آج کل ہر چھوٹے یا بڈے، خورد یا کلان، ترقی یافتہ یا غیر ترقی یافتہ ملک کے ہر شہر، ہر گاوں، ہر مگر، ہر ڈگر، ہر قصبہ، ہر ضلع، ہر علاقہ، ہر محلہ، ہر پوش یا سفید پوش کالونی، ہر بازار، ہر ہر گلی اور ہر چوک میں بنی ہر آسمان سے باتیں کرتے ہویے مینار والی ہر مسجد، میں ہر امام صاحب ، ہر فجر، ہر ظہر، ہر عصر، ہر مغرب، ہر عشا،کی ہر نماز کے ہر دعا کے بعد ہر بزرگ، ہر ماں، ہر بہن، ہر بھایی، ہر شادی شدہ اور ہر خاتون، ہر مرد، ہر جوان، ہر پہلوان ہر ناتوان کو ہر بار، بار بار، لگاتار، ہر شام و ہر سحار، یہی تلقین و تاکید کرتے ہیں کہ بھاییو بہنو کچھ بھی ہوجایے، زمانہ پلٹا کھایے یا نہ کھایے، سورج آگ اگلے یا رم جم پانی برسایے، کاروبار زوال پزیر ہو یا کمال پر ہو، بازاروں میں لوگوں کا جم غفیر ہو یا دن میں ہی آلو بولتے ہویے نظر آتے ہوں، امیر ہو یا سغیر، سرماےدار ہو یا لاچار، بھلے ہی گھر میں جان کے لالے پڈتے ہوں لیکن ہر مسلمان اب کی بار عید نہایت ہی عزت و احترام اور پر وقار طریقے سے ضرور مناییں لیکن نہایت ہی سادگی سے مناییں۔ ٹھیک، بالکل ٹھیک، بجا بالکل بجا، صحیح بالکل صحیح، درست و بالکل درست، شاباش، مرحبا، آفرین۔ چلو ہم سب اس بات پر پوری طرح سے عمل کرنے کی قسم کھاییں۔
بٹ، لیکن، کنتو، پرنتو، عید کیسے سادگی سے مناییں؟.
یہ سوال بار بار، اور لگا تار، شام و سحار میرے کند زہن پر تابڑ توڑ وار کرتا رہا اور مجھے للکار رہا تھا۔ اور یہ کہہ رہا تھا کہ عید کسطرح اور کیسے سادگی سے منایی جاتی ہے۔ پھر کیا ہوا، میں اس سادگی سے عید منانے کی وضاحت کرنے کیلیے پہلے امام صاحب کے پاس جانے کو تیار ہوا لیکن پھر یہ سوچ کر واپس آیا کہ کہیں اگر کہنے یا سننے میں زرا سی چوک ہویی بس حکم کفر تو ڈیو ہے۔ اس لیے امام صاحب کا خیال چھوڈ کر میں سیدھا، بجلی، پانی صاف صفآیی کے بغیر سمال میرا مطلب ہے سمارٹ سٹی کے سرکاری پیر صاحب کے دولت خانے پر گیا کیونکہ پیر صاحب نے بھی لوگوں کو عید سادگی سے منانے کی زبردست اپیل کی تھی۔ میں جب وہاں پہونچ گیا تو بغیر کسی سوچ و بچار یا وچار کے انکے دیوان خانے کے اندر ترنت ہی سرٹکا مگر وہاں پیر صاحب کی سادگی کو دیکھکر مجھے لگا ایک زوردار مگر دھیرے سے جھٹکا، پیر صاب کی بے شمار ضیافتوں کو دیکھ کر میرا ماتھا ٹھنکا بھی اور بھٹکا بھی۔ منہہ میں پانی کا ایک خوشگوار آبشار گرجنے لگا مگر افسوس صد افسوس یہاں بھی قسمت کی دیوی نے اپنا منہہ پیر صاحب کی ہی طرف کیا تھا۔ پیر صاحب لنچ کے آخری مراحل طے کرچکے تھے اب تو بس ایک زوردار ڈھکار لینا باقی رہ گیا تھا جو انہوں نے مجھے دیکھکر جلدی سے مار لی تاکہ میں یہ نہ سمجھوں کہ میں بھی پیر صاب کے طعام شریف میں شرکت کا حقدار ہوں۔
بحر حال، میں نے اپنی تشریف آوری کا مقصد بیان کیا مگر پیر صاحب تو اشاروں کنایوں میں پہلے فیس یعنی ہدیہ ادا کرنے کا عندلیہ دیتے رہے جو کہ ان کیلیے ضروری مگر میرے لیے غیر ضروری ٹیکس ادا کرنے کے مترادف تھا۔ مگر مرتا کیا نہ کرتا مجبور ہوکر میں نے یہ ٹیکس ادا کیا اور پیر صاحب کے جواب کا منتظر رہا۔
پیر صاحب نے اپنی کنزتل بحران کتاب کا ایک خاص صفحہ کھولا اور میری طرف معنی خیز نظروں سے دیکھنے لگے۔ عرفہ کا دنتھا لوگ عید کے سلسلے میں خریداری کرنے میں مست تھے۔ اتنے میں پیر صاحب کا نوکر شریف آگیا۔ پسینے میں شرابور بیچارہ اور آتے ہی سارآ سامان انکے قدم شریف کے پاس رکھا اور بڈبڈانے لگا، پیر صاحب یہ لیجیے سات کلو گوشت، یہ ایک کلو پنیر، یہ تین عدد چکن، یہ تین کلو دہی، یہ پالک، یہ ٹماٹر، یہ میتھی، یہ برفی، یہ سیویاں، یہ دال والے لفافے،یہ خشک میوہ، یہ میوہ، یہ دال مونگری یہ مٹھایی، یہ آیس کریم، یہ سلاد کیلیے سامان، اور ہاں اپنے ننھے منے کو کھیلنے کیلیے آتش بازی سے بھرا بیگ۔ میں نے پیر صاحب کی طرح دیکھا تو انہوں نے کہا اسے کہتے ہیں سادگی سے عید منانا۔ میں نے ہدیہ کے پیسے واپس کرنے کو جب کہا تو پیر صاحب بپھر گیے انکے کان تک لال ہوگیے اور بس اتنا کہا کہ یاد رکھو میاں پیر صاحب لیلو پیسہ بسملا واپس کیجیے نعوز بلا۔
The Pahalgam Massacre: Pakistan’s Proxy War and the Philosophy of Fear
On April 22, 2025, the lush green valleys of Pahalgam, once a symbol of Kashmir's breathtaking beauty, turned crimson with...
Read more