شیخ سمیر
ہندوستان کے قد آور لیڈر مہاتما گاندھی کی قیادت میں آل انڈیا کانگریس کمیٹی نے 8اگست 1942کو بھارت کو انگریزوں سے آزادی کےلئے بھارت چھوڑو آندولن شروع کیا ۔ اس کو ”Quit India Moment“کے نام سے جانا جاتا ہے ۔ اس دن سے بھارت میں انگریزوں کے خلا ف مزاحمت زور پکڑنے لگی ۔اس دن اب تک کا سب سے بڑا احتجاج کا اہتمام کیا گیا تھا اس عوامی احتجاج کا مقصد ہندوستان میں برطانوی حکومت کا خاتمہ کے مطالبے کو زیادہ مضبوط بنانا تھا ۔ اس عوامی لہر سے ملک میں خود مختاری کے حصول کےلئے مشترکہ کوششوں اور اتحاد کی ضرورت اُجاگر ہوئی ۔ بھارت چھوڑ آندولن ہر سال 9اگست کو منایا جاتا ہے اور ملک اس جرات ، اتحاد اور ہندوستانی تحریک آزادی کی داستان کے سلسلے میں ملک اس دن کو مناتا ہے ۔ تاکہ اس وقت کویاد رکھا جائے ، ان بہادر لوگوں اور لیڈروں کو یاد رکھا جائے جنہوںنے ملک میں اتحاد اور قربانی پیش کرنے کا حوصلہ بلند کیا ۔ ہندوستان چھوڑو تحریک کا پس منظر دوسری جنگ عظیم کے بڑے عالمی تنازعے کے خلاف ترتیب دیا گیا تھا۔ ہندوستانی رہنماو¿ں سے مشاورت کے بغیر جنگ میں برطانوی شمولیت نے بڑے پیمانے پر عدم اطمینان پیدا کیا اور خود مختاری کے مطالبے کو تیز کیا۔بھارتی لیڈران نے برطانوی حکومت پر زور دیا کہ وہ بھارت کو چھوڑ دیں اور یہاںکے لوگوں کو کھلی فضاءمیں سانس لینے کی اجاز ت ہو ۔ مارچ 1942میں اس تحریک کو مزید وسعت اُس وقت ملی جب برطانوی حکومت بھارت کو تسلط دینے کے وعدے میں وہ ناکام ہوئی اس سے مکمل آزادی کی تحریک کو مزید تقویت ملی ۔ انڈین نیشنل کانگریس نے انگریزوں کے ہندوستانی مطالبات ماننے سے انکار سے مایوس ہوکر اپنی کوششیں تیز کرنے کا فیصلہ کیا۔ اگست 1942 میںبمبئی میں جس کو آج ممبئی کے نام سے جانا جاتا ہے میں آل انڈیا کانگریس کمیٹی کے اجلاس کے دوران، بڑے پیمانے پر سول نافرمانی کی تحریک کی کال جاری کی گئی۔ اس روز مہاتما گاندھی نے ہندوستانیوں سے کہا کہ وہ ”کرو یا مرو“ کے جذبے کے ساتھ تحریک آزادی کو چلائیں کیوںکہ ہمارے پاس دوسرا راستہ نہیں ہے ۔ 8 اگست، 1942 کو ہندوستان چھوڑو قرارداد منظور کی گئی، جس میں انگریزوں پر زور دیا گیا کہ وہ فوری طور پر ہندوستان چھوڑ دیں اور ہندوستانی عوام کو خود حکومت کرنے کی ذمہ داری دیں۔ مہاتما گاندھی کی گووالیا ٹانک میدان جسے اگست کرانتی میدان کے نام سے بھی جانا جاتا ہے میں زوردار تقریر نے ایک جوش بھڑکا دیا جو پورے ملک میں تیزی سے پھیل گیا۔ عدم تشدد پر مبنی مزاحمت کے لیے ان کی واضح کال نے لاکھوں لوگوں کو تحریک میں شامل ہونے کی ترغیب دی۔مہاتما گاندھی پُر امن طریقے سے تحریک آزادی کی مہم کو چلانے کے حق میں تھے اور انہوںنے عدم تشدد کے وژن کو لیکر اس تحریک کی آبیاری کی ۔ لیکن انگریز حکومت نے اس تحریک کو ملک میں بد امنی پھیلانے کے امکانات سے جوڑتے ہوئے قرارداد منظور ہونے کے فورا بعد مہاتما گاندھی اور ان کے ساتھیوں جن میں جواہر لال نہرو، سردا ولبھ بھائی پٹیل ، مولانا عبداکلام آزاداور دیگر ساتھیوں کو گرفتار کرلیا تاکہ اس تحریک کو دبایا جاسکے ۔ لیڈران کی گرفتاری نے اس تحریک کو اور زیادہ بھٹکادیا ۔ عوام اس تحریک کے ساتھ جڑتی گئی حالانکہ ان کے لیڈران جیل میں تھے لیکن لوگوں نے خوف نہیں کھایا بلکہ آزادی کے مطالبے پر ڈٹے رہے ۔
اس طرح سے یہ تحریک زندگی کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والوں کی تحریب بنتی گئی اس تحریک کے ساتھ لوگ جڑتے گئے ، کاروباری افراد، طلبہ وکلائ، کسان مرد و خواتین آزادی کی اس تحریک کو اپناتے گئے ۔ اس طرح سے ملک میں شدید احتجاج، ہڑتال اور سول نافرمانی شروع ہوئی ۔ اس سول نافرمانی کے دوران ٹرانسپورٹ ، مواصلات، سرکاری دفاتر غرض انگریزی انتظامیہ کو نشانہ بنایا گیا جس سے برطانوی انتظامیہ میں خلل پڑا اور کئی خطوں میں اس سے حالات بگڑ گئے ۔انگریز حکمرانوںنے ہندوستانیوں کی تحریک کوکچلنے کےلئے ہر طرح کے حربے آمانے شروع کئے ۔ ہزاروں افراد کی گرفتاری عمل میں لائی گئی ، انہیں قید خانوں میں تشدد کا نشانہ بنایا گیا ، کئی علاقوں میں فوج کو تعینات کیا گیا جس نے عوام پر عتاب کا سلسلہ شروع کیا ۔ فوج نے سرعام لوگوں کو سزا دینے کی روایت جاری کی ، لوگوں پر جرمانے عائد کئے جاتے، انہیں کوڑے مارے جاتے اور کئی واقعات میں براہ راست گولی کا نشانہ بھی بنایا جاتا تھا ۔ انگریز حکومت نے ذرائع ابلاغ پر قدغن لگائی اور اظہار رائے اور برطانیہ کے خلاف لکھنے والوں کے خلاف کارروائی کی جاتی ۔ ہندوستان چھوڑو تحریک میں جہاں مردوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا وہیں اس تحریک میں خواتین کا بھی اہم رول رہا ہے ۔ ارنا آصف علی، اوشا مہتا اور سچیتا کرپلانی جیسی خواتین اس تحریک کی اہم رُکن تھی جنہوںنے احتجاج، زیر زمین سرگرمیاں انجام دیکر اس تحریک میں نمایاںطو رپر اُبھری۔ ارونا آصف علی، خاص طور پر، ایک مشہور شخصیت بن گئیں، جنہوں نے 9 اگست 1942 کو گووالیا ٹینک میدان میں انڈین نیشنل کانگریس کا جھنڈا لہرایا۔اس طرح سے خواتین کی فعال شرکت نے بھارت چھوڑو آندولن کو مزید مضبوط کیا ۔ کانگریس لیڈران کی گرفتاری کے بعد بھارت چھوڑو تحریک زیر زمین سرگرمیوں میں زیادہ فعال دیکھی گئی اور ان خواتین نے احتجاجوں کو منظم کرنے اور ممنوعہ لیٹریچر کی تقسیم کاری خفیہ طریقے سے انجام دینے میں بھی کردار نبھایا ۔ خفیہ سرگرمیوں میں جے پرکاش نارائن اور رام منوہر لوہیا جیسے لیڈروں نے خفیہ کارروائیوں کی سربراہی کی، تخریب کاری کی کارروائیوں کو مربوط کیا اور معلومات کو پھیلایا۔ زیرزمین تحریک نے مزاحمت کے شعلے کو زندہ رکھنے میں اہم کردار ادا کیا، یہاں تک کہ انگریزوں نے اپنا کریک ڈاو¿ن تیز کیا اور زیر زمین کارروائیوں میں ملوث افراد کے خلاف سخت کارروائی شروع کی اور ان کو گرفتار کرنے ان کو ڈھونڈنے کا سلسلہ تیز کیا ۔ ریڈیو نشریات، جیسے کہ کانگریس ریڈیو جو اوشا مہتا کے ذریعے چلایا جاتا ہے، مواصلات کے لیے اہم اوزار بن گئے۔ ان نشریات نے عوام کو باخبر، حوصلہ افزائی اور منسلک رکھا، اس بات کو یقینی بناتے ہوئے کہ بھاری سینسر شپ اور جبر کے باوجود تحریک کی رفتار برقرار رہے۔ اگرچہ ہندوستان چھوڑو تحریک نے فوری طور پر آزادی حاصل نہیں کی لیکن اس نے ہندوستانی جدوجہد آزادی میں ایک اہم موڑ کا نشان لگایا۔ وسیع پیمانے پر بدامنی اور تحریک کو مکمل طور پر دبانے میں برطانوی ناکامی نے ہندوستانی عوام کی بڑھتی ہوئی طاقت اور عزم کو ظاہر کیا۔ بھارت چھوڑو آندولن ممبئی میں منعقدہ اجلاس کے بعد تیز ہوتی گئی اور دیکھتے ہی دیکھتے دہلی، کولکتہ اور دیگر شہروں میں اسی طرح احتجاجی مظاہرے شروع ہوئے ۔ اس طرح سے اس تحریک نے بین لاقوامی سطح پر بھارتی شہریوں کے مطالبے کو اُجاگر کیا اس طرح سے اس تحریک سے بھارتی مطالبے کو بین الاقوامی حمایت حاصل ہوتی گئی ۔ انگریزوں کو سامراجی طاقت کے طور پر دیکھا گیا جنہوںنے بھارت کو جبری طور پر اپنے قبضے میں رکھا گیا اور یہاں کے لوگوں کے حقوق پامال کئے جاتے تھے ۔ عالمی جنگ عظیم دو کے بعد جغرافیائی اور سیاسی منظر نامے نے برطانیہ پر اقتصادی مشکلات سے دوچار کیا اور اس طرح سے برطانیہ ہندوستان میں اپنی گرفت رکھنے میں ناکام ہوتا دکھائی دیا اور ہندوستانی تحریک کو روکنے میں وہ ناکام ہوئے اور اس طرح سے دوسری جنگ عظیم بھارت کی آزادی کےلئے ایک راہ ثابت ہوئی ۔ کیوں کہ ہندوستان کی بھارت چھوڑو تحریک مزید مضبوط ہوتی گئی اور دوسری جنگ عظیم کے خاتمے، برطانوی سلطنت کے کمزور ہونے اور دنیا بھر میں نوآبادیات کی بڑھتی ہوئی لہر نے ہندوستان کی آزادی کے لیے ایک سازگار ماحول پیدا کیا۔ برطانیہ نے متعدد لیڈران کو رہائی عمل میں لائی اور 1946میں انگریزی حکمرانوںنے انڈین نیشنل کانفریس کے ساتھ دوبارہ مذاکرات شروع کئے ۔ اس دوران لیڈران نے برطانوی حکمرانوں پر واضح کیا کہ انہیں ہندوستان چھوڑنا ہی ہوگا۔ ایک طرف برطانیہ کے خلاف ملک میںاحتجاجی لہر جاری تھی دوسری طرف جنگ نے برطانیہ کو اقتصادی طور پر کافی کمزور کیا تھا اور ہندوستان میں فوج کو رکھنا اور اس پر زیادہ خرچ کرنا اس کےلئے محال بن گیا تھا اور بالآخر حالات سے مجبور انگریزوں نے 15اگست 1947کو بھارت کو چھوڑ دیا ۔ بھارت چھوڑو تحریک اپنے آپ میں ایک تاریخ ہے اور یہ آنے والی نسلوں کو بھارت کے محبان اور آزادی کے متوالوں کی جدوجہد سے آشنا کرتی رہے گی ۔ تب سے آج تک بھار ت یہ دن ہر سال مناتا ہے تاکہ اس جدوجہد کو یاد رکھا جائے اور ان لیڈران کی خدمات کو خراج تحسین پیش کیا جائے جنہوںنے اس جدوجہد میں حصہ لیا تھا۔
EARTH DAY IN KASHMIR: A GREEN SYMPHONY OF PATRIOTISM, POWER AND PRESERVATION
Earth Day, observed globally on April 22, is more than just a calendar occasion it is a worldwide clarion call...
Read more