پاکستان میں سیاسی غیر یقینی صورتحال کے نتیجے میں کئی خطوں میں انسانی حقوق کی پامالیاں رونماءہورہی ہیں اور حالیہ رپورٹس کے مطابق پاکستان کے زیر قبضہ کشمیر میں مقامی لوگوں کی طرف پاکستانی حکمرانی کی عدم توجہی اور انہیں حقوق سے محروم رہنے کی وجہ سے وہاں پر لوگ سڑکوں پر نکلنے کےلئے مجبور ہوئے تھے ۔ اس خطے میں سیاسی خلفشاری ، معاشی بدحالی اور انسانی حقوق کی پامالیاں جاری ہے جس نے خطے کے عوام میں ایک ناراضگی پیداکی ہے ۔ اس کی سب سے بڑی وجہ ہے کہ گزشتہ چند سالوں سے پاکستان میں پائی جارہی سیاسی پیچیدہ صورتحال نے اس خطے کی طرف سرکار کی توجہ نہیں دی جارہی ہے ۔ پاکستانی زیر قبضہ کشمیر میں جو حالات سے متعلقہ حالیہ دنوں رپوٹس منظر عام پر آئی ہے ان سے صاف ظاہر ہے کہ خطے میں لوگوں کو بنیادی سہولیات سے محروم رکھا گیا ہے خاص کر سرکاری اداروں کی جانب سے اس خطے کی طرف کوئی توجہ نہیں دی جارہی ہے ۔ اس لاتعلقی نے ایک ایسے ماحول کو پروان چڑھایا ہے جہاں شہری آزادیوں کو کم اہمیت دی جاتی ہے اور منظم طریقے سے مجروح کیا جاتا ہے۔مقامی نظم میں شفافیت اور جوابدہی کا فقدان پایا جاتا ہے سرکار من مانی طریقے سے ایسے فیصلے لے رہی ہیں جو مقامی آبادی کےلئے ناقابل قبول ہے لیکن ان فیصلوں کو زبردستی لوگوںکو ٹھوسا جارہا ہے۔ پاکستان میں جمہوریت کے زوال کی کئی وجوہات ہیں جن میں سیاسی عدم استحکام، فوجی مداخلت اور اختلاف رائے کو دبانا شامل ہیں۔ پاکستانی فوج کی اس ملک کی سیاست میں براہ راست انٹری ہے اور سیاست پر کنٹرول فوجی اداروں کا ہے ۔ جب سے پاکستان کا وجود عمل میں آیا ہے تب سے پاکستان میں فوج نے کئی بار بغاوت کرکے حکومت کا تختہ اُلٹ دیا ہے ،جس نے ملک کی جمہوری بنیادوں کو بری طرح مجروح کیا۔ کبھی کبھار سویلین حکومت میں تبدیلیوں کے باوجود فوج سیاسی معاملات پر نمایاں اثر و رسوخ حاصل کرتی رہتی ہے جس کے نتیجے میں مستقل عدم استحکام اور غیر یقینی صورتحال پیدا ہوتی ہے۔ پاکستانی فوجی ادارے ہر معاملے میں اپنی ٹانگ اڑاتے ہیں اور سیاسی قیادت کے علاوہ عدلیہ کے احکامات بھی نظر انداز کئے جارہے ہیں ۔ اگرچہ پورے پاکستان میں یہی صورتحال بنی ہوئی ہے تاہم اگر ہم خالص پاکستانی زیر قبضہ کشمیر کی بات کریں تو اس خطے میں صورتحال اور بھی سنگین بنی ہوئی ہے ۔ جہاں لوگوں کو طویل عرصے سے ان کے بنیادی حقوق سے محروم رکھا گیا ہے اور پاکستانی حکام کی جانب سے ان پر ظلم کیا جا رہا ہے۔ خود مختاری کے وعدے کے باوجود یہ خطہ اسلام آباد کے سخت کنٹرول میں رہا ہے خاص طور پر فوجی اداروں نے اس خطے کو اپنے پنجہ استبداد کے تلے دباکے رکھا ہے اس خطے کے عوام کی خواہشات اور ان کی ضرورت کو نظر انداز کیا جارہا ہے اور لوگوں کے جمہوری حقوق کو منظم طریقے سے سلب کیا گیا ہے جس سے انہیں پسماندہ اور حق رائے دہی سے محروم کردیا گیا ہے۔پاکستانی زیر قبضہ کشمیر میں لوگوں کو نہ صرف سیاسی حقوق سے محروم رکھا گیا ہے بلکہ اقتصادی لحاظ سے بھی اس کو پس پشت رکھا گیا ہے خاص طور پر اسلام آباد کے حکمران اس خطے کے قدرتی وسائل کو ملک کے دیگر شہروں کےلئے استعمال کرتے ہیں جبکہ پی او کے عوام کو ان وسائل کا کوئی فائدہ نہیں پہنچایا جارہا ہے اگر یہ لوگ بات بھی کرتے ہیں تو ان کو بزور طاقت دبایا جاتاہے ۔
جہاں تک سیاسی طور پرخطے کے لوگوں کو محروم رکھنے کا سوال ہے تو پی او کے میں واضح طور پر لوگ سیاسی آزدی سے محروم ہے اور جب بھی وہاں انتخابات ہوتے ہیں تو اکثر اس میں دھاندلی ہوتی ہے اور اسلام آباد کے وفادار سیاست داروں کو کامیاب قرار دیا جاتا ہے اس طرح سے اصل عوامی نائندوں کو جان بوجھ کر ایوان سے دور رکھا جاتاہے ۔ اس جمہوری حق میں ان کی نمائندگی نہ ہونے کے برابر ہے اور حزب اختلاف کے لیڈران کی آواز کو دبانے کےلئے مختلف حربے اپنائے جارہے ہیں ۔ اختلاف رائے کی حقیقی آوازوں کو ڈرا دھمکا کر اور جبر کے ذریعے خاموش کر دیا جاتا ہے اور مختلف بہانوں سے ان کی حراست کو جواز بخشا جاتا ہے ۔ ان لوگوں سے سیاسی آزادی چھین لی گئی ہے اور سرکار مختلف پروجیکٹوں کے بہانے ان کی زمینوں پر قبضہ کیا جاتا ہے ۔ لوگوں کو تعمیر و ترقی کے نام پر زمینوں سے محروم رکھاجاتا ہے اور باہر کی کمپنیوں کو اراضی فراہم کی جاتی ہے نہ مقامی لوگوں کو ان کمپنیوں کی جانب سے روزگار فراہم کیا جاتا ہے اور ناہی اراضی کی قیمت کسی کھاتے میں جاتی ہے ۔ پاکستانی زیر قبضہ کشمیر کے لوگوں کو معاشی بحالی اور پسماندگی کی طرف دھکیلا جارہا ہے ۔ پاکستانی حکام کی جانب سے نظر انداز کیے جانے اور استحصال کی وجہ سے ان میں اضافہ ہوا ہے۔ بنیادی ڈھانچہ، صحت کی دیکھ بھال، اور تعلیمی سہولیات بری طرح سے ناکافی ہیں جس سے آبادی کمزور اور ضروری خدمات سے محروم ہے۔کشمیر میں نہ صرف سیاسی جارحیت بڑھ رہی ہے بلکہ معاشی اور تعلیمی جارحیت بھی بڑھ رہی ہے ۔ جبری طور پر ایسے فیصلے لئے جاتے ہیں جن سے مقامی معیشت کو نقصان پہنچ رہا ہے ۔ تعلیمی شعبے میں جو نصاب شامل کیا جاتا ہے اس میں مقبوضہ کشمیر کی تاریخ اور اصل حقائق کو نظر انداز کیا گیا ہے اور تہذیبی جارحیت پر مبنی نصاب رائج کیا گیا ہے ۔ اس کے علاوہ پاکستانی مقبوضہ کشمیر میں لوگوں کی بگڑتی ہوئی حالت انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور پاکستانی سیکورٹی فورسز کی طرف سے کی جانے والی خلاف ورزیوں کی وجہ سے بھی بڑھ گئی ہے۔جبری گرفتاریاں ، حراستی گمشدگیاں ، جعلی تصادم آرائی میں معصوم اور بے گناہوں کا قتل عام معمول کی بات ہے ۔ کوئی بھی اس ظلم و جبر کے خلاف آواز اُٹھاتا ہے یا صرف بات کرتا ہے تو دوران شب اس کو مسلح فورسز اُٹھاکر تعذیب خانے پہنچاکر اس کی بوٹی بوٹی نوچ لی جاتی ہے ۔
خطے میں نہ صرف تعمیر و ترقی کا فقدان پایاجاتا ہے بلکہ ترقی کے مواقع بیوروکریٹک ریڈ ٹیپ اور بدعنوانی کی وجہ سے معمول کے مطابق گھٹ رہے ہیں۔ اس خطے کی قدرتی خوبصورتی اور وسائل، اس کے باشندوں کے لیے خوشحالی کا ذریعہ بننے کے بجائے، ان کے مصائب کی لعنت بن چکے ہیں، ان کا استحصال ماحولیاتی استحکام یا مقامی فلاح و بہبود کے حوالے سے بہت کم ہے۔قدرتی وسائل کی لوٹ کھسوٹ جاری ہے اور مقامی آبادی پر جبری ٹیکس لگاکر ان کو مالی طور پر کمزور بنایا جارہا ہے ۔ مہنگائی عروج پر ہے اور اشیائے خوردنی کی قیمتوں میں لگاتار اضافہ ہوتا جارہا ہے جس نے عام لوگوں کی معمولات زندگی بُری طرح سے متاثر کی ہے ۔ پاک زیر قبضہ کشمیر کے حالات و واقعات کے بارے میں اگرچہ متعدد رپوٹس منظر عام پر آچکی ہے تاہم اس کے باوجود بھی عالمی منظر نامے سے یہ غائب ہے اور عالمی ادارے خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ عالمی ادارے اس خطے کی آواز کو سن لیں اور ان کے مسائل کی طرت توجہ دی جائے تاکہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر روک لگائی جسکے اور ان کو وہ حقوق فراہم کئے جائیں جن کا ان سے وعدہ کیا گیا ہے ۔ ان کے وسائل کی کھسوٹ بند ہونی چاہئے اور وسائل کا فائدہ خطے کے عوام کو ملنے چاہئے ۔
EARTH DAY IN KASHMIR: A GREEN SYMPHONY OF PATRIOTISM, POWER AND PRESERVATION
Earth Day, observed globally on April 22, is more than just a calendar occasion it is a worldwide clarion call...
Read more