کسی بھی قوم یا ملک کی ترقی تب تک ممکن نہیں ہوسکتی ہے جب تک نہ اس ملک میں خواتین کو مردوں کے برابر حقوق مئیسر ہوں ۔ کسی بھی شعبے میں خواتین کو حقوق کو ملحوظ نظر رکھنا لازمی ہے ۔ مرد ہوں یا عورت ہر ایک کواپنے اپنے حقوق ہوتے ہیں اور صنفی مساوات کا مطلب ہے کہ دونوں جنسوں کو برابری کے حقوق ملے ۔ تبھی معاشرہ ترقی کی منزلیں پاسکتا ہے ۔ زندگی کی بھاگ دوڑ میں جتنا مرد اپنا کردار اداکرتا ہے خواتین کے کردار کو فراموش نہیں کیا جاسکتا ہے ۔ صنفی مساوات انسانی زندگی کو بہتر بناتی ہے اور ہر ایک کو اپنے خوابوں کے مطابق آگے بڑھنے کا موقع فراہم کرتاہے جس سے معاشرہ میں خوشحالی اور ترقی یقینی بن جاتی ہے ۔ اگرہم عالمی سطح پر خواتین کو حاصل حقوق کی بات کریں تو آج بھی دنیا میں خواتین کو مردوں یکساں حقوق مئیسر نہیں ہے ۔ دنیا بھر میں افرادی قوت میں مردوں کی حصہ داری 75فیصدی ہے جبکہ خواتین کا تناسب 49فیصدی ہے جو حقوق نسواں کے خلاف بات ہے ۔ عالمی سطح ُپر سیاست یا ملکی امورات میں خواتین آج بھی صرف 28فیصدی قائیدانہ کردار اداکرتی ہیں جبکہ مرد ملکی امورات اور انتظامی عہدوں پر ستر فیصدی ہے ۔ اگر ہم ہندوستان میں خواتین کے رول کی بات کریں تو افرادی قوت میں ملکی سطح پر خواتین کا حصہ صرف 21فیصدی ہیں جو دیگر ممالک کے بنسبت چالیس فیصدی کم ہے ۔ تاہم ایک پر امید بات ہے کہ ملکی سطح پر خواتین کی شرح خواندگی میں اضافہ ہورہا ہے ۔ ملک میں پرائمری سطح تک 90فیصدی لڑکیاں تعلیم مکمل کرلیتی ہیں۔ ہائر سیکنڈری تک لڑکیوں کی تعلیمی شرح بڑھ کر 60فیصدی ہوگئی ہے جبکہ اعلیٰ تعلیم کے زمرے میں ملک کی خواتین کی شرح 40فیصدی ہے ۔ جہاں تک نوکری پیشہ خواتین جو تنخواہ دار ہیں تو مردوں کے مقابلے میں خواتین 20فیصدی کم کمالیتی ہیں۔ ملک کی ترقی کےلئے صنفی مساوات کو بڑھانا لازمی بن چکا ہے اور عدم مساوات کے رجحان کو ختم کرنے کی ضرورت بڑھ چکی ہے ۔ آج بھی ملک میں بہت سے علاقے ہیں جہاں پر ابھی بھی دقیانوسی سوچ کا غلبہ ہے جہاں پر لڑکیوں کو لڑکے کے مقابلے میں کم توجہ دی جاتی ہے اور ان کے ساتھ وہ سلوک نہیں روارکھا جاتا جو لڑکوں سے روا رکھا جارہا ہے ۔ ہندوستانی معاشرے میں آج بھی لڑکوں کے مقابلے میں لڑکوں کو مضبوط بننے کی ترغیب دی جاتی ہے جبکہ لڑکوں کو صنف نازک قراردیتے ہوئے ان کا استحصال کیا جاتا ہے۔ آج بھی ملک کے دور دراز علاقوں میں خاندانی بندشن ، سماجی قدغن کی وجہ سے لڑکیوں کو سکولوں سے دور رکھا جاتا ہے جس کی وجہ سے ان کو آگے بڑھنے کا موقع دستیاب نہیں ہوتا اور وہ گھر کے چولہے سے بار نکلنے میں قاصر رہتی ہیں۔ اس طرح سے ان کو کم عمر میں شادی کے جال میں پھنسایا جاتا ہے اور وہ زندگی بھر اسی چکر میں رہ جاتی ہیں ۔ اتناہی نہیں بلکہ اگر خواتین اور مردوں کو کسی کام پر لگایا جاتا ہے تو خواتین کو مردوں کے مقابلے میں کم اُجرت ملتی ہے جو عدم صنفی مساوات کی عکاسی ہے ۔ یہ معاشی تفاوت عدم مساوات کے چکر کو مضبوط بنائے رکھتا ہے۔ کچھ ممالک میں اب بھی ایسے قوانین موجود ہیں جو خواتین کے حقوق اور آزادیوں کو محدود کرتے ہیں۔اب اگر ہم فیصلہ سازی کی بات کریں تو خواتین کو کسی معاملے میں فیصلہ لینے کا کم ہی اختیار دیا جاتا ہے اور پالیسی اکثر خواتین کو نظر انداز کرتے ہوئے ان کے حقوق سے انہیں محروم رکھا جاتا ہے۔ اس سے خواتین سماجی طور پر دباﺅ کا شکار رہتی ہے اور وہ اپنے حق کی آواز اُٹھانے میں گھبراہٹ محسوس کرتی ہے اس طرح سے سماج میں عدم مساوات کا رجحان بڑھ جاتا ہے ۔
خواتین کو مردوں کے برابر حقوق فراہم کرنے کےلئے کچھ باتوں پر عمل کرنا ضروری ہے جن میں سب سے پہلے بنیادی طور پر لڑکوں اور لڑکیوں کی حصول ایجوکیشن کے تفاوت کو دور کرنے کی ضرورت ہے ۔ لڑکوں اور لڑکیوں کو یکساں طو رپر تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے سے سماج میں مثبت تبدیلی آسکتی ہے۔ جب لڑکیوں کو تعلیم تک رسائی حاصل ہوتی ہے، تو وہ اپنے پیروں پر کھڑے ہونے اور باخبر فیصلے کرنے کے اوزار حاصل کرتی ہیں۔ تعلیم یافتہ لڑکیاں بااختیار خواتین بنتی ہیں جو غربت اور عدم مساوات کے چکر کو توڑ سکتی ہیںوہ اپنی بہتری کےلئے صحیح فیصلہ لے سکتی ہیں اور اپنے مستقبل کو سنوارنے کےلئے وہ اقدامات اُٹھائے گی جو اس کےلئے بہتر ہوں ۔ دوسری اور اہم بات جو ہے وہ یہ کہ خواتین کو اقتصادی طور پر خود پر منحصر رہنا ہوگا۔ مردوں اور خواتین کو ایک ہی کام کےلئے برابری کی اُجرت ملنی چاہئے کیوں کہ وہ ایک جیسا کام اور ایک جیسی محنت کرتی ہیں اس لئے انہیں تنخواہ برابری لینے کا حق بھی ہے۔ اس کےلئے کمپنیوں اور اداروں کو جوابدہ بنانے کی ضرورت ہے ۔ تیسری بات اداروں میں خواتین کو آگے بڑھنے کے مواقعے فراہم کریں کیوں کہ جس شعبے میں خواتین کی سربراہی ہوگی وہ برابر کے حقوق پر مبنی اصولوں پر کار بند رہتی ہیں اسلئے ضروری ہے کہ انہیں وہ مواقعے فراہم ہوں۔ چوتھی بات خواتین کو اپنے حقوق کے بارے میں زیادہ ے زیادہ باخبر رہنا ہوگا ۔ حکومت کو بھی یہ بات یقینی بنانی ہوگی کہ قانونی طور پر خواتین کو جو حقوق حاصل ہیں ان پر عمل ہورہا ہے یا نہیں ، خواتین کو وہ حقوق حاصل ہیںیا نہیں ۔ خواتین کے حقوق کے بارے میں زیادہ سے زیادہ جانکاری عام کرنے کی ضرورت ہے اس کےلئے ورکشاپس ، سمینار اور دیگر طریقوں سے میڈیا کے ذریعے صنفی مساوات کے بارے میں آگاہی پروگرام چلانے کی ضرورت ہے ۔
اب تک ہم نے عالمی سطح پر اور ملکی سطح پر خواتین کے رول کی بات کی اور ان کے حقوق کے بارے میں ان باتوں پر روشنی ڈالی جو ضروری ہے ۔ تاہم اگر ہم کشمیر میں خواتین کے حقوق کی بات کریں تو وادی کشمیر میں گزشتہ کئی سالوں سے حقوق النسواں کے حوالے سے کافی بیداری پیدا ہوئی ہے ۔ کشمیر کی ترقی میں خواتین اہم کردار اداکرتی ہیں اور تمام مشکلات اور رُکاوٹوں کو توڑ کر خواتین ہر شعبے میں آگے بڑھ رہی ہیں۔ تعلیمی ، شعبے کے ساتھ ساتھ دیگر شعبہ جات خاص کر سیاسی طو رپر بھی خواتین اپنی موجودگی ظاہر کرتی ہے۔ وادی کشمیرمیں خواتین کی شرح فیصدی میں بھی اضافہ ہورہا ہے اور تعلیم یافتہ خواتین تبدیلی کا مظہر بن رہی ہیں وہ مختلف شعبوں میں قائیدانہ کردار اداکرتی ہیں ۔ ان خواتین میں ہم یہاں پر ایک نڈر خاتون کا تذکرہ ضرور کریں گے وہ ”پروینہ اختر“ ہے جنہوںنے لاپتہ افراد بچوں کے والدین کی تنظیم کی بنیاد رکھی ۔ پروینہ اختر اگرچہ پیشے سے وکیل ہیں تاہم وہ دیگر خواتین کےلئے امید کی ایک کرن ہے اور دیگر خواتین کےلئے وہ ایک راہ ہے ۔ ان کو دیکھتے ہوئے دیگر خواتین تحریک پاتی ہیں اور اپنے بل بوتے پر اپنا نام کمانے کےلئے سرگرم عمل ہے ۔ کشمیری خواتین ہر شعبے میں آگے بڑھ رہی ہے چاہئے وہ ہیلتھ سیکٹر ہو، ایجوکیشن ہو یا ٹریڈ ہو خواتین آگے بڑھتی ہے وہ کاروباری سرگرمیاں جاری رکھتے ہوئے نہ صرف اپنے کنبوں کی کفالت کرتی ہیں بلکہ معاشرے کےلئے ایک سبق بھی بن رہی ہیں۔
کشمیری خواتین کاروباری افراد کے طور پر آگے بڑھ رہی ہیں، ایسے کاروبار بنا رہی ہیں جو نہ صرف ان کے خاندانوں کی کفالت کریں بلکہ مقامی معیشت کو بھی فروغ دیں۔دستکاری کے شعبے میں بھی کشمیری خواتین ایک الگ کہانیاں تحریر کررہی ہیں ۔ خواتین سٹارٹ اپس شروع کرتے ہوئے اپنے لئے اور دیگر خواتین کےلئے اقتصادی راہیں تلاش کرتی ہیں ۔ہیلتھ سیکٹر میں کشمیری خواتین کا رول بھی انتہائی اہم رہا ہے ، ڈاکٹر نرس، لیب ٹکشن ، کمپوٹر آپریٹنگ ، ڈیٹا انٹری میں وہ اول ے ۔ کووڈ 19کی وبائی بیماری میں وہ صف اول پر رہی ہیں اور ہسپتالوں اور دیگر طبی اداروں میں انہوںنے قابل سراہنا کام کیا ہے ۔ کشمیری خواتین مختلف فنون میں بھی آگے ہے ، موسیقی ، دستکاری وغیرہ میں بھی کشمیری خواتین کا کوئی ثانی نہیں ہے ۔ یہاں کی خواتین اب سیاسی سرگرمیوں میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہی ہیں ۔ مجموعی طور پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ کشمیر میں خواتین کو کافی حد تک سماجی ، اقتصادی آزادی مئیسر ہے اور صنفی مساوات کی عکاسی کے طور پر وہ تعلیم، صحت، کاروبار ، کھیل کود کے میدانوں میں مردوں کے برابر اپنی کارکردگی کااظہار کررہی ہیں۔
EARTH DAY IN KASHMIR: A GREEN SYMPHONY OF PATRIOTISM, POWER AND PRESERVATION
Earth Day, observed globally on April 22, is more than just a calendar occasion it is a worldwide clarion call...
Read more