مسلمانوںکا ایمان اس بات پر ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم دنیا کے آخری پیغمبر ہیں اور اللہ تعلیٰ کی نازل کردہ کتاب آخری کتاب ہے جس میں انسان کےلئے زندگی گزارنے کا صحیح راستہ دکھا یا گیا ہے اور جو اس پر من و عن عمل کرے وہ دنیا میں بھی کامیاب ہوگا اور آخرت میں بھی فلاح حاصل کرے گا۔ ہمارا غیر متزلزل عقیدہ کہ قرآن اللہ تعالیٰ کی طرف سے انسانوں کی ہدایت کے لیے آخری کلام ہے۔ ہم مسلمان اس بات پر پختہ یقین رکھتے ہیں کہ قرآن کی تعلیمات پر عمل کرنے والا (خواہ وہ مرد ہو یا عورت) دنیا اور آخرت میں بھی پرامن زندگی گزارے گا۔اللہ تعلیٰ کی جانب سے اپنے آخری نبی پر جو قرآن نازل فرمایا گیا وہ ایک ساتھ نازل نہیں ہوا بلکہ یہ 23برسوں تک وقت وقت پر اور حالات کے موافق نازل ہوتا گیا جس کے ذریعے وقت وقت پر صحابہ ؓ کو ہدایات دی جاتی تھیں اور مسائل کے حل بھی ان ہی آیات کریمہ میں مضمر ہوتے تھے ۔ دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ اگر یہ قرآن مجید ایک ساتھ ایک ہی وقت نازل ہوا ہوتا تو یہ اُس وقت کے لوگوں کےلئے سمجھنا اور اس پر غور فکر کرنا مشکل ہوتا اسلئے قرآن شریف کی آیات کو اُسی وقت نازل کیا جاتا تھا جب اُس کی ضرورت تھی ۔ اس طرح سے رسول اللہ کے پاس جب جبرعیل ؑ قرآن کی آیات لیکر آتے تھے تو حضور کو جمع کرکے انہیں اس سے باخبر کرتے تھے جو ان آیات مبارک کو ورد کیا کرتے تھے ۔ قرآن شریف میں انسان کی فلاح اور کامیابی کےلئے مکمل ہدایت موجود ہیں اور ہر معاملے میں اس میں رہنمائی کی گئی ہے ۔ اس کے علاوہ روزہ، زکوٰة، حج، جہاد وغیرہ رسول کے طرز عمل کے بغیر ممکن نہیں تھے۔ اس لیے قرآن کا نزول، ایک بار نہیں، بلکہ وقتاً فوقتاً، یقیناً معقول ہے۔ اس طرح محمد کی زندگی سے مشورہ کیے بغیر قرآن کو سمجھنا ناممکن تھا، اور اس کے نتائج مہلک ہوتے کیوں کہ ہر کوئی اپنے من موافق قرآنی آیات کی تشریح کرتا ۔ اس لئے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پاک قرآن مجید پر عمل کا ایک عملی نمونہ ہے جنہوں نے اپنی زندگی اسی طرح گزاری جس طرح اللہ تعلیٰ نے قرآن کے ذریعے ہدایت کی تھیں۔ اللہ تعلیٰ نے قرآن مجید میں اپنے پیغمبر کو قابل تقلید قراردیتے ہوئے کہا ہے کہ جو ان کی سنت پر عمل کرے گا اس کےلئے نہ صرف دنیا میں کامیابی ہوگی بلکہ اُخروی کامیابی بھی اس کا نصیب ہوگی ۔ اس طرح ہمارے دنیاوی یا روحانی دائروں سے متعلق ہمارے روزمرہ کے معاملات میںقرآن ہمیں نصیحت کرتا ہے کہ قرآن، محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا سہارا لیں! لہٰذا، محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کی پیروی اتنی ہی ضروری ہے جتنا اللہ یا اللہ کے کلام کی پیروی کرناہے ۔ اس طرح سے رسول کی پیروی اور ان کے احکامات کو ایک مومن کےلئے ناگزار قراردیا گیا ہے ۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انسانی معاملات ، طرز زندگی اور حالات بھی تبدیل ہوتے رہتے ہیں تو کیا موجودہ دور میں اگر مسلمانوں کو کوئی ایسا مسئلہ درپیش آئے جس کا حل قرآن واحادیث میں نہ نکلے تو اس صورت میں کیا کیا جاسکتا ہے ۔ اس کے لئے بھی اسلام نے بہترین حل نکالا ہے ۔ اسلامی تعلیمات کے مطابق ایسے مسائل جن کا حل قرآن اور احادیث کی تعلیمات سے نہ نکلے اور جو حالات کی تبدیلی کی وجہ سے پیچیدہ ہوئے ہوں تو ان مسائل کے حل کےلئے علمائے کرام کی رائے مقدم رہتی ہے ۔ اور اسلامی سکالر مل بیٹھ کر ان مسائل کے حل کی طرف توجہ دیں جس طرح سے کئی فقی مسائل علمائے کرام نے حل کئے ہیں ۔ لیکن ان معاملات یعنی اسلامی مسائل پر فتویٰ دینا کسی بھی ایرے غیرے کا کام نہیں ہے بلکہ اس کےلئے ایک مستند علمائے کرام کی ٹیم متفقہ طور پر کسی نتیجے پر جب پہنچے تو ان کی رائے مقدم رہے گی ۔
اب ہم کشمیر میں جاری عسکری دور کی بات کریں گے جس کو پاکستان کی جانب سے بھارت کے خلاف جہاد قراردیتے ہوئے اپنے عزائم کو پائے تکمیل تک پہنچانے کی سعی کی تھی ۔ کیا واقعی میں یہ جہاد ہے جو اسلامی نظام کی خاطر ایک مقدس لڑائی ہوتی ہے یا پھر پاکستان یہاں کے نوجوانوں کو اپنے مقصد کےلئے استعمال کرتا ہے ۔ ہمیں پہلے یہ دیکھنا چاہیے کہ کیا ہندوستان کی تقسیم اسلامی تھی؟ کیا کوئی ہے جو یہ کہنے کی جرات کرے کہ ملک کی خونی تقسیم اسلامی تھی کیونکہ دنیا بھر کے مسلمانوں اور ان کی علمی نمائندگیوں نے ریاست کی تقسیم کے خیال کی تائید کی تھی؟ ممتاز مسلم اسکالر جیسے مولوی حسین احمد مدنی۔ ابوالکلام آزاد، عبدالمجید دریابادی، مولانا حسرت موہانی اور یہاں تک کہ مولانا مودودی بھی تقسیم کے خلاف تھے۔ اگر یہ نظریہ اسلام کی روح میں جڑا ہوتا تو یہ علمائے کرام اس پر کوئی دوسرا سوچے بغیر بھی اس کی حمایت کر سکتے تھے ۔دو قومی نظریہ، جس کا خونی پنجہ پاکستان کا تھایہ ہندوستان کے مسلم جاگیرداروں کی سیاسی تحریک تھی جو انڈین نیشنل کانگریس پارٹی کے سوشلسٹ سیاسی نظریے میں ان کی جاگیرداری کو خطرے میں پڑتے دیکھ کر، پاکستان کا نظریہ، ہندوستان کے مسلمانوں کے لیے ایک “وطن”، اپنی جاگیریں محفوظ کرنے کے لیے مسلم جاگیرداروں کا سیاسی دماغ کاحربہ تھا۔اس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ لیکن اسے اسلام کے نام پر عمل میں لایا گیا تاکہ بڑے پیمانے پر مسلمانوں کو بیدار کیا جا سکے۔ ورنہ حقیقت یہ ہے کہ خیال غیر اسلامی ہے۔ اسلام میں وطن کا کوئی تصور نہیں۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمام زمین کو میرے لیے مسجد بنایا ہے اس لیے مسلمان جہاں چاہے نماز پڑھ سکتا ہے۔
قومی نظریہ کو غیر اسلامی اور سیاسی طور پر ناقص سمجھتے ہوئے کشمیری مسلم قیادت اور عوام نے بھارت کے ساتھ الحاق کی حمایت کی۔ پاکستان کے ساتھ الحاق کوئی اسلامی فرض سیاسی کام نہیں تھا جسے کشمیری مسلمانوں کو کسی بھی قیمت پر انجام دینے کی ضرورت تھی۔ ورنہ وہ اپنا ایمان کھو بیٹھیں گے۔ یہ ہمارا مذہبی مسئلہ نہیں تھا بلکہ سیاسی معاملہ تھاجسے ہماری قیادت نے ہندوستان کے تسلط کا انتخاب کرکے حل کیا۔ پاکستان اب ایس ایک ریاست ہے جہاں مسلمان اکثریت میں ہیں جیسے ایران، ترکی مصر وغیرہ ہیں اسی طرح اس کا نام پاکستان ہے اس کے مختلف کردار کی وضاحت نہیں کرتا جو ہمیں مذہبی طور پر اس کے ساتھ الحاق کا پابند بناتا ہے۔ حال اور ماضی قریب کے نامور مسلم اسکالرز نے کشمیر میں مسلح جدوجہد کو جہاد کے نام سے پروپیگنڈہ کرنے کی تردید اور مذمت کی ہے ان میں مرحوم ڈاکٹر اسرار،ڈاکٹر نائیک، ڈاکٹر طاہر القادری اور مرحوم وحیدالدین خان نے کشمیر میں بھارت کے خلاف جاری مسلح تصادم کی مذمت کی ہے۔ عوامی مقامات پر دستی بم پھینکنا اور خودکش دھماکے اسلام کی تعلیمات نہیں ہیں۔ یہ سب شیطانی کارنامے ہیں۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ کیونکہ اسلام کی تعلیمات کے مطابق ایک بے گناہ کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے۔ کیا کوئی ایسی مثال پیش کر سکتا ہے جو اسلام کے دور نبوی سے کسی شخص کے اغوا کو ثابت کرے؟
حقیقت یہ ہے کہ علیحدگی پسند نظریات کے حامل کچھ مقامی سیاست دانوں نے پاکستان کی آئی ایس آئی کی مالی معاونت سے قرآنی آیات کی غلط تشریح کی اور نوجوانوں کو ریاست کے خلاف ہتھیار اٹھانے پر اکسایا جب کہ حقیقت یہ ہے کہ کسی مسلم ملک نے کھل کر بھارت کے خلاف مسلح جدوجہد کی حمایت نہیں کی اور نہ ہی مسلم علماءنے اس کی حمایت کی۔ یہ اگر یہ جدوجہد جہاد ہوتی تو مسلم علماءاور مسلم ریاستیں اس کی تائید و حمایت کرتیں۔ پاکستان ایک اسلامی ریاست نہیں ہے جس کی سربراہی ایک خلیفہ کرتا ہے جو دنیا کے تمام مسلم ممالک کی نمائندگی کرتا ہے۔ اگر ہم فرض کریں کہ پاکستان ایک اسلامی ریاست ہے تمام مسلم ممالک اسلامی ریاستیں ہیں، اور ان کے سربراہان امت کی نمائندگی کرنے والے خلیفہ کے حقدار ہیں۔ لیکن یہ حقیقت نہیں ہے! لہٰذا کشمیر میں مسلح جدوجہد غیر اسلامی ہے اور یہ ایک قبیح فعل ہے جس کا ارتکاب پاکستان کی طرف سے کیا جاتا ہے ۔ہم کشمیریوں کو ان تمام غلط تشریح شدہ نظریات سے غیر معمولی طور پر محتاط رہنے کی ضرورت ہے جو ہمارے نوجوانوں کو گمراہ کر کے انہیں بنیاد پرستی کی طرف لے جائیں گے۔اسلئے ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنے نوجوانوں کو اس غلط فہمی سے نکالیں اور انہیں صحیح رہنمائی کرتے ہوئے صحیح دین کی تعلیم فراہم کرنے کی کوشش کریں تاکہ وہ امن وسلامتی کے ساتھ اپنی زندگی گزارتے ہوئے دنیا و آخرت میں کامیاب رہیں۔
International Day Of Happiness: Joy In J&K, Despair In Pok
As the world comes together on March 20 to mark the International Day of Happiness, the contrast between the two...
Read more