Wednesday, July 2, 2025
  • Contact
  • About us
  • Advertise
  • Careers
  • Privacy Policy
Gadyal Kashmir
  • Home
  • Kashmir
  • Jammu
  • World
  • National
  • Sports
  • Article
  • ePaper
No Result
View All Result
Gadyal Kashmir
Home Opinion Article

سندھ طاس معاہدہ سیاسی پس منظر اور خدشات

Gadyal Desk by Gadyal Desk
20/09/2024
A A
سندھ طاس معاہدہ سیاسی پس منظر اور خدشات
FacebookTwitterWhatsappTelegram

Related posts

“The Declining Love for Mathematics in Kashmir: A Wake-Up Call”

“The Declining Love for Mathematics in Kashmir: A Wake-Up Call”

29/06/2025
   آیوشمان بھارت

  آیوشمان بھارت

28/06/2025

ہندوستان اورپاکستان کے مابین پانی تنازعہ عرصہ سے چلا آرہا ہے ۔ دونوں ممالک کے درمیان 19ستمبر 1960میں سند طاس آبی معاہدے ہوا اور دونوں ممالک نے کئی نکات پر اتفاق کرتے ہوئے معاہدے پر دستخط کئے ۔ یہ معاہدہ دونوں ممالک کے مابین باہمی اتفاق راے پر مبنی ہے نہ کہ صرف یہ ایک دستاویز ہے ۔ آبی تنازعہ کو سلجھانے کےلئے عالمی بینک نے اس معاملے ثالثی کا کردار اپنا اور یہ معاہدے طے پایاجس کا مقصد دنوں خطوں میں پانی کے بہاو کو بغیر کسی خلل کے جاری رکھنا تھا ۔ تاہم وقت کی رفتار کے بہاﺅ میں اس معاہدے میں کئی چلینج سامنے نکل کر آئے جس نے دونوں ممالک پر ایک آزمائش ڈالی ۔ اگر ہم سند طاس معاہدے کے پس منظر پر روشنی ڈالیں تو سند طاس معاہدے دریائے سندھ کے پانی پر مشتمل ہے ۔ دریائے سندھ دنیاکے پانی کے نظاموں میں سے قدیم ترین نظام ہے جو قریب 3ہزار 200کلو میٹر پر مبنی ہے ۔ دریائے سندھ وادی کشمیر سے ہوتا ہوا تبت کے بالائی علاقوں سے سفر کرتا ہوا پاکستان میں داخل ہوتا ہے جس کا آخری پڑاﺅ بحرہ عرب ہے ۔ یعنی ہندوستان سے نکل کر پاکستانی میدانی علاقوںمیں پہنچ کر یہ سمندر میں جاملتا ہے ۔ اس نظام میں دریائے سندھ اور اس کے پانچ بڑے معاون دریا جہلم، چناب، راوی، بیاس اور ستلج شامل ہیں جو پورے خطے میں زراعت، صنعت اور روزمرہ کی زندگی کے لیے ضروری پانی فراہم کرتے ہیں۔ یہ دریاءنہ صرف جموں کشمیر کے خطوں بلکہ پاکستان اور تبت کےلئے بھی کافی اہمیت کے حامل ہیں جو اپنے ماتحت علاقوں کو زرخیز بناتا ہے ۔ اگر ہم 1947سے پہلے دریائے سندھ پر نظر ڈالیں گے تو معلوم ہوتا ہے کہ ہندوستان اور پاکستان کے قیام سے قبل برطانوی حکومت کے تحت وسیع علاقے کو مشترکہ طور پر سیراب کرتا تھا ۔ لیکن بھارت کی تقسم نے دریائے سندھ کو بھی تقسیم کیا ۔ ملک کے بٹوارے کے بعدجو نئے علاقے وجود میں آئے یہ دریاءان سے گزرتا گیا جس نے ایک لکیر کے طور پر کام کرتے ہوئے خطے کے پانی کی حصولیابی کو اُجاگر کیا ۔ جب برطانوی حکومت نے ہندوستان کے بٹوارے کے عمل کو انجام دیا تو اس عمل سے دریاءکے بہاﺅ کو بھی اثر انداز کیا کیوںکہ ہندوستان کے قبضے میں دریاءکا اوپری حصہ آیا جبکہ پاکستان کو دریا ءکا نچلا حصہ آیاجو اس ملک کے ایک وسیع عریض اراضی کو سیراب کرتا ہے جس پر کاشتکاری اور زرعی سرگرمیوں کا انحصار ہے ۔ اس سے ایک نازک صورتحال پیدا ہو گئی۔ پاکستان، زراعت کے لیے دریائی پانی پر بہت زیادہ انحصار کرتا ہے، اس بات کا خدشہ تھا کہ بھارت، اپ اسٹریم، کسی بھی وقت اس کی پانی کی فراہمی بند کر سکتا ہے۔ کیوں کہ دونوں ممالک کے مابین جو خلفشار اورانتشارپیدا ہوا اس سے ان خدشات کو جن دیا تھا تاہم اس معاملے کو جوں کی توں صورتحال کو برقرر رکھنے کےلئے 1947میں ایک معاہدہ طے پایا لیکن جیسے جیسے دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی بڑھ گئی، یہ معاہدہ 1948 میں ٹوٹ گیا۔ یہ واضح تھا کہ باضابطہ معاہدے کے بغیر، سندھ طاس کا مستقبل تنازعات اور ممکنہ طور پر جنگ سے بھی متاثر ہو گا۔ 1950 کی دہائی کے اوائل میںپانی کی تقسیم کے مسائل پر بڑھتے ہوئے خدشات کے ساتھ، ورلڈ بینک نے ثالث کے طور پر قدم رکھا۔دنوںممالک نے ورلڈ بینک کے ثالثی قبول کی اور اس طرح سے اقوام متحدہ کے زیر نگراں ٹینسی ویلی اتھارٹی کے سابق سربراہ ڈیوڈ لیکینتھل کی قیادت میں عالمی بینک نے دونوں ممالک کے مابین بات چیت کےلئے لائحہ عمل مرتب دیااور اس طرح سے عالمی بینک کی ثالثی کے بعد دونوںممالک کے مابین بات چیت کے کئی ادوار 9برسوں تک چلے اور بالآخر دونوں ممالک ایک نتیجے پر پہنچے اور اس طرح سے 19ستمبر 1960میں اُس وقت کے بھارتی وزیر اعظم جواہر لال نہرو اور پاکستانی صدر ایوب خان نے سند طاس معاہدے پر دستخط کئے ۔ عالمی بینک نے دونوں ممالک کو قریب لانے میںایک اہم کردار ادا کیا، نہ صرف ایک ثالث کے طور پر بلکہ ایک دستخط کنندہ کے طور پر اس بات کو یقینی بناتے ہوئے کہ دونوں ممالک معاہدے کی پاسداری کریں۔ایک طرف ہندوستان اور پاکستان اس نئے معاہدے پر مطمین نظر آئے تو دوسری طرف اس کو عالمی تنازعات کے حل میں سفارتکاری کی جیت تصور کیا گیا ۔ اس بیچ انڈین واٹر ٹریٹری نے دریائے سندھ کے آبی وسائل کی تقسیم کاری کےلئے ایک منصوبہ مرتب کیا جس کے تحت دریاﺅں کو دو قسموں کا قرار دیا گیا جن میں مشرقی دریاء، جس میںدریائے راوی ، ستلج اور بیاس آتے ہیں اور ان مشرقی دریاﺅں پر ہندوستان کو خصوصی حقوق دیئے گئے تاہم پاکستان کو بھی اس سے درکنار نہیں کیا گیا بلکہ ان دریاﺅں کے بہاﺅ میں کچھ حصہ پاکستان کو دیا گیا تاکہ ماحولیاتی تواز برقرار رہے ۔ اسی طرح سے مغربی دریاءجن میں انڈس، جہلم اور چناب شامل ہیں کو پاکستان کو دیا گیا اور ان دریاﺅں کا زیادہ بہاﺅ معاہدے کے تحت پاکستان کو ملنا تھا جو کل پانی کا قریب قریب 80فیصدی پانی پاکستان کے حصے میں جاتا ہے تاہم بھارت نے ان دریاﺅں کو غیر استعمال شدہ مقاصد کا حق برقرار رکھا جس کے تحت ان دریاﺅں میں ہائیڈر و پاورجنریشن ، نیوگیشن اور زراعت کےلئے پانی کا استعمال شامل تھا تاہم اس استعمال سے پاکستان کو جانے والے پانی کے بہاﺅ میں کوئی خلل نہ پڑنے کا وعدہ برقرار تھا۔ عالمی بینک کی ثالثی سے طے شدہ معاہدے کے تحت ایک کمیٹی کا بھی قیام عمل میں لایا گیا جس میں ہر ملک سے ایک کمشنر مقرر کیا گیا تاکہ معاہدے پر عمل درآمد یقینی بن سکے ۔ اس کےلئے کمیشن کی جانب سے باقاعدگی سے اجلاس منعقد کئے جاتے تھے اور پانی کی تقسیم کے بارے میں خدشات کو دور کیا رہا۔ جہاں تک ہند پاک سند طاس معاہدے پر دونوں ممالک کے مابین تنازعات کی بات ہے تو اس معاہدے کو خاص یہ ظاہر کرتا ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان تین جنگیں لڑی گئیں جن میں 1965، 1971اور 1999میں کرگل جنگ ہوئی جبکہ سرحدوں پر دہائیوں تک کشیدگی جاری رہی اور کئی چھوٹے بڑے واقعات رونماءہوئے اور دونوں ممالک کے درمیان باہمی کشیدگی اور تناﺅ بڑھتا گیا یہاں تک کی سفارتی سطح پر بھی حالات کشیدہ ہوئے لیکن اس کے باوجود بھی یہ معاہدہ برقرار رہا اور دریاﺅں سے بہتا پانی اپنے بہاﺅ کے ساتھ جاری رہا۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ تنازعات نہیں ہوئے ہیں۔ جیسے ہی بھارت نے مغربی دریاو¿ں پر ہائیڈرو الیکٹرک پراجیکٹ تیار کرنا شروع کیے، پاکستان نے خدشات کا اظہار کیا کہ یہ منصوبے معاہدے کی شرائط کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بھارت کو پانی کے بہاو¿ کو کنٹرول کرنے کا اختیار دے سکتے ہیں۔ جیسا کہ پہلے ہی ذکر کیا گیا ہے کہ بھارت کو ان دریاﺅں پر پاور پروجیکٹ بنانے اور پانی کے بہاﺅ کو متاثر کئے بغیر دیگر سرگرمیاں جاری رکھنے کا حق حاصل ہے تاہم پاکستان نے کئی بار ان سرگرمیوں پر اعتراض اُٹھایا ۔پاکستان نے دریائے چناب پر بگلہار ڈیم کی تعمیر پر زیاددہ اعتراض جتایا کیوں کہ پاکستان کو خدشہ تھا کہ آبپاشی کے اہم اس دریاءکے پانی کے بہاﺅ کو یہ پروجیکٹ متاثر کرسکتا ہے اور پاکستان نے 2005میں ان اعتراضات کو عالمی کمیٹی کو بھیج دیا۔ جس کے بعد عالمی بینک کے ماہرین نے سروے اور جائزہ لینے کے بعد بھارت کے حق میں فیصلہ تو دیا لیکن اس ڈیم کی تعمیر میں کچھ ترامیم کی بھی سفارش کی تاکہ پاکستان کی طرف جانے والے پانی کے بہاو کو بلا رُکاوٹ جاری رکھا جاسکے ۔
پاکستان کی جانب سے صرف بگلہار پروجیکٹ پر ہی اعتراض نہیں اُٹھایا بلکہ جہلم پر بنائے گئے کشن گنگا ہائیڈروالیکٹرک پروجیکٹ پر بھی اعتراض کیا ۔ پاکستان نے بھارت کی جانب سے بجلی کی پیداوار کے لیے پانی کا رخ موڑنے پر اعتراض کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ اس سے دریائے نیلم میں بہاو¿ کم ہو جائے گا، جو جہلم کی معاون دریا ہے۔ اس تنازعہ کو ثالثی کی مستقل عدالت میں لے جایا گیا، جس نے 2013 میں فیصلہ دیا کہ بھارت اس منصوبے کے ساتھ آگے بڑھ سکتا ہے لیکن اسے پاکستان کے لیے کم سے کم پانی کا بہاو¿ برقرار رکھنا چاہیے۔جیسا کہ پہلے ہی بتایاگیا کہ بھارت کے حدود میں آنے والے ان دریاﺅں پر ان سرگرمیوں کو جاری رکھ سکتا ہے جن سے پاکستان کی طرف جانے والے پانی کے بہاﺅ میں کوئی رُکاوٹ نہ ہو اور معاہدے کے تحت ناہی بھارت ان دریاﺅں کا رُخ موڑ سکتا ہے ۔اس طرح سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ 19ستمبر 1960میں دونوںممالک کے سربرہاں کے مابین طے پانے والا معاہدہ ایک مضبوط معاہدہ ثابت ہوا جو کئی چلینجوں کے باوجود بھی اپنی ہیت میں برقرار رہا۔حالیہ برسوں میں، بھارت اور پاکستان کے درمیان سیاسی تناو¿ کی وجہ سے بھارت میں سندھ طاس معاہدے پر نظرثانی کے لیے نئے سرے سے مطالبات سامنے آئے ہیں۔ 2019 میں پلوامہ حملے کے بعد، جس کی وجہ سے دونوں ممالک کے درمیان دشمنی میں تیزی سے اضافہ ہوا، کچھ ہندوستانی رہنماو¿ں نے مشورہ دیا کہ اس معاہدے پر دوبارہ غور کیا جائے یا اسے مکمل طور پر ختم کر دیا جائے۔ اس کے جواب میں پاکستان نے بین الاقوامی پلیٹ فارمز پر خدشات کا اظہار کرتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ معاہدے میں کسی بھی قسم کی رکاوٹ پانی کے شدید بحران کا باعث بن سکتی ہے اور خطے کو مزید عدم استحکام کا شکار کر سکتی ہے۔ چیلنجوں کے باوجود سندھ طاس معاہدہ سفارت کاری اور تعاون کی طاقت کا ثبوت ہے۔ یہ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان ان چند معاہدوں میں سے ایک ہے جس نے مسلسل کام کیا ہے، جو کہ انتہائی ہنگامہ خیز دور میں بھی پانی کی تقسیم کا فریم ورک فراہم کرتا ہے۔ لیکن 21ویں صدی میں اس معاہدے کو کئی طرح کے چلینج درپیش ہیں جن میں سب سے بڑا چلینج موسمی تبدیلی ہے جس پر کسی ملک کاکنٹرول تو نہیں ہے البتہ موسمی تبدیلی سے پانی کا بہاﺅ ضرور کم ہوسکتا ہے کیوں کہ گلوبل وارمنگ کی وجہ سے ہمالیائی خطے میں موجود گلیشر جو دریائے سندھ کےلئے لائف لائن کا کام کرتے ہیں تیزی سے پگھل رہے ہیں اور آنے والے وقت میں یہ پانی کے بہاﺅ میں نمایاں کمی ظاہر کرسکتا ہے ۔ یہاں پہلے ہی ہندوستان اور پاکستان کو موسمی بدلتی صورتحال جیسے ، بے موسم بارش، طویل خشک سالی ، گرمی میں اضافہ جیسے مسائل کا سامنا ہے جو دونوں ممالک کےلئے زرعی سرگرمیوں پر اثر انداز ہورہے اور دونوں ممالک کو ضرورت ہے کہ وہ بدلتے موسمی منظر نامے کے مطابق ہی زرعی سرگرمیوں کی منصوبہ بندی کریں۔ اور دونوںممالک کو ایک ساتھ چلتے ہوئے موسمی تبدیلی سے پیدا شدہ صورتحال پر قابو پانے کےلئے کام کرنا چاہئے تاکہ آنے والے وقت میں پانی کی تقسیم کاری پر کوئی تنازعہ کھڑا نہ ہو۔ عالمی موسمیاتی تبدیلی صرف پاکستان اور ہندوستان کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ یہ عالمی سطح پر ممالک کو اثر انداز کررہا ہے تاہم جنوبی ایشائی خطے میں ہندپاک کو باہمی اعتماد سازی کو فروغ دینے کےلئے موسمی صورتحال کا مقابلہ کرنے کےلئے متفقہ طو رپر کام کرنا ہوگا۔

Gadyal Desk
Gadyal Desk
Previous Post

Police registers 04 FIRs against cannabis cultivation in Ganderbal

Next Post

Indian Army Inaugurates Him Tech Symposium 2024 in Leh, Showcasing Indigenous Defence Innovations for High Altitude Warfare

Related Posts

“The Declining Love for Mathematics in Kashmir: A Wake-Up Call”
Article

“The Declining Love for Mathematics in Kashmir: A Wake-Up Call”

by Gadyal Desk
29/06/2025
0

Dr. Azham Ilyass “Mathematics is the most beautiful and most powerful creation of the human spirit.”...

Read more
   آیوشمان بھارت

  آیوشمان بھارت

28/06/2025
With Gratitude and Respect: Bidding Adieu to Our Guiding Light

خاموش ترقی کس طرح ہندوستانی مسلمان اپنے اپنے خوابوں کو دوبارہ حاصل کررہے ہیں

28/06/2025
With Gratitude and Respect: Bidding Adieu to Our Guiding Light

عالمی بحران اور امن کو برقرار رکھنے میں اسلامی تعلیمات کا کردار

28/06/2025
Land of Streams

Land of Streams

25/06/2025
Next Post
Indian Army Inaugurates Him Tech Symposium 2024 in Leh, Showcasing Indigenous Defence Innovations for High Altitude Warfare

Indian Army Inaugurates Him Tech Symposium 2024 in Leh, Showcasing Indigenous Defence Innovations for High Altitude Warfare

  • Contact
  • About us
  • Advertise
  • Careers
  • Privacy Policy
e-mail: [email protected]

© 2022 Gadyal - Designed and Developed by GITS.

No Result
View All Result
  • Home
  • Kashmir
  • Jammu
  • World
  • National
  • Sports
  • Article
  • ePaper

© 2022 Gadyal - Designed and Developed by GITS.