Zahid Ahmed
بابا آدم کے زمانے سے ہی انسان نے اختراعی سفر شروع کیا ہے اور نئے نئے تجربات کرتے ہوئے کامیابیوں کو حاصل کرتا گیا ۔ اس طرح سے دنیا تیزی سے بدلتی گئی ۔ پہے کی ایجاد سے لیکر آج کے دور جدید تک انسان نے اس سفر کو جاری رکھا ہوا ہے اور ٹیکنالوجی انسان کی کامیابیوں کےلئے نئے نئے منزلیں متعین کرتی رہیں۔ سافٹ ویر کی ایجاد میں ایک ایک سے بڑھ کر ایک انقلابی پہلو سامنے آئے ہیں اور اب مصنوعی ذہانت نے اس میں مزید جدت لائی ہے جس نے ترقی اور تکنیک کو فروغ دیا ۔ عصر حاضر میں مصنوعی ذہانت کے ساتھ اب لوگوں کی طرز زندگی بھی تبدیل ہوتی جارہی ہے ۔ معاشرے اور تہذیبوں میں تبدیلی دیکھنے کو مل رہی ہے ۔ موجود جدید ٹیکنالوجی کا سفر جاری ہے اور اس میں مزید تبدیلیاں ہورہی ہیں اور آگے بھی اس میں مزید حیران کن تبدیلی دیکھنے کو ملے گی ۔ سائنس کی ترقی سے ٹیکنالوجی کے جوہر سامنے آتے گئے اور سائنسی علم کا اطلاق بڑھتا گیا ۔ جہاں تک پتھر کے زمانے کی بات ہے تو اس دور سے انسان نے صدیوں کا سفر طے کرتے ہوئے آج کے دورمیں قدم رکھا ۔ پتھر کے زمانے میں شروع اختراعی کوششوں نے مصنوعی ذہانت اور جدید مشینوں تک پہنچایا ہے اور آگے بھی مزید اس میں تبدیلی کا امکان ہے کیوں کہ انسان ضرورت اور تجسس کو مد نظر رکھتے ہوئے اختراعی کوششیں جاری رہیں اور انسان نئی نئی ایجادات کی طرف بڑھ رہا ہے ۔ جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ آج کل جو ہمارے سامنے مصنوعی ذہانت اور سافٹ ویر کا زمانہ ہے یہ ایک دم سے ہمارے سامنے نہیں آیا بلکہ اس میںصدیاں گزرگئیں قدیم زمانے کے لوگوں نے نظام تحریر، زرعی سرگرمیوںکےلئے درکار اوزار ، تعمیر و تجدید کےلئے انجینئرنگ جیسے اقدامات کو اپنانا اور آہستہ آہستہ مزید تجربات کئے جاتے رہے ۔ تحریری انقلاب پہلے قرون وسطی میں دیکھا گیا جنہوںنے دھات کے اوزار بنانے کے ساتھ ساتھ نیویگیشن اور پرنٹنگ پریس کو ایجاد کیا جس نے مواصلات اور علم کے فروغ میں ایک انقلاب لایا ۔ اس سے ایک نیا دور شروع ہوا جس کو تحریری دور بھی کہاجاتا ہے اس سے پہلے علم و ہنر کی طرف لوگوں کا زیادہ رجحان نہیں تھا تاہم اس کے بعد علم کو فروغ ملا ۔ اسی طرح صنعتی انقلاب بھی بڑھنے لگا صنعتی انقلاب کی بدولت میکنائیزیشن ، بھاپ کی طاقت اور دیگر ایجادات کی طرف قدم بڑھایا جس نے انسان کی معاشی تبدیلی میں نمایاں رولادا کیا اور لوگوں کی طرز زندگی تبدیل ہوتی گئی ۔ انسان کا تجربات اور ایجادات کا سفر چلتا رہا اور 20ویں صدی کے آخر میں جدید ٹیکنالوجی نے ڈیجیٹل سفر شروع کیا جس میں بہت جلد انقلاب برپا ہوا ،ابتدائی طور پر ڈیجٹیل ایجادات میں ریڈیو ، ٹیلی ویژن اور اس کے بعد ٹیلیفون وجود میںآیا ان تین چیزوںنے پوری دنیا میں ڈیجیٹل انقلاب لایا اور لوگوں کےلئے رسل و رسائل اور موصلات کا نظام آسان بن گیا ۔ اس کے بعد اس میں مزید بہتری آئی اورکمپوٹر اور انٹرنیٹ نے تو انسان کی سوچ ہی بدل دی ۔نینو ٹیکنالوجی نے ڈیجیٹل نظام کو مزید بہتر بنایااس طرح سے ان پیش رفتوں نے بے مثال رابطے اور کمپیوٹنگ کی طاقت کا آغاز کیا، جس سے عالمگیریت اور انفارمیشن ایج کی راہ ہموار ہوئی۔ حالیہ دہائیوں میں، ٹیکنالوجی نے دائروں میں توسیع کی ہے۔
ماضی قریب میں جن باتوں کو خیالی تصور سمجھا جاتا تھا نینو ٹیکنالوجی نے اس کو اصل صورت میں پیش کیا ۔ نینو ٹیکنالوجی نے نہ صرف الیکٹرانکس بلکہ طبی شعبے میں بھی جدیدیت لائی ہے ۔ اسی طرح بائیوٹیکنالوجی نے جینیاتی انجینئرنگ، ذاتی ادویات، اور مصنوعی حیاتیات کی تلاش کو قابل بنایا ہے۔ جدید اور ٹیجیٹل ٹیکنالوجی نے انسانی زندگی میں بہتری لائی اور اس کے زندگی کی رفتار بڑھائی ۔ ساتھ ہی علاج ومعالجہ کےلئے نئی نئی راہیں نکالیں ۔ صحت کی دیکھ بھال کو بہتر بنانے، نقل و حمل کے نظام کو بہتر بنانے، اور فنانس سے زراعت تک صنعتوں میں انقلاب لانے کا وعدہ کرتے ہوئے مصنوعی ذہانت کا ارتقاءجاری ہے۔ تاہم ایک طرف اگر ٹیکنالوجی نے انسان کو فائدہ پہنچایا اور سماجی اور معاشی لحاظ سے انسان کی زندگی تبدیل کی تاہم اس کے علاوہ اس نے کئی خطرات بھی پیدا کئے ہیں جیسے کہ سائبر سیکورٹی وغیرہ ۔ سائبر فراڈ اور سائبر سیکورٹی اس کے منفی اثرات ضرور ہیں لیکن چلینجوں کے ساتھ ساتھ انسان کو مواقعے بھی دستیاب ہوتے ہیں ۔ کوانٹم کمپیوٹنگ جیسی ابھرتی ہوئی ٹیکنالوجیز کلاسیکل کمپیوٹرز کی صلاحیتوں سے بڑھ کر پیچیدہ مسائل کو حل کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔موجودہ دور میں اگر ہم مستقبل میں ٹیکناجی کے بارے میں غور کریں گے تو اس میں مزید بدلاﺅ آنے کی امید ہے ۔ اب انسان کرہ ارض کے ساتھ ساتھ خلائی تحقیق کی طرف بڑھ رہا ہے اور قدرت کے رموز و راز کو دریافت کرنے کی سعی کررہا ہے ۔ دوسری طرف مصنوعی ذہانت میں مزید ترقی ہوگی اور ڈیجیٹلائزیشن کے دور میں ایک اور انقلاب کی توقع کی جاسکتی ہے تاہم اس بات کو سمجھنے اور اس کو مد نظر رکھنے کی ضرورت ہے کہ انسانیت کی بھلائی کےلئے اُٹھائے جارہے اقدامات صرف انسانی خدمت تک محدود ہونی چاہئے نہ کہ انسانی بربادی اور افراتفری اور مستقبل کےلئے خطرے کےلئے ۔ اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ ڈیجٹیلائزیشن کو انسانیت کی خدمت تک ہی محدود رکھا جائے اس سے تباہی کےلئے استعمال کرنا اپنے پیروں پر کہلاڑی مارنے کے مترادف ہوگا۔