گزشتہ سات دہائیوں سے کشمیر ہندوستان اور پاکستان کے مابین باعث تنازعہ بنا ہوا ہے اور کئی بار دونوں ممالک کے درمیان جنگیں بھی ہوئیں جن میں ہزاروں جانیں تلف ہوئیں ۔ کشمیر 1947سے ہی ہندپاک کے مابین دیگر معاملات میں سب سے اہم اور پیچیدہ مسئلہ رہا ہے جس کوحل کرنے میں کئی بار بات چیت بھی ہوئی ، بیرونی ممالک نے مداخلت بھی کی لیکن کوئی نتیجہ سامنے نہیں آیا ہے ۔ تاہم اگر ہم اس معاملے میں ذرائع ابلاغ کے کردار کی بات کریں تو اس معاملے میں رائے عامہ منظم کرنے ، تاثرات کو عالمی سطح پر پہنچانے اور عالمی سطح پر مقامی لوگوں کی رائے پہنچانے میں رول اداکرتا ہے اس میں دونوں طرح کے میڈیا اداروں پرنٹ اور ڈیجیٹل میڈیا دونوں کا رول ہے ۔ برطانیہ کے چنگل سے آزادی پانے اورتقسیم ہند کے بعد سے ہی ہندوستان اور پاکستان کے درمیان یہ خطہ باعث کشیدگی رہا ہے اور جنگوں کے علاوہ یہ طویل شورش کی زد میں بھی رہا ہے جس کی وجہ سے عالمی میڈیا کی نظریں ہمیشہ اس خطے پر رہی ہے اور میڈیا اداروں ، اخبارات نے کشمیر کو موضوع بحث بنایا ہے ۔ جہاں تک ابتدائی سالوں کی بات ہے تو پہلے کشمیر معاملے پر خبریں اخبارات اور ریڈیو اور ٹی وی پر ہی نشر ہوا کرتی تھیں اور ان پر کسی حد تک حکومت کا کنٹرول تھا۔ جہاں تک ہندوستانی میڈیا کی بات ہے تو ہندوستانی میڈیا نے عام طور پر کشمیر کو ہندوستان کا اٹوٹ انگ کے طور پر پیش کیا دہشت گردی اور پاکستان سے لاحق بیرونی خطرات پر توجہ مرکوز کی۔بھارت میڈیا نے ایسے خبروں کو شائع کرنے سے گریز کیا جو باعث تفرق بن جاتی تھیں اور فوج اور پولیس کے علاوہ سرکاری بیانات اور ان کے حق میں رپورٹنگ کرتے تھے ۔ اس کے برعکس پاکستانی میڈیا نے خطے کے حق خودارادیت پر زور دیتے ہوئے ہندوستانی حکمرانی کے تحت کشمیریوں کی حالت کو اجاگر کیا۔ حریف میڈیا اداروں نے کشمیر سے متعلق ایسی رپورٹنگ جاری رکھی جس سے کشمیر سے متعلق عالمی نظریہ پر اثر انداز ہوتا تھا ۔ یہ رجحان دونوں ملکوں میں قوم پرستانہ جذبات کی تشکیل کرتے ہوئے برقرار ہے اور دونوں ممالک کے میڈا اداروں کی جانب سے دو طرح کے نظریہ کو اُجاگر کیا جاتا رہا ہے ۔ ذرائع ابلاغ مسئلہ کشمیر کے بارے میں عوامی تاثر کو تشکیل دینے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ میڈیا ادارے کشمیر سے متعلق خبروں اور واقعات کو جس طرح سے پیش کرتے ہیں سچ وہی سمجھا جاتا ہے اپنی پالیسی کے مطابق میڈیا ادارے کہانی کے اُس پہلو کو اُجاگر کرتے ہیں جو ان کے مفاد میں ہوں اور کئی حقائق کو پر پردہ ڈالا جاتا ہے جو عام لوگوں کی اس سلسلے میں متضاد رائے پیدا کرتی ہے ۔ مثال کے طور پر بھارتی میڈیا اکثر تنازعات کو قومی سلامتی اور انسداد دہشت گردی کے حوالے سے تیار کرتا ہے اور عسکریت پسندوں کو بیرونی حملہ آور کے طور پر پیش کرتے ہوئے بھارتی فوج کو مثبت روشنی میں ڈالتا ہے۔ یہ خاکہ ایک متحدہ ہندوستان کے تصور کو تقویت دیتا ہے جسے بیرونی خطرات کا سامنا ہے ۔ اس طرح سے بھارتی میڈیا ادارے ہندوستان کے حق میں اپنی خبریں چلاتے ہیں ۔ دوسری طرف پاکستانی میڈیا اکثر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کے ارد گرد تنازعات کو ترتیب دیتا ہے۔ پاکستانی میڈیا ادارے جموں کشمیر میں سرگرم شدت پسندوں کو ہیرو کا مقام دیکر ان کی جانب سے ہر ایک کارروائی کو درست قراردیتے ہیں ۔اور یہ بیانیہ کشمیریوں کے ساتھ یکجہتی کے جذبات کو فروغ دیتا ہے اور اس معاملے پر پاکستان کے موقف کو درست ثابت کرتا ہے۔ پاکستانی میڈیا کی جانب سے ہر جائز اور ناجائز کام جو شدت پسندوں کی جانب سے انجام دیا جاتا ہے پرجواز پیش کیا جاتا ہے اور اس طرح سے کشمیر میں جاری شورش کو جدوجہد کا نام دیا جاتا ہے ۔ اس طرح سے بین الاقوامی میڈیا بھی اپنے ملک کی خارجہ پالیسی اور اپنے اتحادی ملک کے مفادات کو مد نظر رکھتے ہوئے خبروں کی تشہیر کرتا ہے ۔ تاہم اگر ہم موجودہ جدید دور کی بات کریں تو اس میں ڈیجیٹل میڈیا نے خبروں کے نشر کرنے اور اس کے منظر نامے کو تبدیل کردیا ہے ۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز جن میں ٹویٹر، فیس بُک، انسٹرا گرام ، یوٹیوب اور دیگر سائٹس ہیں خبروں کی تشہیر کی اجازت دیتے ہیں جس کی وجہ سے اکثر روایتی میڈیا نظر انداز ہوتا ہے اور صحیح اور غلط خبروں کی پہنچان اور ان کی جانچ ہی ختم ہوجاتی ہے ۔ سوشل میڈیا نے جہاں عام انسان کو خبروں کی تشہیر کےلئے آزادی فراہم کی ہے وہیں ڈیجٹل میڈیا کے بہت سارے منفی اثرات بھی رائے عامہ پر پڑ سکتے ہیں ۔ سوشل میڈیا کے ذریعے غلط خبروں کی تشہیر ، پروپگنڈا کو بڑھاواملا ہے ۔سوشل میڈیا پر صارف اپنے انداز کے مطابق خبر کو شائع کرتا ہے اوراس کو زیادہ سے زیادہ پھیلاسکتا ہے اور اس کے تناظر میں پاکستان اور ہندوستانی میڈیا کشمیر سے متعلق کسی بھی خبر کو اپنے انداز کے مطابق مسخ کرکے پیش کرتے ہیں جس سے اصل حقائق چھپائے جاتے ہیں ۔صرف ہندوستان ، پاکستان میڈیا ادارے ہی نہیں بلکہ بی بی سی، الجزیرہ اور سی این این جیسے بین الاقوامی ذرائع ابلاغ مسئلہ کشمیر کے بارے میں عالمی تاثرات کو تشکیل دینے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ یہ ادارے اکثر تنازعات کے انسانی پہلوو¿ں اور کشمیری شہریوں کی آوازوں کو اجاگر کرتے ہوئے زیادہ باریک بینی سے کوریج فراہم کرتے ہیں۔ان کی جانب سے جاری کردہ رپوٹس اگرچہ کافی حد تک زمینی حقائق سے میل کھاتے ہیں اور چھان بین پرمبنی ہوتے ہیں تاہم ان کی جانب سے شائع کردہ رپوٹس میں بھی متصبانہ رویہ اختیار کیا جاتا ہے اور یہ ادارے اپنے ممالک کے سیاسی ایجنڈے اور ملکی پالیسی کو مد نظر رکھتے ہوئے رپورٹس تیار کرتے ہیں جن میں کہیں کہیں پر حقائق کو چھپایا بھی جاتا ہے اور جس بات کا حقیقت سے دور کا بھی واسطہ ہیں ہوتا ان کو رپورٹ میں جگہ دی جاتی ہے ۔اس طرح سے میڈیا کی رپورٹنگ تعصب پر بھی مبنی ہوسکتی ہے ۔ مغربی میڈیا کی جانب سے اکثر و بیشتر انسانی حقوق کی پامالیوں کو اُجاگر کیا جاتا ہے اور اپنی رپورٹس میں شہریوں کے تحفظ کے اقدامات پر زور دیتا ہے ۔ اور بین الاقوامی سطح پر سفارتی اقدامات کے ذریعے انسانی حقوق کی پامالیوں کو روکنے کےلئے دباﺅ ڈال سکتا ہے ۔عالمی سطح پر جس طرح سے بین الاقوامی میڈیا تنازعات کو فریم کرتا ہے وہ خارجہ پالیسی کے فیصلوں اور انسانی امداد کو متاثر کر سکتا ہے۔ میڈیا کوریج کے ذریعے تشکیل پانے والی رائے عامہ ہندوستان اور پاکستان دونوں پر پرامن حل تلاش کرنے کے لیے بین الاقوامی
دباو¿ کا باعث بن سکتی ہے، حالانکہ یہ عالمی عام لوگوں کے درمیان پولرائزیشن اور غلط فہمی میں اضافے کا باعث بھی بن سکتی ہے۔ خاص کر کشمیر کے حوالے سے میڈیا قومی اور بین الاقوامی سطح پر رائے عامیہ کو متاثر کرسکتا ہے اور کشمیر سے متعلق حقائق یا پروپگنڈہ پر مبنی عکاسی کرکے شبہہ متاثر کرسکتا ہے ۔ ہندوستان اور پاکستان کی حکومتوں کی جانب سے کشمیر کے حوالے سے اپنی پالسیوں کی تشہیر کےلئے میڈیا اداروں کا استعمال عمل میں لایا جاتا ہے اور سرکاری اقدامات کےلئے عوامی حمایت اور بین الاقوامی توجہ کےلئے ذرائع ابلاغ کا استعمال کیا جاتا ہے جو خطے کے حالات پر اثر انداز ہوسکتے ہیں ۔ اسلئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ کشمیر سے متعلق میڈیا کا کردار اہم ہے جو عام لوگوں خاص کر قومی اور بین لاقوامی سطح پر کشمیر سے متعلق منفی اور مثبت رائے پیدا کرسکتا ہے ۔ جہاں تک ڈیجیٹل دور کی بات ہے تو جس قدر اس میں اضافہ ہوگا کشمیر کے معاملے پر اثرات میں اضافہ ہوسکتا ہے ۔ اسلئے ضرورت اس بات کی ہے کہ اصل حقائق کو زیادہ سے زیادہ مشتہر کرنے کی کوشش کی جائے تاکہ منفی اور پروپگنڈا پر مبنی خبریں اور رپورٹوں کا اثر زائل ہوجائے ۔ اس کے علاوہ میڈیا کے کردار اور اس کے اثرات سے متعلق عوام میں بیداری پیدا کرنے کی ضرورت ہے تاکہ لوگ کسی غلط فہمی کا شکار ہوئے بغیر اصل حقائق سے روشناس ہوسکیں
Fading Frost: Uncovering The Reasons Behind The Decline In Snowfall And Its Impact On Winter Tourism In Jammu And Kashmir
Jammu and Kashmir, often called the "Paradise on Earth," is renowned for its pristine snow-covered mountains, mesmerising valleys and breath-taking...
Read more