وادی کشمیر صوفی سنتوں اور پیروں فقیروں کی آماجگاہ صدیوں سے رہی ہے ۔ دلکش قدرتی مناظر ، بلند و بالا پہاڑ، برفیلی چوٹیاں جو اس خطے کو خوبصورت بناتی ہیں وہیں وادی صوفیت کے ثقافت سے بھی لبریز ہے ۔ یہاں پر سینکڑوں آستان، درگاہیںموجود ہیں جو ان صوفی بزرگوں کی آرام گاہیں ہیں اور لوگوں کا ان آستانوں اور عبادتگاہوں سے کافی عقیدت ہے ۔ یہ آستان اور درگاہیں کسی مخصوص مذہب کے ماننے والوں کو اپنی طرف متوجہ نہیں کرتے بلکہ یہ مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے عقیدت مندوں کےلئے بھی قابل احترام ہے جو ان آستانوں پر حاضری دیکر اپنی مرادیں خدا کے سامنے رکھتے ہیں ۔ ان صوفی سنتوں کے آرام گاہوں سے صوفیت کی قدیم روایت کے مناظر سامنے آتے ہیں ۔ جہاں تک وادی کشمیر میں تصوف کی شروعات کی بات ہے تو وادی کشمیر میں 14ویں صدی عیسوی میں اسلام کی آمد کے ساتھ ہی تصوف کی روایت بھی جاری رہی ۔وادی میں صوفیت کی شروعات حضرت میر سید علی ہمدانیؒ کی آمد کے ساتھ ہی ہوا ، میر سید علی ہمدانیؒ جنہیں ”شاہ ہمدان “ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے نے اپنے ساتھ سینکڑوں سادات کو بھی لایا جنہوںنے وادی میں تصوف کے پھیلاﺅ میں اہم رول اداکیا ۔حضرت امیر کبیر میر سید علی ہمدانی ؒ اور ان کے سادات نے وادی کشمیر کے کونے کونے میں اسلام کی تعلیمات کو پہنچایا جس میں اتحاد، محبت ، ہمدردی اور ایثار کا درس تھا جس سے لوگ بہت جلدی قائل ہوجاتے تھے اور وہ دائرے اسلام میں داخل ہوجاتے تھے ۔ اہلیان کشمیر شروع سے ہی نرم طبیعت ، امن دوست اور خداپرستی پر یقین رکھتے تھے جس کے نتیجے میں اسلامی صوفیت کو انہوںنے جلد قبول کیا ۔
شاہ ہمدانی سے منسوب خانقاہ معلی سرینگر میں واقع ہے جو یہاں کے بڑے صوفی مراکز میں سب سے بڑا ہے ۔ یہ آستان دریائے جہلم کے کنارے پر واقع ہے جس کی تعمیر میں لکڑی استعمال ہوئی ہے اور اس میں فن تعمیر کی جھلک دکھائی دے رہی ہے ۔ خانقاہ معلی میں ہر سال میر سید علی ہمدانی ؒ کا عرس مبارک منایا جاتا ہے جہاں پرہزاروں کی تعداد میں عقیدت مند حاضری دیتے ہیں اور یہ عرس کئی دنوں تک چلتا ہے جس دوران آستان شریف میں درودوازکار، نعت خوانی، قرآن کی تلاوت اور ختمات المعظمات کی محفلیں آراستہ ہوتی ہیں ۔
اسی طرح درگاہ حضرتبل کا آستان عالیہ نہ صرف مقامی عقیدت مندوں بلکہ جموں کشمیر کے ساتھ ساتھ ملک کے مختلف علاقوں سے بھی لوگ یہاں پر آکر حاضری دیتے ہیں ۔ جھیل ڈل کے کنارے واقعے درگاہ حضرتبل کا آستان کروڑوں لوگوں کی عقیدت کا مسکن ہے جہاں پر حضرت محمد عربی کا موئے پاک رکھا گیا ہے اور ہر سال مختلف مواقعوں پر خاص طور پر میلاد لنبی کے متبرک دن پر یہاں پر سب سے بڑا عرس مبارک لگتا ہے جس دوران ذائرین کو موئے پاک کے دیدار سے فیضاب ہوتے ہیں ۔
اسی طرح قلعہ ہاری پربت پر واقع مخدوم صاحب کا آستان موجود ہے جہاں پر شیخ حمزہ مخدوم ؒ اور حضرت داﺅد خاکی ؒ کی قبرمبارک ہے ۔ اس آستان سے لوگوں کی روحانی وابستگی ہے اور یہاں پر لوگ آکر اپنی حاجت روائی کےلئے اللہ تعلیٰ کے حضور گڑ گڑا کر دعائیں مانگتے ہیں ۔یہاں پر بھی سالانہ عرس لگتا ہے اور ہر سال 13دنوں تک یہاں پر تقاریب ہوتی ہے اور آخری دن آستان شریف میں درودوازکار، نعت خوانی، قرآن کی تلاوت اور ختمات المعظمات کی محفلیں آراستہ ہوتی ہیںاور خصوصی دعاﺅں کے ساتھ عرس اختتام پذیر ہوتا ہے ۔ حضرت شیخ حمزہ مخدومی ؒ کے آستان پر بھی مختلف مذاہب کے لوگ آتے ہیں جو یہاں پر حاضری دیکر اپنی مرادیں اس دربار میں رکھتے ہیں اور ایک امید کے ساتھ واپس جاتے ہیں کہ اب خداوند کریم ان کی مرادیں بھر لائے گا اور ان کی حاجت روائی ہوگی ۔
ان صوفیت کے مراکز میں ایک اہم درگاہ چرار شریف میں موجود ہیں جو صوفی بزرگ شیخ نورالدین نورانی ؒ سے منسوب ہے جہاں ان کی قبر مبارک بھی ہے ۔ اس آستان پر بھی ہر سال عرس لگتا ہے اور لوگ وادی کشمیر کے اطراف و اکناف سے آکر یہاں پر حاضری دیتے ہیں۔ چرار شریف کا آستان مبارک ضلع بڈگام میں واقع ہے جو مذہبی بھائی چارے ، ہم آہنگی اور مساوات کا مسکن ہے ۔ حضر ت شیخ نورالدین نورانیؒ ایک بلند پائیہ صوفی بزرگ گزرے ہیں جنہوںنے قرآن شریف کو اپنے کشمیری اشعار میں بیان کیا ہے اور اس کی تہہ تک جاکر ایک ایک شعر کہا ہے ۔ ان کے اشعار کی مختلف زبانوں میں ترجمہ بھی کیا گیا ہے جن میں اردو ، فارسی ، انگریزی اور عربی میں بھی ان کے کہے شعروں کا ترجمہ کیا جاچکا ہے ۔ شیخ نورالدین نورانی ؒ کو دیگر ناموں سے بھی جانا جاتا ہے جن میں کشمیری انہیں پیار سے ”نوند رش“ بھی کہتے ہیں۔
کشمیر صوفی ، سنتوں ، ریشی منیوں کی سرزمین رہی ہے جہاں پر انہوںنے بھائی چارے ، انسانی فلاح اور انسانی ہمدردی کو فروغ دیا ہے اور امن و سلامتی کی تعلیمات کو عام کیا ہے ۔ ان صوفی سنتوں کی تعلیمات نے کشمیر کی جامع ثقافت کی تشکیل، رواداری اور شمولیت کی اقدار کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ان آستانوں میں لگنے والے سالانہ عرس ، جن میں ہزاروں کی تعداد میں لوگ شرکت کرتے ہیںجس سے ملی اتحاد، اخوت ، پیار و محبت اور امن و بھائی چارے کو فروغ ملتا ہے ۔وادی کشمیر میں ان صوفی مزارات اور آستانوں کی ایک پہچان یہاں کی فن تعمیر کو بھی اُجاگر کرتی ہے ۔ ان آستانوں کو روایتی لکڑی سے تعمیر کیا گیا ہے جن پر نقش و نگاری کی گئی ہے جو یہاں پر حاضری دینے والوں کو محضوظ کرتی ہے ۔ ان آستانوں میں فن خطاطی، پیپر ماشی ووڈ کیرونگ کی قدیم روایت بھی زندہ ہے جو کشمیر کو ایک ثقافتی طور پر پیش کرتا ہے ۔ ان آستانوں کی تعمیر کو عمدہ فن تعمیر کا مظہر بھی مانا جاتا ہے ۔ اگرچہ وادی کشمیر میں ان صوفی مراکز کے ساتھ کروڑوں لوگوں کا عقیدت جڑ ا ہوا ہے تاہم ان کو بھی کئی چلینجوں کا سامنا ہے جن میں ماحولیاتی آلودگی، سیاسی خلفشاری حالات و واقعات جیسے چلینج درپیش ہیں خاص طور پر ان کی طرف خصوصی توجہ نہیں دی جارہی ہے جس کے یہ حقدار ہیں۔ ان اہم مذہبی جگہوں کے تحفظ ، بحالی اور ماحولیاتی آلودگی سے بچانے کےلئے سرکاری اور غیر سرکاری طور پر اقدامات اُٹھانے کی ضرورت ہے تاکہ یہ ہمیشہ کےلئے قائم و دائم رہ سکیں ۔
EARTH DAY IN KASHMIR: A GREEN SYMPHONY OF PATRIOTISM, POWER AND PRESERVATION
Earth Day, observed globally on April 22, is more than just a calendar occasion it is a worldwide clarion call...
Read more