بنگلہ دیش جنوبی ایشائی خطے میں ایک الگ خطہ ہے جہاں پر زبان ، ثقافت اور تہذیب جدا ہے ۔ اس ملک نے پاکستان سے اعلیحدگی کے بعد اپنا ترقی کا سفر جاری رکھا اور ایک جمہوری ملک کی شکل میں دنیا میں وجود میں آیا ۔ تاہم حالیہ سیاسی بحران نے اس کی سالمیت کو خطرے میں ڈال دیا ہے اور اس علاقائی استحکام کو شدید خطرہ لاحق ہوا ہے ۔ جیسا کہ قارئین کو یہ بات پتہ ہے کہ حالیہ ہنگامہ آرائی اور شیخ حسینہ کی جلاوطنی کے بعد ہے ملک کا کنٹرول ایک نئی حکومت کے ہاتھوں میں آگیا ہے ۔ بنگلہ دیشی سیاست میں شیخ حسینہ اور اس کی سیاسی جماعت عوامی لیگ قریب 15برسوں سے بھی زیادہ اقتدار میں تھی ۔شیخ حسینہ پر الزام ہے کہ اس نے اقتدار میں رہنے کےلئے انتخابی دھاندلیوں کا بھی سہارا لیا اور سیاسی حریفوںکو طاقت کے زور سے دبایا تھا۔اگرچہ شیخ حسینہ کی حکومت نے اس ملک کی ترقی میںاہم رول اداکیا لیکن بزور طاقت اقتدار پر حاصل کرنے کے الزامات بھی اس پر عائد ہے جس کی وجہ سے اسے حال ہی میں ملک کو چھوڑنا پڑا تھا ۔ رواں برس کے شروع میں ہی بنگلہ دیش میں اُس وقت تنازعات اور ہنگامہ آرائی شروع ہوئی جب طلبہ نے سڑکوں پر نکل کر حکومت پر دباﺅ ڈالتے ہوئے کہا کہ سابقہ فوجی کنبوں کےلئے سرکاری ملازمتوں میں 30فیصدی ریزرویشن کو ختم کیا جائے کیوں کہ اس سے دیگر امیدوار وں کی حق تلفی ہورہی ہے ۔ دوسری جانب قومی انتخابات میں حکمران جماعت پر ووٹروں کو دبانے اور دھاندلی کے الزامات لگائے گئے ۔اپوزیشن نے جس کی قیادت بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی کر رہی ہے اور مختلف دوسرے گروپوں کی حمایت حاصل ہے، حسینہ پر الزام لگایا کہ وہ اپنی حکمرانی کو برقرار رکھنے کے لیے ایک شرمناک انتخابی عمل کو ترتیب دے رہی ہے۔ اس نے ملک بھر میں بڑے پیمانے پر احتجاج کو جنم دیا، جس کے نتیجے میں حکومتی فورسز اور اپوزیشن کے حامیوں کے درمیان پرتشدد جھڑپیں ہوئیں۔شیخ حسینہ کی حکومت نے مظاہرین کو دبانے کےلئے بے تحاشہ طاقت کا استعمال کرتے ہوئے فورسز کو کھلی چھوٹ دی جس کی وجہ سے کئی ہلاکتیں ہوئیں۔ احتجاجی مظاہرے تشدد کی شکل اختیار کرگئے اور مشتعل مظاہرین نے حکمران جماعتوں کے لیڈران ، سابق افسران ، وزراءکے گھروں پر دھاوابول دیا ۔ اس طرح سے شیخ حسینہ کے سرکاری کوٹھے پر بھی حملہ کیا گیا جس کے نتیجے میں شیخ حسینہ کو فوجی ہیلی کاپٹرکے ذریعے وہاں سے نکالا گیا اور وہ ملک چھوڑنے پر مجبور ہوگئیں۔ شیخ حسینہ کے فرار نے ملک میں مزید سیاسی خلفشار پیدا کیا ۔ عوامی لیگ اور حزب اختلاف کی جماعتوں کے مابین سخت تلخیاں پیدا ہوئیں اور ملک میںسیاسی استحکام کی صورتحال پیدا ہوئی ۔ اب یہاں پر یہ بات غور طلب ہے کہ بنگلہ دیش کے اندرونی حالات صرف ملک تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ اس سے سرحدوں کے پار بھی اثرات مرتب ہوں گے ۔خاص کر اگر ہم بھارت کی بات کریں تو بھارت بنگلہ دیش کی سرحد پر پیدا ہونے والے حالات دونوںممالک کے درمیان تعلقات پر منفی اثرات ڈال سکتے ہیں۔جبکہ اس سے سمگلنگ ، دہشت گردی اور دراندازی کے واقعات بھی بڑھ سکتے ہیں۔ قارئین کو یہ بھی ذہن نشین رکھنا ہوگا کہ بنگلہ دیش کے حالات کافائدہ بیرونی طاقتیں بھی اُٹھاسکتی ہیں۔ جس سے خطے میں جغرافیائی سیاسی دشمنیوں کو مزید ہوا ملے گی۔
دوسری بات یہ ہے کہ ملک کو اندرونی طور پر شدت پسندوں سے بھی خطرہ پیدا ہوسکتا ہے جو ملک کے حالات کو مزید بگڑنے کاموجوب بن سکتے ہیں۔ ایسے عناصراپنے مقاصد کے حصول کےلئے ان حالات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ملک کی سالمیت کےلئے خطرہ پیدا کرسکتے ہیں اور ایسے حالات نہ صرف بنگلہ دیش بلکہ ہندوستان کےلئے بھی خطرہ بن سکتے ہیں۔ بنگلہ دیش میں سرگرم جمعیت المجاہدین اور دیگر انتہاپسند جماعتیں ان حالات میں بنگلہ دیش کی سرزمین بھارت کے خلاف بھی استعمال کرسکتی ہیں لھٰذا بھارت کی سیکورٹی ایجنسیوں کو بھی چوکنا اورمحتاط رہنے کی ضرورت ہے۔
یہاں پر یہ بات بھی ضروری بیان کرنی ہے کہ کسی بھی ملک میں سیاسی بحران اور مخدوش حالات ملک کی اقتصادیات کو کمزور کرتی ہے اور موجود حالات سے بنگلہ دیش کی اقتصادی حالت غیر مستحکم ہوسکتی ہے ۔ بنگلہ دیش میںکئی صنعتیں بنگلہ دیش کی جی ڈی بی میں اہم کردار اداکرتی ہے جن میں ٹیکسٹائل انڈسٹری اور ماہی پروری شامل ہے تاہم بد امنی اور خراب حالات کے سبب ان شعبہ جات کو کافی نقصان اُٹھاناپڑرہا ہے ۔ قارئین کومعلوم ہوگا کہ بنگلہ دیش کی حالت پہلے ہی غیر متزلزل ہے اور اقتصادی طور پر یہ ملک کافی کمزور ہے اور اگر موجود دور میں وہاں کے حالات اس میںمزید ابتری لاسکتے ہیں کیوںکہ اس سے سرمایہ کاری کے مواقعے معدوم ہوجائیں گے ۔
اگرچہ عالمی برادری اور مغربی ممالک شیخ حسینہ کی حکمرانی پر تنقیدکرتے آئے ہیں اور اس حکومت کو آمرانہ طرز کی حکومت قراردیا تھا تاہم عالمی برادری بنگلہ دیش کے موجودہ سیاسی بحران کو حل کرنے میں اہم کردار اداکرسکتی ہے۔ عالمی برادری کا رول ہے کہ وہ بنگلہ دیش کی مقامی سیاسی جماعتوں اور لیڈران سے بات کرکے ایک چنندہ حکومت کی تشکیل کےلئے اقدامات اُٹھائیں۔ اس کےلئے سب سے پہلے تمام سیاسی دھڑوں کے درمیان ایک جامع مکالمہ نظام کی علامت کو بحال کرنے اور جمہوری عمل میں اعتماد کی بحالی کے لیے ضروری ہے۔ غیر جانبدار جماعتوں کو اس بات چیت میں سہولت فراہم کرنی چاہیے اور حکومت اور اپوزیشن کے اہم اسٹیک ہولڈرز کو شامل کرنا چاہیے۔ 2011 میں ختم کیے گئے نگراں حکومتی نظام کی بحالی، آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کو یقینی بنانے کی جانب ایک اہم قدم ہو سکتا ہے جیسا کہ اپوزیشن کا مطالبہ ہے۔ دوم بنگلہ دیش میں سیاسی بے چینی کی بنیادی وجوہات کو حل کرنے کے لیے ایک ٹھوس کوشش کی جانی چاہیے۔ اس میں بدعنوانی سے نمٹنا، منصفانہ انتخابی طریقوں کو یقینی بنانا، اور مستقبل میں اختیارات کے غلط استعمال کو روکنے کے لیے جمہوری اداروں کو مضبوط کرنا شامل ہے۔ کسی بھی ملک میں صاف و شفاف انتخابات ہی ایک مضبوط جمہوریت کی بنیاد بن سکتی ہے اور اگر اس میں جانب داری سے کام لیا جائے تو اس کے منفی نتائج سامنے آتے ہیں۔ اس لئے بین الاقوامی برادری بنگلہ دیش میں صاف و شفاف چناﺅ کےلئے اپنے نگران بھی قائم کرسکتی ہے۔ اس بات کو بھی یقینی بنایا جانا چاہئے کہ انتخابات میں ہر کسی جماعت کو برابری کا موقع دیا جانا چاہئے اور جمہوری عمل میں کسی بھی بیرونی مداخلت سے پرہیز کرنا چاہئے ۔ شیخ حسینہ اور اس کی جماعت نے ماضی میں جو کچھ بھی کیا تھا اس کا خمیازہ آج پورا ملک اُٹھارہاہے اس لئے اس بات کو مد نظر رکھنا ہوگا کہ جو بھی جماعت حکومت قائم کرنے میںکامیاب ہوگی وہ انصاف اور عدل پر مبنی ہونی چاہئے جو ملک کی ترقی اور لوگوں کی فلاح و بہبود کےلئے کام کرسکیں۔
EARTH DAY IN KASHMIR: A GREEN SYMPHONY OF PATRIOTISM, POWER AND PRESERVATION
Earth Day, observed globally on April 22, is more than just a calendar occasion it is a worldwide clarion call...
Read more