جلسے سے پارٹی کے کہی لیڈروں نے خطاب کیا۔
شیر شیران
چرارشریف
حلقہ انتخاب چرارشریف میں اپنی قسمتی ازمائی کے لئے برسر پیکر جوان سالہ ایڈوکیٹ جاوید محمد حبی جوکہ عوامی اتحاد پارٹی کے نامزد امیدوار ہے۔ نے آج قصبہ چرارشریف کے تاریخی اولڈ بس سٹینڈ میں اپنے انتخابی جلسے سے خطاب کرتے ھوئے فاروق عبداللہ اور اسکی جماعت کو حذف تنقید بناتے ہوئے الزام عائد کیا کہ سال 1987، کے دوران جب متحدہ محاذ وجود میں آیا تب اسکے والد ڈاکٹر غلام محمد حبی نے جب بطور آزاد امیدوار الیکشن لڑنا تو عین ووٹ شماری سے دوروں قبل اسے ناگام کے قریب گرفتار کرکے بڈگام میں ٹاٹا کے تحت جیل بھیجدیا گیا تھا۔جسکے بعد اسکے والد نے بذات خود اپنی وکالت کرتے ہوئے
کمرہ عدالت میں موجود جج کو بتایا کہ اسے آج تک ہندوستانی ڈیموکریسی پہ ناز تھا لیکن اب پتہ چلا کہ یہ میری بھول ھے لہذا میں تا حیات کبھی الیکشن نہیں لڑھوں گا۔ لیکن جب حالات نے رخ بدلا، قوم اصلیت جان گئی، کہ کشمیر کی بربادی یہاں کے سیاسی سوداگروں کی دین، ھے تب بحثیت ایڈوکیٹ میں نے اپنے پیشے کو عوامی مفاد کے خاطر چھوڑ کر ناچیز نے الیکشن میں حصہ لیا اور جلد ھی عوامی اتحاد پارٹی نے چرارشریف آسمانی نشست کے لئے مجھے نامزد کیا۔ چونکہ گذشتہ تیس سال کے حالات اور قوم کشمیر کی حالت زار روز سمجھتا ھوں، لہذا، ریاستی اسمبلی کے اعلی ایوان میں حقیقی نمائندگی ادا کرنا چاہتا ھوں جس کے لئے مجھے پورے حلقے کے عوام کا ووٹ اور مکمل سپورٹ ضرورت ھے۔ ایڈوکیٹ حبی نے پورے خطے کی سیاسی بصیرت پر مکمل نظر رکھنے کا دعوا کرتے ہوئے۔ اعلان کیا کہ وہ کانگریس، نیشنل، پی ڈی پی اور دوسری جماعتوں کی چالاکیوں، سودابازیوں،اور دوسرے ڈراموں سے واقف ھے۔ انھوں عوام الناس کو گیس سلینڈر،کو کامیاب بنانے موصوف کو ایک موقعہ فراہم کرنے کی استدعا کی تاکہ وہ نہ صرف انڈین نیشنل کانگریس، بلکہ نیشنل کانفرنس کے ڈاکٹر، فاروق عبداللہ اور اسکی جماعت کے ذمہ داروں سے قوم کشمیر سے کی گئی ہر دھوکہ بازی اور غداری، کے معاملے میں، سوال در سوال، جواب سرعام طلب کرنے کے قابل ہوسکے موصوف نے کہا کہ ایک وقت تھا کہ جب نیشنل کانفرنس کے پاس 54،ممبر اسمبلی، تھے لیکن اسوقت دفعہ370، جیسے حساس، معاملہ کو آرڈیننس یا کسی دوسرے طریقے سے قانونی طور مضبوط کرنے کے بجائے، اپنے ہاتھوں سے توڑنا شروع کیا اور کشمیریوں کو اس سلسلے میں آج بے وقوف سمجھ کر بی جے پی کی طرف برخواست کئے گئے
ایکٹ کو واپس لانے کے نام پر ووٹ مانگتا ھے۔ ایڈوکیٹ حبی نے اپنی تقریر میں ایسے بہت سارے معاملات دہرائے جنھیں اسکی پارٹی بحثیت منشور سامنے لاتی رھی۔واضح رھیے کہ جلسے میں عین موقعے پر انجینر رشید کی شرکت منسوخ منسوخ ہوئی جب اسکے والد کی طبیعت بگڑنے کی اطلاع، یہاں پہنچی جبکہ عوامی اتحاد پارٹی کے بعض لیڈروں نے جلسہ سے خطاب کیا۔