Wednesday, May 14, 2025
  • Contact
  • About us
  • Advertise
  • Careers
  • Privacy Policy
Gadyal Kashmir
  • Home
  • Kashmir
  • Jammu
  • World
  • National
  • Sports
  • Article
  • ePaper
No Result
View All Result
Gadyal Kashmir
Home Opinion Article

پارلیمنٹ کی مسجد : ایک تعارف

Gadyal Desk by Gadyal Desk
08/06/2024
A A
پارلیمنٹ کی مسجد : ایک تعارف
FacebookTwitterWhatsappTelegram

(صوفی میڈیا سروسز )

معصوم مرادآبادی

Related posts

With Gratitude and Respect: Bidding Adieu to Our Guiding Light

دہشت گردی کا کوئی مذہب نہیں :پہلگام کا حملہ(خونریزی )اور ہندوستان کی انسانیت

13/05/2025
‘We Were Ready, We Remain Ready’: Top Military Brass Reaffirms Armed Forces’ Readiness After Operation Sindoor

Pakistan Testing India’s Patience

13/05/2025

حالیہ پارلیمانی انتخابات میں نئی دہلی کی جامع مسجد کے امام مولانا محب اللہ ندوی رامپور سے لوک سبھا کے رکن منتخب ہوئے ہیں۔وہ کسی مسجد کے پہلے امام ہیں جنھیں پارلیمنٹ کی رکنیت ملی ہے۔یہی وجہ ہے کہ اس مسجد میں لوگوں کی دلچسپی بڑھی ہے اور وہ اس کی طرف متوجہ ہوئے ہیں۔یہ مسجدپارلیمنٹ کے بہت نزدیک واقع ہے ۔میں تقریباً 42 برسوں سے اس مسجد میں نمازجمعہ ادا کرتا رہا ہوں، اس لیے اس سے میری بہت سی یادیں وابستہ ہیں،ملاحظہ فرمائیں۔
ریڈ کراس روڈ کے آخری سرے پر واقع اس مسجد کو عام طورپر پارلیمنٹ کی مسجدکے نام سے جانا جاتا ہے، لیکن 1940 کے سرکاری گزیٹر میں یہ’مسجد کونسل ہاؤس‘ کے نام سے درج ہے۔ پارلیمنٹ ہاؤس کی عمارت کو اس زمانے میں کونسل ہاؤس ہی کہا جاتا تھا۔مسجد کے مغرب میں سابق صدرجمہوریہ فخرالدین علی احمد کی آخری آرام گاہ بھی ہے۔ میں جب1982 میں آل انڈیا ریڈیو کے جریدے ”آواز“سے وابستہ ہوا تو جمعہ کی نماز اسی مسجد میں ادا کرتا تھا۔ اس کے بعد جب پارلیمنٹ کی کارروائی کی رپورٹنگ شروع کی تو اجلاس کے دوران نماز جمعہ پابندی سے ادا کرنے لگا۔عام طور پر یہاں مرکزی حکومت کے مسلم ملازمین جمعہ کی نماز اداکرتے ہیں، لیکن جب پارلیمنٹ کا اجلاس ہوتا ہے تو یہاں کی چہل پہل بڑھ جاتی ہے۔ کیونکہ یہاں اکثر مسلم ممبران پارلیمنٹ، وزراء اور دیگر سیاست داں نماز جمعہ ادا کرنے آتے ہیں۔ یہاں نماز پڑھنے کا ایک مقصد اہم شخصیات سے ملاقات کا شوق بھی ہوتا ہے۔لیکن یہاں میں نے کچھ عبرتناک مناظر بھی دیکھے ہیں، جن کا تذکرہ آگے چل کر آئے گا۔
قابل ذکر بات یہ ہے کہ جب کبھی مسلم ملکوں کے سربراہ ہندوستان کے دورے پر آتے ہیں تو وہ بھی یہیں نمازجمعہ ادا کرتے ہیں۔ اندرا گاندھی کے دور میں جب پاکستان کے صدر ضیاء الحق ہندوستان آئے تھے تو انھوں نے بھی جمعہ کی نماز اسی مسجد میں ادا کی تھی۔یہ بات بھی کم دلچسپ نہیں ہے کہ 1940 میں سنی اوقاف دہلی کے صدر لیاقت علی خاں اور گورنر جنرل کے درمیان معاہدہ کے تحت جن 42 مسجدوں اور قبرستانوں کو مسلمانوں کے حوالے کیا گیا تھا، ان میں یہ مسجد بھی شامل تھی۔ یہی لیاقت علی خاں بعد کو پاکستان کے صدر بنے۔اس مسجد کی تعمیر مغلیہ عہد میں 300 سال پہلے ہوئی تھے۔ جب انگریزوں نے دہلی کو پایہ تخت بنایا اور اس کی توسیع کی تب بھی یہ مسجد موجود تھی۔یہ مسجد 1970 میں گزٹ ہوئی۔
مجھے یاد ہے کہ ایک بار افغانستان کے صدر صبغۃ اللہ مجددی یہاں نماز جمعہ پڑھنے آئے تو امام صاحب نے منبر ان کے حوالے کردیا۔ انھوں نے خطبہ پڑھا اور نماز بھی ادا کرائی۔ اس مسجد کے امام قاری محمدادریس مرحوم تھے، جنھوں نے سب سے طویل مدت تک یہاں نماز پڑھائی۔ ان کا تقرر1947 کے بعد ہواتھا اور 16/جنوری 2005کو اپنے انتقال تک وہی امامت کی ذمہ داریاں ادا کرتے رہے۔وہ اپنے ہجرے میں بیماروں اور پریشان حالوں کا روحانی علاج بھی بلا معاوضہ کیاکرتے تھے۔قاری ادریس صاحب مٹیا محل میں ہمارے پڑوسی تھے اور ان کے گھر میں ہمارا آنا جانا تھا۔بہت کم گو اور گوشہ نشین قسم کے انسان تھے۔یہ مسجد دہلی وقف بورڈ کے انتظام ہے، لیکن وقف بورڈ نے اس کے رکھ رکھاؤ پر کبھی توجہ نہیں دی۔ مجھے یاد ہے کہ 1996میں بل کی عدم ادائیگی کے سبب مسجد کی بجلی کاٹ دی گئی تھی اورمسجد میں اندھیرا چھاگیا تھا۔کئی مہینے ایسے ہی بیت گئے۔ بجلی کا بل ایک لاکھ روپے سے زیادہ کا تھا اور وقف بورڈ اسے ادا کرنے پر قادر نہیں تھا۔ ایک روز پاس میں ہی واقع گردوارہ سیس گنج سے کچھ سکھ حضرات مغرب کے وقت اپنے ہاتھوں میں پیٹر ومیکس لے کر آئے۔ یہ گیس سے روشن ہونے والی لالٹینیں تھیں۔ انھوں نے کہا کہ وہ مسجد کو ہدیہ کرنا چاہتے ہیں، کیونکہ خدا کے گھر میں اندھیرا اچھا نہیں لگتا۔ مگر قاری صاحب نے انکار کردیا اور وہ اپنے جذبہ صادق سمیت واپس ہوگئے۔ اسی دوران میں نے ایک رپورٹ لکھی، جس میں مسجد کی بجلی بحال نہ ہونے میں وقف بورڈ کی لاپروائی کا تذکرہ تھا۔ قاری صاحب ناراض ہوگئے کہ میں نے اس معاملے کو اخبار میں کیوں اچھالا۔بہرحال اخبار میں تفصیلی خبر شائع ہونے کے بعد ہی وقف بورڈ متحرک ہوا اور بجلی کا بل ادا کیا گیا۔ شاید کسی مخیر شخص نے اس کی ادائیگی کی تھی۔2014میں اس مسجد کی قسمت اس وقت چمکی جب کیرل کے معروف تاجر یوسف علی (مالک لولو مال)نے لاکھوں روپے خرچ کرکے اس مسجد کی شاندار انداز میں تزئین کروائی۔مسجد کی چھتیں، وضو خانہ، اندرونی نقش ونگار، ایئر کنڈیشنڈ سب کچھ نئے انداز میں بنائے گئے۔آج یہ مسجد تمام جدید سہولتوں سے آراستہ ہے۔اس سے قبل مسجد کی تجدید جنوری 1946ں بھارت کیمیکل ورکس کلکتہ کے مالک شیخ محمدسعیدوشیخ محمد حنیف کی والدہ کی طرف سے کرائی گئی تھی، جس کا کتبہ بھی مسجد کی دیوار پر نصب ہے۔اب اس مسجدکے امام مولانا محب اللہ ندوی ہیں،جن کا تعلق رامپور سے ہے۔
قابل ذکر ہے کہ مولانا ابوالکلام آزاد، سابق صدرڈاکٹر ذاکرحسین اور فخرالدین علی احمد بھی یہیں نمازجمعہ ادا کیا کرتے تھے۔ آخری شخصیت نائب صدر جمہوریہ محمد حامد انصاری کی ہے، جو اکثر یہاں نمازجمعہ ادا کرتے ہیں۔اس کے نمازیوں میں غلام محمودبنات والا، ابراہیم سلیمان سیٹھ، مرکزی وزیر ضیاالرحمن انصاری،جعفر شریف،عبدالرحمن انتولے، سید شہاب الدین، پروفیسر سیف الدین سوز، ڈاکٹر شفیق الرحمن برق اور الیاس اعظمی وغیرہ کے نام قابل ذکر ہیں۔
پارلیمنٹ کی یہ مسجد بہت سے سیاسی اتارچڑھاؤ کی بھی گواہ بنی ہے۔ میں نے گزشتہ بیالیس سال کے دوران یہاں عروج وزوال کی بہت سی عبرتناک داستانیں دیکھی ہیں۔ ایک زمانہ تھا کہ سید شہاب الدین جب یہاں نمازپڑھنے آتے تھے تو ان کے مداحوں کا ہجوم انھیں ایسے ہی گھیر لیتا تھا جیسا کہ آج کل اسد الدین اویسی کو گھیر لیتا ہے۔قوم کا ایک عجیب مزاج یہ ہے کہ جب کوئی اقتدار میں ہوتا ہے تو اس کی خوب پرستش ہوتی ہے، لیکن جیسے ہی وہ اقتدار سے محروم ہوجاتا ہے تواس سے منہ پھیر لیتی ہے۔سید شہاب الدین جب پارلیمنٹ میں نہیں تھے تو ان کا دفتر فیروزشاہ روڈ پر کسی ممبر پارلیمنٹ کی کوٹھی میں تھا، جہاں سے وہ”مسلم انڈیا“شائع کرتے تھے۔ ان کے پاس ایک پرانی فیئٹ کارتھی جسے وہ خود ہی چلایا کرتے تھے۔ایک روز وہ بغیر گاڑی کے نماز پڑھنے آئے مگر واپسی پر کوئی انھیں لفٹ دینے کو تیار نہیں ہوا۔ انھوں نے وہاں موجود کئی گاڑی والوں سے کہا مگر سب نے انکار کردیا۔ میں یہ منظر دیکھ رہا تھا۔بعد کو میں نے انھیں فیروزشاہ روڈ تک پہنچایا۔
دیوے گوڑا کی حکومت میں سب سے طاقتور وزیر سی ایم ابراہیم تھے جو رنگین چشمہ لگاکر اس مسجد میں نماز پڑھنے آتے تھے۔ ان کا انداز مافوق البشر جیسا تھا۔ نئے نئے وزیر بنے تھے۔ بلا کی تمکنت تھی۔ شہزادوں کی طرح چلتے تھے، لیکن ان کا عروج دیوے گوڑا کے زوال تک ہی رہا۔ بعد میں وہ جب کبھی اس مسجد میں آئے تو کسی نے ان کی طرف نظر بد بھی نہیں ڈالی۔ ایسے کئی واقعات ہیں جو عروج وزوال کی کہا نیاں بیان کرتے ہیں، لیکن میں فی الحال ان ہی پر اکتفا کرتا ہوں۔یہ مسجد آزادی کے بعد مسلم قیادت کے عروج وزوال کی گواہ رہی ہے۔

Gadyal Desk
Gadyal Desk
Previous Post

179 BN CRPF Organizes Medical Camp in Mundji Zaingeer

Next Post

Modi’s Third Consecutive Oath-taking as PM today

Related Posts

With Gratitude and Respect: Bidding Adieu to Our Guiding Light
Article

دہشت گردی کا کوئی مذہب نہیں :پہلگام کا حملہ(خونریزی )اور ہندوستان کی انسانیت

by Gadyal Desk
13/05/2025
0

پہلگام پر خوفناک دہشت گرد حملہ 22 اپریل 2025 جس نے 26 معصوم جانیں لی اور دوسرے 20 لوگوں کو...

Read more
‘We Were Ready, We Remain Ready’: Top Military Brass Reaffirms Armed Forces’ Readiness After Operation Sindoor

Pakistan Testing India’s Patience

13/05/2025
With Gratitude and Respect: Bidding Adieu to Our Guiding Light

Why Pakistan Can’t Be a Good Neighbour

13/05/2025
‘Operation Sindoor’: Indian Armed Forces Hit 9 Terror Camps Across LOC

Operation Sindoor, India’s Masterful Strike Against Terror

09/05/2025
THE CALL OF THE MOUNTAINS NORTH KASHMIR’S NEW FRONTIERS FOR ADVENTURE SEEKERS

NAYA KASHMIR- EK KASHMIRI KE AANKHO SE

09/05/2025
Next Post
Modi’s Third Consecutive Oath-taking as PM today

Modi’s Third Consecutive Oath-taking as PM today

  • Contact
  • About us
  • Advertise
  • Careers
  • Privacy Policy
e-mail: [email protected]

© 2022 Gadyal - Designed and Developed by GITS.

No Result
View All Result
  • Home
  • Kashmir
  • Jammu
  • World
  • National
  • Sports
  • Article
  • ePaper

© 2022 Gadyal - Designed and Developed by GITS.