Mustufa Ansari
وادی کشمیر جو بلند و بالا ہمالیائی پہاڑیوں کے دامن میں واقع ہے جو قدرتی مناظر میں اپنی مثال آپ ہے اور قدرتی حسین مناظر سے قدرت کے شاہکار کا ایک اہم ورثہ ہے ۔ یہ جگہ جہاں خوبصورت مناظر کےلئے ایک اہم جگہ مانی جاتی ہے وہیں خطے میں مذہبی مقامات اس کی اہمیت کو اور زیادہ بڑھاتے ہیں ۔ وادی کشمیر میں مختلف مذاہب اور عقیدے کے ماننے والے ہیں اور مختلف مذہبی مقامات خطے کی مذہبی رواداری کی عمدہ مثال ہے ۔ یہ مذہبی مقامات کشمیر میں صدیوں سے بھائی چارے اور ہم آہنگی کو فروغ دینے میں رول اداکررہے ہیں ۔ ان روحانی جگہوں میں زبرون پہاڑیوں کے سلسلے سے جڑے شنکر آچاریہ پہاڑی پر واقع مندر ہے ۔ مانا جارہا ہے کہ شنکر آچاریہ مندر جو کہ بھگوان شیو کے ساتھ منصوب ہے قریب 200قبل مسیح میں تعمیر کیا گیا ہے ۔ یہ قدیم مندر نہ صرف فن تعمیر کا کمال ہے بلکہ کشمیر کی مذہبی تاریخ کا ایک اہم مقام بھی ہے۔ مندر جس جگہ تعمیر کیا گیا ہے وہ شہر سرینگر کے وسط میں یعنی نہرو پارک کے نزیدک جھیل ڈل کے کنارے پہاڑی پر واقع ہے ۔ اس جگہ سے شہر سرینگر کا خوبصورت منظر دکھائی دیتا ہے ۔ اس مندر کو سنت آدی شنکراآچاریہ کے نام پر رکھا گیا ہے ۔ آدی شنکر آچاریہ کشمیر مذہبی تعلیم کے پھیلاﺅ کےلئے آئے اور اس جگہ کو اپنا مسکن بنایا جہاں سے وہ اپنے مردوں کو شیو تعلیم سے بہرورکرتے تھے ۔
اسی طرح سرینگر میں ایک اور اہم مذہبی مقام جھیل ڈل کے کنارے درگاہ حضرتبل کا آستان عالیہ ہے ۔ یہ درگاہ فن تعمیر کی ایک عمدہ مثال ہے جس کی تعمیر میں سنگ مرمر کا استعمال کیا گیا ہے ۔ یہ آستان وادی کشمیر میں اسلامی تہذیب اور عقیدے کا مشاہدہ کراتا ہے ۔ اس آستان پر نہ صرف جموں کشمیر بلکہ ملک اور بیرون ممالک کے ذائرین بھی حاضری دیتے ہیں ۔ روایت ہے کہ درگاہ حضرتبل میں پیغمبر آخر الزماں کے موئے مقدس ہیں ۔ درگاہ حضرتبل میں مختلف اسلامی تاریخی کلینڈروں پر عرس ہائے منائے جاتے ہیں اور سب سے بڑا عرس ربیع الاول میں منایا جاتا ہے اور عید میلادلنبی کے موقعے پر درگاہ حضرتبل میں اجتماع عظیم منعقد ہوتا ہے جس میں لاکھوں عقیدت مند حاضری دیتے ہیں ۔
سرینگر شہر میں دیگر کئی اہم مذہبی مقامات ہیں جن میں سرینگر کے وسط میں قدیم تواریخی جامع مسجد ہے ۔ یہ مسجد اپنے فن تعمیر کےلئے مشہور ہے ۔ کہتے ہیں کہ سلطان سکندر کی طرف سے 1402عیسوی میں یہ مسجد تعمیر کی گئی اور بعد میں اس کی توسیع سلطان سکندر کے بیٹے زین العابدین نے کی ۔ اس مسجد کی تعمیر میں 378لکڑی کے لمبے لمبے ستون ہیں مسجد چار اطراف سے بنی ہے اور بیچ میں اس کا صحن ہے ۔ مسجد میں ہزاروں کی تعداد میں لوگ ایک ساتھ نماز اداکرسکتے ہیں ۔مسجد کا پرامن ماحول، اس کی تاریخی اور تعمیراتی اہمیت کے ساتھ، اسے کشمیر میں اسلامی ورثے کا مرکزی نقطہ بناتا ہے۔ مسجد کوکئی بار آگ سے نقصان بھی پہنچا ہے اس کے ساتھ ساتھ حالات کے تغیر و تبدیلی کے باوجود بھی مسجد لوگوں کےلئے روحانی عقیدہ سے جڑی ہوئی ہے ۔ مسجد میں ہر جمعہ کو نماز ہزروں کی تعداد میں لوگ نماز اداکرتے ہیں جبکہ اس مسجد میں سب سے بڑا اجتماع ماہ رمضان کے آخری جمعہ جس کو جمعتہ الوداع کے نام سے جانا جاتا ہے منعقد ہوتا ہے جس میں لاکھوں لوگ شرکت کرتے ہیں ۔
سرینگر شہر میں دیگر اہم مذہبی مقامات میں سے ایک مخدوم صاحب بھی ہے جو کوں ماران یا ہاری پربت کے دامن میں واقع ہے ۔ اس آستان میں حضرت شیخ مخدوم ؒ اور ان کے شاگرد حضرت باباداوود خاکی ؒ مدفون ہیں۔ اس آستان پر ہر سال میلہ لگتا ہے جو 13دنوں پر مشتمل ہوتا ہے ۔ اس کے علاوہ سال بھر عقیدت مند وادی کے اطراف و اکناف سے آکر اس جگہ پر حاضری دیتے ہیں اور اپنی مرادیں اللہ کے حضور رکھتے ہیں۔ اس آستان کی تعمیر کشمیری روایتی فن تعمیر کی عکاسی کرتا ہے ۔ اس آستان میں لکڑی پر بنی نقش نگاری اور پیچیدہ کاری گری کشمیری ورثے کا اہم ثبوت ہے ۔ اس آستان پر نہ صرف مسلمان بلکہ ہندو اور سکھ بھی آکر حاضری دیتے ہیں۔ مخدوم صاحبؒ کا آستان کشمیر میں صوفی ورثے کی عمدہ مثال ہے ۔
اسی طرح اگر ہم دیگر مذہبی مقامات کی بات کریں تو ان میں تول مولہ گاندربل میں ہندو عقیدے سے منسوب کھیر بھوانی مندر دیوی راگنیا ہے ۔کھیر بھوانی مندر کے ارد گرد شاندار چنار کے درخت لگے ہیں اور اس کے آگے ایک نہر نکلتی ہے ۔ اس مندر میں کشمیری پنڈت ہر سال میلہ مناتے ہیں جس کے عرف عام میں میلہ کھیر بھوانی کے نام سے جانا جاتا ہے ۔ یہ مندر کشمیر میں مذہبی بھائی چارے اور ہم آہنگی کی علامت ہے ۔ تولہ مولہ کے مقامی لوگ جو کہ مسلمان ہیںاس مندر کی نہ صرف دیکھ ریکھ کرتے ہیں بلکہ میلہ کو سجانے میں اہم رول اداکرتے ہیں ۔ لوگ میلے میں شرکت کرنے والے یاتریوں کا والہانہ استقبال کرتے ہیں۔
سرینگر میں ہی واقع خانقاہ معلی کا آستان شریف ہے جو کہ حضرت امیر کبیر میر سید علی حمدانیؒ سے منسوب ہے ۔ امیر کبیر نے اسی جگہ سے وادی کشمیر میں اسلامی تعلیمات کو عام کرنے کاسفر شروع کیا تھا ۔ یہ آستان بھی وادی کشمیر میں صوفیت کے اہم مرکز کے طور پر مانا جاتا ہے جہاں پر سال بھر عقیدت مند آکر یہاںحاضری دیتے ہیں ۔ یہ جگہ روح کو سکون بخشتی ہے ۔ اس کے علاوہ سرینگر میں ہی حضرت بلبل شاہ کا آستان بھی ہے یہ بھی صوفیت کی نشانی ہے۔
وادی میں امرناتھ گپھا بھگوان شیو سے منسوب ہے یہ گپھا ہندو عقیدت مندوں کےلئے انتہائی اہم اور قابل احترام ہے ۔ مانا جاتا ہے کہ گپھا میں بھگوان شیو کا لنگم قدرتی طور پر برف سے بن جاتا ہے ۔ کہتے ہیں کہ یہ لنگم قمری کلینڈر سے بنتا اور ختم ہوجاتا ہے یعنی سردیوں میںاس یہ بن جاتا ہے اور گرمیاں آتے آتے ایک اچھی شکل اختیار کرتا ہے پھر جوں جوں موسم گرم ہوتا ہے لنگم بھی پگھلنا شروع ہوجاتا ہے اور پھر نئے سال بن کر اُبھر آتا ہے ۔ ہر سال ہزاروں عقیدت مند امرناتھ یاترا کے دوران امرناتھ یاترا میں حصہ لیتے ہیں اور لنگم کا درشن کرتے ہیں ۔ اس گپھا کی روحانی اہمیت ہندو افسانوں میں گہری جڑی ہوئی ہے، جہاں یہ خیال کیا جاتا ہے کہ بھگوان شیو نے اسی غار میں دیوی پاروتی کو لافانی اور تخلیق کے راز بتائے تھے۔ امرناتھ یاترا سخت مشکل یاترا ہے جس میں کئی طرح کے چلینج ہیں خاص کر موسمی صورتحال کب تبدیل ہو ۔
اس کے علاوہ وادی کشمیر کے جنوبی حصے مٹن ، شوپیاں ، اور اننت نا گ میںبھی کئی تواریخی جگہیں ہیں جو کشمیر میں روحانیت کی عمدہ مثالیں پیش کرتی ہیں۔
غرض وادی کشمیر جس کو صوفی سنتوں کا مسکن بھی کہا جاتا ہے میں موجود مذہبی مقامات بھائی چارے ، ہم آہنگی اور مذہبی رواداری کی عمدہ مثالیں ہیں ۔ یہ خطے کے ثقافتی ورثے اور ملے جلے سماجی تانے بانے کو ظاہر کرتے ہیں۔ وادی کشمیر کا ہر مذہبی مقام ایک بھر پور تاریخ سے جڑا ہوا ہے ۔