مختلف کمپنیوں کی جانب سے آن لائز اشتہارات دیئے جاتے ہیں جن میں اسامیوں کی بھرتی کےلئے اشتہارات ہوتے ہیں ۔ حال ہی میں وادی کشمیرمیں نوکری کی تلاش کےلئے میں نے سوشل میڈیا کے مختلف اشتہاری پورٹلز پر نوکری کو تلاش کرنے کی کوشش کی جو پورٹلز اسامیوںکی بھرتی کے لئے اپنے پورٹلوں پر اشتہارات دیتے ہیں ۔ ان پورٹلوں پر اکثر کمپنیوں کی جانب سے کشمیری خواتین کےلئے بہت سی اسامیوں کےلئے نوکری کی پیشکش کی گئی تھی اشتہارات میں کمپنیوں کے اعلیٰ عہدے اور انتظامی عہدوں کےلئے کشمیری خواتین نشستیں رکھی گئی ہیں ۔ پہلے تو میں اس بات سے کافی مایوس تھا کیوں کہ میں سوچ رہا تھا کہ اس طرح سے پڑھے لکھے مردوں کےلئے نوکری کے محدوس وسائل بچیں گے اور ان میں بے روزگاری بڑھے گی تاہم بعد میں اس بات کا بھی احساس ہوا کہ اس طرح سے کشمیری خواتین کو مواقعے فراہم کئے جاتے ہیں جہاں پر خواتین اپنے اہلیت اور قابلیت کو منواسکتیں ہیں۔ اس طرح کے مواقعے دستیاب ہونے کے نتیجے میں کشمیری خواتین کو سماجی بندھن سے نکل کر اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کا موقع ملے گا۔ اگر ہم چند دہائیاں قبل بات کریں تو کشمیر میں پڑھی لکھی اور اعلیٰ تعلیم یافتہ خواتین کےلئے گھروں سے باہر نکل کر روزگار کی تلاش کرنا یا کام میں مشغول ہونا ناممکن تھا ۔ مجھے ایک قریبی رشتہ دار یاد آیا جس کی دو بیٹیاں اپنی 12ویں جماعت میں تعلیمی لحاظ سے بہترین ہونے کے باوجود اپنے خوابوں کو پورا کرنے سے قاصر تھیں۔ ان کے اندر غیر معمولی صلاحیت تھیں اور وہ اپنے کنبہ کےلئے کچھ کرنے کی چاہت تھیں تاہم صلاحیت ہونے کے باوجود اور اپنے اندر کچھ کرنے کی چاہت کے باجود بھی انہیں سماجی بندھنوںنے روکے رکھا تھا اور ان کی صلاحیت کو گھروں کی چار دیواریوں میں محدود رکھا گیا تھا ۔
کچھ سال پہلے کی اگر بات کریں تو کشمیر میں لڑکیوں کےلئے نہ صرف اعلیٰ تعلیم کا حصول مشکل تھا بلکہ ان کےلئے کچھ کرنے کی چاہت کے راستے محدود تھے کیوں کہ والدین اگر چاہتے تھے کہ ان کی بیٹیاں اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے ، انجینئر ، ڈاکٹر ، سافٹ ویر انجینئر یا ماہر یا اور کسی شعبے میں کوئی اعلیٰ عہدہ حاصل کرلیں تاہم وادی کشمیر میں شورش اور دہشت گردوں کے خوف سے وہ اس فیصلے کو ترک کرنے پر مجبور ہوجاتے تھے ۔والدین اپنی بیٹیوں کو اپنی نظروں کے ارد گرد رکھنے پر مجبور تھے اور ان کی حفاظت کےلئے فکر مند رہتے تھے ۔ ایک طرف دہشت گردی کا خوف تو دوسری طرف سماجی دباﺅ کی وجہ سے لوگ اپنی بچیوں کی تعلیم محدود رکھتے تھے اور لڑکیوں کا تعلیم حاصل کرنے کے بعد گھروں سے زیادہ نکلنا اور نوکری کرنا دشوار بن گیا تھا ۔
اب اگر ہم موجودہ وقت کی بات کریں تو موجودہ دور میں ڈیجٹلائزیشن اور وادی میں حفاظت کے بہتر منظر نامے کے پیش نظر لڑکیاں اپنی صلاحیت کا بھر پور مظاہرہ کررہی ہیں اور ہر شعبے میں اپنی کارکردگی کا مظاہرہ کرتی ہیں ۔آج کی کشمیری خواتین نہ صرف مقامی سطح پر بلکہ ملکی اور ملٹی نیشنل کمپنیوں اور کارپوریشن میں بڑے عہدوں پر فائز ہے اس کے علاوہ غیر ملکی کمپنیوں میں بھی وہ کام کرتی دیکھی جاسکتی ہیں ۔ ان ملازمتوں نے خواتین کو معاشی آزادی حاصل کرنے، سماجی احترام حاصل کرنے اور سماجی ترقی کے ساتھ ساتھ ان کی ذاتی ترقی میں حصہ ڈالنے کے قابل بنایا ہے۔ گھریلو ذمہ داریوں کے ساتھ پیشہ ورانہ کرداروں میں توازن قائم کرتے ہوئے، یہ خواتین اپنی برادریوں میں نمایاں پیش رفت کر رہی ہیں۔ آج وادی کشمیر کی خواتین ہیلتھ ، تعلیم ، بزنس ، ایگریکلچر اور دیگر شعبوں میں مردوں کے شانہ بشانہ کام کرکے سماج اور ملک کو آگے بڑھانے میں رول اداکررہی ہیں۔ کشمیر وادی سے تعلق رکھنے والی خواتین نہ صرف خود کو روزگار کے ساتھ جوڑ رہی ہیں بلکہ دوسری خواتین کےلئے بھی روزگار کے مواقعے پیدا کرتی ہیں جو انہیں سماج میں ایک اعلیٰ مقام دلاتی ہے ۔ آج کشمیری خواتین خود روزگاری کے حوالے سے دستکاری، ڈیزائننگ ، خطاطی، پھولبانی ، مٹی کے برتن بنانے جیسے رواتی کاموں کو بھی اپنارہی ہیں جو انہیں آگے بڑھنے میں حوصلہ دلاتے ہیں اس سے نہ صرف مقامی دستکاری کو فروغ ملتا ہے بلکہ خواتین بھی سماجی اور اقتصادی طور پر مضبوط بن جاتی ہے ۔
وادی کشمیر کی خواتین کو بااختیار بنانے کےلئے مرکزی سرکاری کی جانب سے بھی کوششیں جاری ہیں اور اس کےلئے سرکار نے کئی سکیموں کو بھی متعارف کیا ہے جن میں نیشنل رورل لائیولی ہڈ مشن (این آر ایل ایم ) قابل ذکر ہے ان سکیموں کا خواتین فائدہ اُٹھاتی ہے ۔ جبکہ سیلف ہیلپ گروپس میں خواتین سلائی ، کریول کا کام ، ٹیلرنگ اور ڈیزائننگ جیسے شعبوں میں نہ صرف خود کےلئے روزگار پیدا کررہی ہیں بلکہ دوسری خواتین کےلئے بھی روزگار کے مواقعے پیدا کرکے خود انحصاری کی طرف بڑھ رہی ہے ۔ کشمیر میں سرکاری سکیموں سے استفادہ حاصل کرنے والی خواتین کی متعدد کہانیاں سامنے آرہی ہیں جن میں جنوبی کشمیر کے کوکرنا گ علاقے سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون اسفان نذیر بھی ہے ۔ جس نے پردھان منتری ایمپلائمنٹ جنریشن پروگرام سے استفادہ حاصل کیا ہے ۔ ان اقدامات نے سینکڑوں نوجوان خواہشمند نوجوانوں، خاص طور پر لڑکیوں کے لیے اپنے یونٹ قائم کرنے، سخت محنت کرنے اور معاشی آزادی حاصل کرنے کے دروازے کھول دیے ہیں۔ گروپ لیڈر کے طور پر اسفہان لڑکیوں کے لیے روزگار پیدا کرنے کے لیے انتھک کام کرہی ہے ۔اس کے علاقے میں دس سے زیادہ چھوٹے منصوبے قائم کیے گئے ہیں جو مقامی مراکز سے بنیادی تربیت حاصل کرنے کے بعد خدمات پیش کر رہے ہیں۔ اسفہان نے سماجی اور اقتصادی طور پر آس پاس کی خواتین کو بااختیار بنانے کےلئے بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے ۔
یہ صرف کوکرناگ کی بات نہیں ہے بلکہ وادی کشمیر سے تعلق رکھنے والی دیگر خواتین بھی مختلف دستکاریوں کو اپنا رہی ہے جیسے کریول کام کام ، کڑھائی ، سلائی اور پشمینہ شالوں پر ہاتھوں سے مختلف ڈیزائنوں کا کام انجام دیے ہوئے اپنا روزگار چلاتی ہے جبکہ خواتین بینکوں سے قرضہ حاصل کرکے اپنے کام کو آگے بڑھارہی ہے جس کی وجہ سے انہیں بیرون ممالک سے بھی کام ملتا ہے اس طرح سے خواتین صرف سرکاری سکیموں پر منحصر نہیں ہے بلکہ اپنے بل پر بھی کچھ کرنے کی ہمت رکھتی ہے ۔ ایک اور خاتون کی مثال بھی پیش کی جارہی ہے شمالی کشمیر سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون جو اوڑی میں رہتی ہے ذائقے دار کھانا تیار کرنے میں مشہور ہے اور انہیں سعودی عرب میں شیف کا جاب ملا ہے ۔ اسی طرح بارہمولہ سے تعلق رکھنے والی کوثر جبین نے اپنی کارپوریٹ ملازمت چھوڑنے اور فن اور کاروبار کے لیے اپنے شوق کو آگے بڑھانے کا ایک جرات مندانہ فیصلہ کیا۔ اپنی پچھلی کمپنی میں اچھے عہدے پر فائز ہونے کے باوجود، جبین نے اپنے خاندان کے لیے ایک اثاثہ بنانے اور دوسروں کے لیے تحریک اور روزی روٹی کا ذریعہ بننے کے لیے اپنا کاروبار قائم کرنے کی ضرورت محسوس کی۔ وہ پختہ یقین رکھتی ہیں کہ کامیابی حاصل کرنے کے لیے، خاص طور پر نئے آغاز کے لیے عزم اور لچک کی ضرورت ہوتی ہے۔جبین نے مختلف مراحل میں کئی چلینجوں کا سامنا کیا لیکن انہوںنے ہمت نہیں ہاری اور ضلع بارہمولہ کے گاو¿ں سنگرمہ میں ٹیلرنگ یونٹ کا آغاز کیاجو مقامی طلبہ کو اسکول یونیفارم فراہم کرنے کا کام انجام دیتی ہے ۔ مالی مشکلات اور مارکیٹ میں اپنی تیار کردہ اشیاءمیں مانگ کی کمی جیسے مشکلات کا سامنا کرنے کے باوجود بھی جبین نے ہمت نہیں ہاری اور صارفین کو بہتر اور معاری اشیاءفراہم کرنے کی طرف توجہ مرکوز کی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ کامیابی اس کا مقدر بنائی اور جبین نے اپنی کامیابی کے حوالے سے بتایا کہ یہ اللہ تعلیٰ کی رحمت اور اس کی مدد کا نتیجہ ہے کہ انہوںنے اس فیلڈ میں کامیابی حاصل کی ۔ جبین نے اپنی کامیابی کےلئے ایک لائحہ عمل یہ مرتب کیا کہ انہوںنے دوسرے لوگوں کے کاموں کا مشاہدہ کیا اور ان کی کامیابی اور ناکامی اپنے لئے سبق بنایا ۔ جبین نے اپنے کام کو وسعت دینے کےلئے کئی سرکاری اور پرائیویٹ سکولوں کے بچوں کےلئے سکولی وردیاں سینے کا ٹھیکے لینے کا سلسلہ شروع کیا ہے ۔اس کے ٹیلرنگ کارخانے میں فی الحال 5لڑکیاں کام کررہی ہیں جن کو یہ روزگار فراہم کرتی ہے تاہم اس کا خواب یہ ہے کہ 200سے زیادہ لڑکیوں کو روزگار دے اور اپنے کاروبار کو دیگر اضلاع تک پھیلائے ۔ اس کا کہنا ہے کہ ہمیں سرکاری نوکری کی تلاش میں در در بھٹکنے کے بجائے اپنی صلاحیت کے مطابق کوئی کاروبار کرنا چاہئے تاکہ اپنا روزگار آسانی کے ساتھ چل سکے ۔ جبین کا کہنا ہے کہ وہ اپنی سوسائٹی کےلئے کچھ کرنا چاہتی ہے اور اگر سوسائٹی میں موجود خواتین کو روزگار ملے تو یہ ایک بہت بڑا کارنامہ ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر آپ ایمانداری کے ساتھ کام شروع کریں اور معیاری اور پائیدار ی کی طرف توجہ دیں تو کامیابی ضرور ملے گی ۔ اسی طرح دیگر خواتین نے بھی اپنے پیروں پر اُٹھ کر اپنے اور دیگر خواتین کےلئے روزگار کے مواقعے پیدا کئے ہیں ان میں سے ایک اور خاتون کا ذکر یہاں لازمی بن جاتا ہے ۔ شمالی قصبہ پٹن سے تعلق رکھنے والی رخسانہ پروین نے صابن بنانے کا کاروبار شروع کیا ہے ۔ رخسانہ پروین بغیر کمیکل کے صابن بنانے کےلئے اپنے ہی گھر سے شروعات کی انہوںنے ماسٹرس کی ڈگر ی کے باوجود بھی رخسانہ نے صابن سازی کے فن میں حقیقی اطمینان اور تکمیل پائی، جس نے اپنے باورچی خانے کو تخلیقی صلاحیتوں اور سکون کی پناہ گاہ میں تبدیل کیا۔انہوںنے گھریلو چیزیں تیار کرنے میں دلچسپی لیتے ہوئے خود انحصاری کی طرف توجہ دی ۔ اس نے سیکھنے کا عمل شروع کیا اور آخر کار اس میں وہ کامیابی ہوئی اور اس کو ایک کاروبار کے طور پر اپنایا ۔ رخسانہ نے کہا کہ اس نے اس کا م میں ہمت نہیں ہاری بلکہ اپنی کوششیں جاری رکھیں یہاں تک کی بغیر کمیکل کے صابن بنانے کے ہنر میں ماہر ہوگئیں۔ انہوںنے کووڈ 19کے دور میں اپنے شوق کو زندہ رکھتے ہوئے آن لائن کورس سے تربیت حاصل کی اور آگے بڑھتی گئی۔ رخسانہ کی جانب سے تیار کردہ صابن نے مارکیٹ میں جگہ بنالی کیوں کہ اس نے خوشبو دار تیل اور علاج کے فائدے کےلئے اس صابن کو تیار کیا ۔ اپنے گھریلو مصروفیات کے باوجود بھی اس نے یہ کام جاری رکھا۔رخسانہ نے اپنی والدہ مرحومہ کے نام سے 2021میں ہاتھ سے تیار کردہ پروڈکٹ کو ”ماہی “ کے نام سے جاری کیا یہ نام اس کی والدہ کے ساتھ جڑا ہوا ہے جو اس کو ماں کی ممتا کی یاد دلاتا رہتا ہے ۔ رخسانہ کی جانب سے ہاتھ سے تیار کردہ صابن اعلیٰ معیاری ہونے کی وجہ سے اس نے جلد ہی شہرت حاصل کی اس نے اس کی تیاری میں کوئی کمیکل استعمال نہیں کیا جس کیو جہ سے صارفین کا اس پر اعتماد بڑھ گیا ۔ ماہی صابن صرف ایک پروڈکٹ نہیں ہے بلکہ یہ ایک حوصلہ اور آگے بڑھنے چاہت کا راستہ ہے ۔ اس کی کامیابی کے پیچھے اس کی لگن اور محنت ہے اور اس نے نہ صرف صابن بانے کا فن سیکھا بلکہ رخسانہ دیگر خواتین کےلئے بھی ایک تحریک اور آگے بڑھنے کی راہ بن گئی ہے ۔وادی کشمیرمیں خواتین کی جانب سے اپنے بل پر کاروبار کھڑا کرنے اور اپنے ساتھ ساتھ دیگر خواتین کےلئے روزگار کے مواقعے تلاش کرنے کی داستان لمبی ہے ۔ مختلف شعبوں میں کشمیری خواتین نے اپنے جوہر دکھائے ہیں اور انٹر پرنیورشپ اور خواتین کو معاشی طور پر بااختیار بنانے کی طرف یہاں کی خواتین کی کوششیں قابل سراہنا ہے جو ان کے جذبے ، حوصلے اور ان کی ذمہ داری کا ثبوت ہے ۔
EARTH DAY IN KASHMIR: A GREEN SYMPHONY OF PATRIOTISM, POWER AND PRESERVATION
Earth Day, observed globally on April 22, is more than just a calendar occasion it is a worldwide clarion call...
Read more