منقسم جموں وکشمیر قدرت کی خوبصورتی کا ایک شاہکار ہے منقسم ریاست کے دونوں خطے کافی خوبصورت ہیں اور تہذیب ، تمدن ، کلچر یکساں ہے اور دونوں خطے کے لوگوں کی دلی خواہش ہے کہ یہ خطہ پھر سے ایک ہوجائے ۔ قریب ستر برسوں سے پاکستانی زیر قبضہ کشمیر ہمارے جموں کشمیر سے جدا ہے اور لوگ اب چاہتے ہیں کہ وہ بھارت کے ساتھ ایک بار پھر جڑ جائیں ۔ ان کی یہ دیرینہ خواہش پاکستان دبائے رکھے ہوئے ہیں جب سے پاکستانی قبائلیوں نے اس حصے پر قبضہ کیا تب سے وہ نہ چاہتے ہوئے بھی پاکستان کا حصہ بنے ہوئے ہیں۔ پی او جے کے یعنی پاکستانی زیر قبضہ کشمیر بھارت کی آزادی تک ایک آزاد اور بڑی ریاست کے طور پر برصغیر میں موجود تھی ۔ برطانیہ نے جب ہندوستان کو آزاد کیا تو اس کو دو حصوں میں بانٹ دیا ایک ہندوستان تو دوسرا پاکستان ، اُس وقت سے یہ خطہ متنازعہ بنا ہوا ہے اور ہندوستان اور پاکستان دونوں ممالک اس کو اپنا حصہ مانتے ہیں ۔ بھارت کی آزادی کے بعد قبائلیوں نے جموں کشمیر پر حملہ کیا اور اُس وقت کے جموں کشمیر کے مہاراجہ ، مہارجہ ہری سنگھ نے بھارت سے فوجی مدد طلب کی اور جموں کشمیر کے ایک بڑے حصے کو پاکستانی قبائلیوں سے آزاد کرایا گیا اور مہاراجہ نے ہندوستان کے ساتھ الحاق کیا اور اس الحاق میں جموں کشمیر کا پورا خطہ بھارت کے ساتھ رہنے کا پابند ہے تاہم جموں کشمیر کے ایک بڑے حصے پر بھارت کا کنٹرول ہونے کے باوجود بھی پاکستان کشمیر کے ایک حصے پر آج بھی قابض ہے ۔ یہ خطہ تقسیم دونوں ممالک کے درمیان تنازعہ کا باعث بنی ہوئی ہے پاکستان اس علاقے پر آزاد جموں و کشمیر اور گلگت بلتستان کے طور پر دعویٰ کرتا ہے۔ ایک ہی وقت میں ہندوستان پوری سابقہ شاہی ریاست پر اپنی خودمختاری کا دعویٰ کرتا ہے۔ سات دہائیوں سے زیادہ عرصے سے، جموں اور کشمیر کا دلکش منظر 1947 میں برطانوی ہند کی تقسیم کے بعد پیدا ہونے والے سیاسی تنازعات اور علاقائی تنازعات کی وجہ سے متاثر ہوا ہے۔ جیسے ہی برصغیر پاک و ہند کو تقسیم کیا گیا جموں و کشمیر کی ریاست دو حصوں میں بٹ گئی۔ہندوستان اور پاکستان نے سرحدیں کھینج لیں اور دونوں خطوں کا کنٹرول دو الگ الگ ممالک کے ہاتھ لگا ۔ اگرچہ اخلاقی اور قانونی طور پر بھارت کے ساتھ الحاق کے بعد پوراخطہ ہندوستان کا حصہ ہے تاہم پاکستان کی ہٹ دھرمی اور مکارانہ سازش نے نہ صرف ایک بڑی ریاست کو دو حصوں میں بانٹ دیا بلکہ خاندانوں کے خاندان ایک دوسرے سے جدا ہوئے ہیں ۔ پاکستان کے زیر قبضہ جموں کشمیر میں لوگوں کو ہر طرح کی سہولیت سے محروم رکھا گیا اور لوگوں نے سیاسی عدم استحکام، معاشی جمود اور سماجی انتشار کی میراث کو برداشت کرتے ہوئے اس تقسیم کے نتائج کو جھیل لیا ہے۔پاکستانی قیادت پی او جے کے میں اپنے من مانی فیصلے تھونپتی ہے ۔ اس خطے کے لوگوں کو ہر طرح سے پسماندہ رکھنے کی سازشیں کی جارہی ہیں ۔ انہیں اقتصادی، سیاسی اور سماجی طور پر غلام بنایا گیا ہے ۔ ان کی آواز کو بزور طاقت دبایا جاتا ہے جو بھی اس ظلم و بربریت کے خلاف بات کرتا ہے اس کو راتوں رات گرفتار کرکے سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا جاتا ہے ۔ لوگوں پر جھوٹے مقدمات عائد کرکے ان کی آواز خاموش کردی جاتی ہے۔ تاہم پاکستانی قبضہ والے جموں کشمیر کے لوگ تنازعات سے تنگ اور ٹوٹے ہوئے وعدوں سے مایوس، بھارت کے ساتھ دوبارہ اتحاد کی اپنی پرامن خواہش میں تیزی سے آواز اٹھا رہے ہیں۔اس آواز کو فوج اور پولیس کے ذریعے دبانے کی بھر پور کوشش کی جارہی ہے۔ لوگ سوشل میڈیا کے ذریعے اپنی آزادی دنیا تک پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں سول سوسائٹیز کی جانب سے زمینی سطح پر تحریک چلائی جاتی ہے اور اس کا حل تلاش کرنے کی کوشش میں لگے ہیں لیکن ان کے اقدامات کو ملک دشمنی کے تعبیر کیاجاتا ہے ۔ حال ہی میں پاکستانی زیر قبضہ کشمیر کے دارلحکومت مظفر آباد میں لوگوں کی بڑی تعداد سڑکوں پرنکل آئی اور بھارت کے ساتھ الحاق کا برملا اظہار کیا ۔ یہ پہلا بار ہوا کہ لوگوں کی اس قدر بڑی تعداد نے سڑکوں پر نکل کر حکومت پاکستان کی ناانصافی کے خلاف آواز بلند کی ہو ۔اس کی ایک بہت بڑی وجہ یہ ہے کہ اس خطے کے لوگوں کو پاکستانی حکومت نے ہر طرح سے نظر انداز کیا ہوا ہے ۔ ان کو سیاسی اور اقتصادی آزادی مئیسر نہیں ہے ان سے جو وعدے کئے گئے تھے ان کو پورا نہیں کیا گیا ۔اس خطے میں بنیادی ڈھانچے کی طرف کوئی توجہ نہیں دی گئی جس کی وجہ سے یہ خطہ آج بھی غیر ترقیافتہ ہے ۔ اس کے برعکس جموں کشمیر جو بھارت کے ساتھ ہے یہاں کا منظر نامہ مختلف ہے ۔ تعمیر و ترقی کا جو منظر نامہ وہ دیکھ رہے ہیں اس سے ان پر یہ بات عیاں ہوجاتی ہے کہ پاکستان اس خطے کے ساتھ استحصال کررہا ہے ۔ وہ اپنی برادریوں کو ترقی دینے اور اپنے بچوں کے بہتر مستقبل کو محفوظ بنانے کے لیے اسی طرح کے مواقع کی خواہش رکھتے ہیں۔ عالمی برادری نے بڑی حد تک جموں و کشمیر پر ہندوستان اور پاکستان کے درمیان تنازعہ میں عدم مداخلت کا مو¿قف برقرار رکھا ہے۔عالمی برادری کا ماننا ہے کہ یہ تنازعہ ہندوستان اور پاکستان کے مابین اندرونی معاملہ ہے جس کو وہ خود ہی افہام و تفہیم کے ساتھ حل کرسکتے ہیں۔ تاہم پاکستانی زیر قبضہ کشمیر کی جو بھارت کے ساتھ ضم کرنے کی بات ہے یہ ایک اہم مسئلہ ہے جس کی طرف بڑی طاقتیں توجہ ضرور دیں گی ۔اگرچہ کچھ ممالک بھارت کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کے لیے حمایت کا اظہار کر سکتے ہیں، دوسرے خاص طور پر وہ لوگ جو پاکستان کے ساتھ قریبی تعلقات رکھتے ہیں یا انسانی حقوق کے بارے میں خدشات رکھتے ہیں اعتراض اٹھا سکتے ہیں یا صورت حال سے نمٹنے کے لیے سفارتی مداخلت کا مطالبہ کر سکتے ہیں۔ جبکہ اقوام متحدہ جس نے کشمیری عوام کے حقوق کے احترام اور بات چیت کی بنیاد پر تنازعہ کشمیر کے پرامن حل پر زور دیا ہے ممکنہ طور پر بھارت اور پاکستان کے درمیان مذاکرات میں سہولت کاری کا کردار ادا کرے گا۔اقوام متحدہ نے ہر بار اس بات پر زور دیا ہے کہ خطے میں قیام امن کےلئے ہندوپاک تعلقات کا بہتر رہنا ضروری ہے ۔ جہاں تک پی او جے کے کی بھارت میں ضم ہونے کی بات ہے تو یہ ایک پیچیدہ معاملہ ہے کیوں کہ یہ خطے میں سیاسی منظر نامہ تبدیل کرسکتا ہے جس کے دور رس نتائج سامنے آسکتے ہیں۔ اس معاملے کو لیکر ہندوستان اور پاکستان کے مابین اختلافات مزید بگڑ سکتے ہیں اور کشیدگی بڑھ سکتی ہے ۔ اس لئے ضروری ہے کہ جموں کشمیر کے منقسم خطوں میں رہنے والے لوگوں کی خواہشات اور امنگ کو ترجیح دی جانی چاہئے اس کے علاوہ انسانی حقوق کے احترام کے ساتھ ساتھ باہی اہم کے اصولوں پر مبنی پائیدار حل نکالنا چاہئے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ بین لاقوامی برادری اس معاملے کو سنجیدگی سے لیکر پی او جے کے پر نظر رکھیں اور اس خطے کے عوام کی آواز پر کان دھریں ۔
EARTH DAY IN KASHMIR: A GREEN SYMPHONY OF PATRIOTISM, POWER AND PRESERVATION
Earth Day, observed globally on April 22, is more than just a calendar occasion it is a worldwide clarion call...
Read more