی کشمیر میں اگرچہ حالات کافی حد تک معمول پر آچکے ہیں اور تشدد ، مار دھاڑ اور انتشاری کیفیت قریب قریب ختم ہوچکی ہے جس کے نتیجے میں وادی میں ایک نئی فضاءقائم ہوچکی ہے اور امن و سلامتی کی صورتحال بہتر ہوئی ہے تاہم اس وقت وادی میں سائبر سیکورٹی ایک بہت بڑا چلینج اُبھر کر سامنے آیا ہے ۔ اگر ہم وادی کشمیر کی تاریخ اور سیاسی دور پر نظر ڈالیں گے تو ہم اس بات کو آسانی کے ساتھ سمجھتے ہیں کہ وادی کشمیر میں سائبر سیکورٹی کے بڑھتے خدشات کے پیچھے کیا محرکات ہیں ۔ وادی کشمیر میں ایک طرف امن و امان کی صورتحال زمینی سطح پر بہتر ہورہی ہے وہیں سائبر سیکورٹی جموں کشمیر کی حفاظتی صورتحال کےلئے چلینج بن رہی ہے جس کے نتیجے میں عام لوگوں کے ساتھ ساتھ سرکاری اداروں کو بھی خطرہ لاحق ہوگیا ہے ۔ وادی کشمیر میں قائم سائبر سیکورٹی اداروں پر سائبر حملے ہورہے ہیں اور سرکاری ویب سائٹس سائبر حملہ آوروں کے نشانے پر آچکی ہے ۔ جس سے خطے کے جدید ترین سائبر خطرات سے دفاع کرنے کی صلاحیت کے بارے میں خدشات پیدا ہوتے ہیں۔ انٹرنیٹ کے وجود میں آنے کے بعد سائبر جرائم میں ایک طرف اضافہ ہوا ہے خاص کر سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم اس کےلئے استعمال میں لائے جاتے ہیں جن پر جعلی اور منفی خبریں پھیلائی جارہی ہیں جس سے وادی میں تناﺅ بڑھ رہا ہے ۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ آج کل کے نوجوانوں میں سوشل میڈیا کا استعمال بڑھ گیا ہے اور ان پر ان منفی خبروں اور غلط معمولات کا اثر بھی ہورہا ہے ۔ آن لائن چینلز کے ذریعے پھیلائی جانے والی غلط معلومات نے کشمیر میں سائبر سیکیورٹی چیلنجوں کے بارے میں مختلف نقطہ نظر کے درمیان عدم اعتماد اور دشمنی کو ہوا دی ہے۔ وادی کشمیر میں سائبر حفاظتی صورتحال سے متعلقین جو خدشات اُبھارے جاتے ہیں وہ کئی اہم مسائل کی طرف اشارہ کررہے ہیں ۔ جہاں تک مرکزی سرکار کا تعلق ہے تو مرکزی سرکار اور اس جڑے حفاظتی ادارے کشمیر وادی میں سائبر سیکورٹی کے بڑھتے چلینج کو قومی سلامتی سے جوڑ رہے ہیں اور اس کو ملکی یکجہتی اور سلامتی کےلئے خطرہ قراردیتے ہیں۔ دوسری طرف اگر ہم سول سوسائٹیز اور غیر سرکار انجمنوں کی آراءکو دیکھیں تو ان کے مطابق سائبر سیکورٹی کےلئے سنسر شپ اور نگرانی ناگزیر بن گئی ہے کیوں کہ سائبر کرائم کی وجہ سے ان کی نجی زندگی کے معمولات کو خطرہ پہنچ رہا ہے اور یہ شہریوں کی آزادی اور اظہار رائے کو محدود کررہا ہے ۔ کشمیر میں سائبر سیکورٹی کے خطرات سے درپیش اہم چیلنجوں کے باوجود، کئی مثبت پہلوو¿ں پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ خطے میں سائبر سیکیورٹی کے خطرات کے بارے میں بڑھتی ہوئی بیداری نے سرکاری اور نجی شعبے کے اداروں کو صلاحیت سازی کے اقدامات اور سائبر سیکیورٹی لچک کو بڑھانے کے لیے مشترکہ کوششوں میں سرمایہ کاری کرنے پرمائل کیا ہے۔ حفاظتی اداروں کی جانب سے سائبر سیکورٹی سے متعلق جانکاری پروگرام اور تربیت جیسے اقدامات سے سائبر سیکورٹی کے بنیادی ڈھانچے کی مضبوطی کو بڑھایا ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ سائبر سیکورٹی سے نمٹنے کےلئے جدید ٹیکنالوجی کا استعمال اور سائبر سیکورٹی ٹولز کو جدید خطوط پر استوار کرنے سے موثر نتائج سامنے آئے ہیں ۔ جس سے حساس ڈیٹا کی چوری اور اس پر حملہ کے ممکنہ امکانات کم ہوگئے ہیں۔ جبکہ مصنوعی ذہانت، مشین لرننگ اور تھریٹ انٹیلی جنس پلیٹ فارمز سمیت سائبر سیکیورٹی کے حل میں اختراعات نے سیکیورٹی پیشہ ور افراد کی قابلیت کو بڑھایا ہے کہ وہ حقیقی وقت میں سائبر خطرات کی پہلے سے شناخت اور ان سے نمٹنے کے لیے کشمیر میں محض ایک محفوظ سائبر ماحول پیدا کرنے میں رول اداکیا ہے ۔ جہاں ہم وادی کشمیر میں سائبر سیکورٹی کے بڑھتے خدشات سے نمٹنے کےلئے اُٹھائے گئے اقدامات کا ذکر کرتے ہیں جس سے سائبر کرائم کے چلینجوں سے نمٹنے میں مدد ملی ہے وہیں کچھ اہم معاملات پر خصوصی توجہ دینے کی بھی ضرورت ہے جو سائبر کرائم سے جڑے ہوئے ہیں۔ ان معاملات میں سے ایک خطے میں سائبر سیکیورٹی کے مناسب انفراسٹرکچر اور وسائل کی کمی ہے، جو سرکاری اداروں اور نجی شعبے کے اداروں کی سائبر خطرات کا مو¿ثر جواب دینے کی صلاحیت میں رکاوٹ ہے۔ سائبر سیکورٹی کے مزید بہتر بنانے کےلئے فنڈس کی کمی ، سائبر سیکورٹی کے ماہرین کی کمی اور اس کےلئے بنیادی ڈھانچے کی طرف عدم توجہ اہم معاملات ہیں جو سائبر سیکورٹی کے اقدامات کے منفی پہلوﺅں کو اُجاگر کرتے ہیں۔ وادی میں جہاں زمینی سطح پر سلامتی کی صورتحال بہتر ہورہی ہے وہیں سائبر حملوں کا خطرہ بڑھ رہا ہے ۔ امن دشمن عناصر سائبر حملے کرکے سرکاری اداروں خاص کر سیکورٹی اداروں کو کمزور کرنے کی کوشش کرسکتے ہیں۔ دشمن اداروں کی طرف سے جدید ترین سائبر ٹولز اور ہتھکنڈوں کا استعمال کشمیر کی سلامتی اور استحکام کے لیے ایک اہم چیلنج ہے اور حفاظت سے جڑے اداروں کو نشانہ بناکر انہیں زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچانے کی فراق میں ہیں۔ یہ رجحان سائبر سیکیورٹی کے لیے ایک جامع نقطہ نظر کی ضرورت کو کم کرتا ہے جو کشمیر میں سائبر اور جسمانی سلامتی کے خطرات کے درمیان تعامل کو حل کرتا ہے۔ اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ حفاظتی صورتحال کے حوالے اس حساس خطے میں سائبر سیکورٹی کے اداروں کو مزید بہتر بناجائے تاکہ کسی بھی ممکنہ سائبر حملے کا توڑ کیا جاسکے اور بروقت اس کو ناکام بنایا جاسکے ۔