حال ہی میں جنوبی کشمیر کے ضلع اننت ناگ میں پاکستانی ایجنسیوں کی ایماءپر ایک بزدلانہ کارروائی میں دہشت گردوں کے ہاتھوں فوج اور پولیس کے کئی اعلیٰ افسران جاں بحق ہوئے جس سے یہ بات صاف ظاہر ہورہی ہے کہ اس کارروائی کے پیچھے براہ راست پاکستان کی خفیہ ایجنسی کا ہاتھ ہے اور اس کےلئے انہوںنے ٹی آر ایف نامی ملیٹنٹ تنظیم کے ملیٹنٹوں کااستعمال کیا ہے ۔ یہ بات عیاں ہے کہ ”ٹی آر ایف “کا مقصد جموں کشمیر خاص کر وادی کشمیر میں امن و امان کو نقصان پہنچانا ہے اور سرکار اور فوج کی اُن کاوشوں کو سبوتاز کرنا ہے جس کی وجہ سے آج وادی کشمیر میں امن اور تعمیر و ترقی کا دور چل رہا ہے ۔ اگر ہم اس دہشت گرد تنظیم ٹی آر ایف کے وجود میں آنے کے پس منظر میں جائیں گے تو یہ بات صاف ہوتی ہے کہ ”آئی ایس آئی “ نے اس جماعت کو بھارت کے خلاف کھڑا کررکھا ہے ۔
اس کا وجود کیوں اور کیسے عمل میں لایا گیا ۔
عالمی سطح پر پاکستان کو دہشت گردی کے مرکز کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ یہ جنوبی اور مغربی ایشیا کے خطے میں مختلف دہشت گرد تنظیموں کی سرگرم حمایت کی وجہ سے تھا کہ پاکستان کو پہلی بار 2008 میں ایف اے ٹی ایف کی ”گرے “لسٹ میں رکھا گیا تھا۔ تب سے یہ ”گرے “لسٹ میں ہے۔ گرے لسٹنگ کے ذریعے ایف اے ٹی ایف نے پاکستان پر دہشت گردی کی مالی معاونت پر صفائی دینے کے لیے زبردست دباو¿ ڈالا تھا۔ پہلا بڑا جھٹکا 8 مارچ 2019 کو پاکستان کو اُس وقت آیاجب ایف اے ٹی ایف نے داعش، القاعدہ، جماعت الدعوة،فلاح انسانیت فاو¿نڈیشن، لشکر طیبہ ،جیشِ محمد ،حقانی نیٹ ورک اور طالبان کے ساتھ وابستہ افراد کی سرپرستی کےلئے موردالزام ٹھہرایا گیا تھا۔ایف اے ٹی ایف نے حکومت پاکستان کو ان دہشت گرد تنظیموں کے خلاف ٹھوس کارروائی کرنے یا ”گرے “لسٹ میں شامل رہنے کا الٹی میٹم دیا۔ تقریباً ایک دہائی تک ”گرے “لسٹ میں رہنے کی وجہ سے پاکستان کی معیشت پر پہلے ہی اثر پڑا تھا اور اس لیے یہ اس بات کا متحمل نہیں ہو سکتا تھا کہ وہ لشکر طیبہ اور دیگر دہشت گرد گروہوں کی مدد کرتا نظر آئے۔ اس لیے فنڈنگ اور سپورٹ کو چھپانے کے لیے پاکستانی مشینری کو ایک محاذ کی ضرورت تھی۔آخرکار موقع اگست 2019 میں آیا جب ہندوستان نے جموں و کشمیر کو خصوصی درجہ دینے والے آرٹیکل 370 کو منسوخ کرنے کا اعلان کیا۔ یہ وہ لمحہ تھا جب ٹی آر ایف ایک آن لائن ادارے کے طور پر وجود میں آیا جس نے خود کو مقامی تحریک کے طور پر ظاہر کرلیا۔ اس کے بعدپاکستان آرمی اور آئی ایس آئی کے فعال تعاون سے لشکر طیبہ اور دیگر گروہوں کے مختلف دہشت گردوں کو ٹی آر ایف کے تحت ضم کر دیا گیا۔ٹی آر ایف نے دعویٰ کیا ہے کہ کوکرناگ کے جنگلاتی علاقے میں دہشت گردی کا واقعہ محمد ریاض کے قتل کے خلاف انتقامی کارروائی تھی۔ محمد ریاض عرف ابو قاسم کشمیری لشکر طیبہ کا کمانڈر تھا جسے حال ہی میں پاکستان کے زیر قبضہ کشمیر کے راولکوٹ میں نامعلوم مسلح افراد نے گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا۔ پاکستان کی فوج آئی ایس آئی کے ساتھ مل کر بھارت کے خلاف پراکسی دہشت گرد گروپ کی پرورش کر رہی ہے اور ٹی آر ایف دہشت گرد تنظیموں کو فعال رکھنے کےلئے ہر تعاون فراہم کیا جارہا ہے جس میںاسلحہ اور فنڈنگ شامل ہے ۔
2019 میںٹی آر ایف کے علاوہ پیپلز اینٹی فاشسٹ فرنٹ ایف اے ٹی ایف کے نام سے ایک اور پراکسی دہشت گرد گروپ بھی پراکسی کے طور پر وجود میں آیا۔ پی اے ایف ایف وہی دہشت گرد گروہ ہے جس نے بالترتیب 20 اپریل اور 5 مئی کو پونچھ اور راجوری میں ہندوستانی فوج پر ہونے والے دو دہشت گردانہ حملوں کی ذمہ داری قبول کی تھی۔ پاکستان کی فوج اور آئی ایس آئی، جیسے کشمیر فریڈم فائٹرز اور غزنوی فورس کا قیام عمل میں لایا گیا تھا ۔ ان تمام پراکسی گروپس کو بھارت کے خلاف دہشت گرد گروپوں کی مالی اعانت اور حمایت کو چھپانے کے مقصد کے ساتھ بنایا گیا تھا جبکہ ساتھ ہی ایف اے ٹی ایف جیسی انسداد دہشت گردی کی فنڈنگ کرنے والی تنظیموں کی جانچ پڑتال سے بچنا تھا۔اور ظاہر کیا جارہا ہے کہ یہ مقامی سطح کی مزاحمت ہے اور یہ آزادی کی تحریک چلارہے ہیں ۔ ان دہشت گروپوں کو مقامی شناخت دینے کےلئے مقامی نام دیئے گئے تاکہ بین الاقوامی برادری کی نظروں میں یہ مقامی مزاحمتی گروپ پیش ہوسکیں ۔
ان دہشت گروپوں نے اپنی سرگرمیوں کےلئے سوشل میڈیا پلیٹ فارموں کا استعمال کرنا شروع کیا اور اسی کے ذریعے یہ اپنی تشہیر کیا کرتے ہیں۔ ان تمام پراکسی دہشت گرد گروہوں نے اپنے منسلک سوشل میڈیا اکاو¿نٹس بنا رکھے ہیں جن کا استعمال وہ اپنے پروپیگنڈے کو پھیلانے اور کسی بھی دہشت گردی کے واقعات کا دعویٰ کرتے ہیں۔ یہ سوشل میڈیا اکاو¿نٹس بڑے پیمانے پر بھارت مخالف ایجنڈے کا پرچار کرنے اور غیر مقامی،سیاسی کارکنوں،سیکیورٹی فورس کے ہمدردوں کو دھمکی دینے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔
پچھلے سال پراکسی گروپس کی طرف سے 56 سے زیادہ دھمکیاں جاری کی گئیں۔ زیادہ سے زیادہ دھمکیاں وادی کشمیر کی آبادیاتی تبدیلی اور کشمیری پنڈتوں کی بحالی کے خلاف تھیں۔ اس کے بعد سیکورٹی فورسز کے لیے کام کرنے والے شہریوں، حکومت کے حامی صحافیوں، جموں کشمیر پولیس کے اہلکاروں اور وادی میں کام کرنے والے غیر مقامی افراد کو دھمکیاں دی گئیں۔
جیسے کہ عرض کیا جاچکا ہے کہ سوشل میڈیا پلیٹ فارموں کے استعمال سے یہ لوگ مالی تعاون ، عوامی حمایت ، نوجوانوں کی دہشت گرد گروپوں میں بھرتی کےلئے کرتے ہیں تاہم پاکستان میں شدید اقتصادی بحران اور ہندوستانی مسلح افواج کی سرحدوں پر سخت نگرانی کے پیش نظر، ان دہشت گرد گروپوں کی فنڈنگ گزشتہ چند سالوں میں کافی متاثر ہوئی ہے۔اس کے علاوہ ان پرایکسی گروپوں کے ذریعے نفسیاتی جنگ بھی چلائی جارہی ہے یہ پراکسی دہشت گرد گروہ اپنے پاکستانی انٹیلی جنس ہینڈلرز کے کہنے پر نفسیاتی کارروائیاں کرنے میں ملوث ہیں۔ وہ جموں و کشمیر کے نوجوانوں کو اپنی صفوں میں شامل کرنے کے لیے اس کا استعمال کرتے ہیں۔ کوکرناگ واقعہ کے دوران اس کی ایک بہترین مثال سامنے آئی۔جب ٹی آر ایف نے دعویٰ کیا تھا کہ کوکر ناگ انکاونٹر دراصل گھات لگا کر کیا گیا حملہ تھا جبکہ صورتحال مختلف تھی ۔ پولیس اور فوج کو خفیہ اطلاع ملی تھی کہ اس علاقے میں ملیٹنٹ چھپے بیٹھے ہیں جس کے بعد 12اور 13ستمبر کی درمیانی رات کو جموں کشمیر پولیس بھارتی فوج اور فورسز نے وسیع علاقے کو محاصرے میں لیکر جنگجومخالف آپریشن شروع کیا گیا اور گڈول گاﺅں کی باریک بینی سے تلاشی لی گئی ۔تلاشی کے دوران حاصل ہونے والی مزید لیڈز کی بنیاد پریہ معلوم ہوا کہ دہشت گرد گاو¿ں کے اوپر اونچی جگہوں پر ایک خفیہ ٹھکانے میں تھے جو گھنے درختوںسے ڈھکا ہوا تھا۔ دشوار گزار علاقے اور منظر کے واضح میدان کی کمی کے پیش نظرتلاش کو رات کے وقت عارضی طور پر روک دیا گیا تھا اور اگلے دن دن کی روشنی میں دوبارہ شروع کیا گیا تھا۔ کمپنی کمانڈر اور ڈی وائی ایس پی کے ساتھ کرنل منپریت سنگھ، ایس ایم کی طرف سے اونچی جگہوں تک متعدد تلاشی کالموں کی قیادت کی جا رہی تھی۔ ناہموار علاقوں سے گزرنا پڑا جس میں گھنے درخت اور حد نگاہ کم تھی ۔ایسے خطوں نے دہشت گردوں کو زمینی اور فضائی مشاہدے سے بھی قدرتی احاطہ فراہم کیا، وہ پہلے سے تیار شدہ ٹھکانوں میں چھپے ہوئے تھے۔ بالائی علاقوں میں واقع ہونے کی وجہ سے دہشت گرد کو تلاشی ٹیم پر ایک اضافی فائدہ ملا تھا۔ 13 ستمبر کو تقریباً بارہ بجے یہ ٹیم شدید آگ کی زد میں آئے۔ تلاشی مہم پر معمور ٹیم نے جوابی کارروائی کی لیکن اس کے بعد ہونے والی فائر فائٹ کرنل سنگھ، میجر دھونچک اور ڈی ایس پی ہمایوں کو گولی لگنے سے زخم ہوئے اور بعد میں وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسے۔یہ آپریشن 12اور 13ستمبر کی رات کو شروع کیا گیا تھا اور ابتدائی طور پر وہاں چھپے جنگجوﺅں کی جانب سے کوئی مزاحمت نہیں ہوئی تھی اور جیسے ہی آپریشن دوبارہ شروع ہوا تو وہاں سے فائرنگ شروع کی گئی جس میں فوجی آفیسر اور پولیس آفیسر کی ہلاکت میڈیا کے سامنے آئی جس کافائدہ اُٹھاتے ہوئے ٹی آر ایف نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کرلی ۔اور اس طرح سے اس کارروائی کو محمد ریاض روالا کوٹ کا بدلہ لینے کی کارروائی قراردی گئی اور سوشل میڈیا پر یہ خبر پھیل گئی ۔ اس طرح سے اگر ہم دیکھیں تو سوشل میڈیا کے ذریعے اس کارروائی کو ٹی آر ایف کے ہینڈلروں نے اپنے کھاتے میںڈلا۔ جبکہ زمینی صورتحال اس کے برعکس تھی ۔ اس کارروائی کے دوران 15ستمبر کو بھارتی فوج نے کئی طرح کے انٹلیجنس شروع کی اور ان میں سے ایک دہشت گرد کو ہلاک کردیا تاہم اس کے باوجود بھی ٹی آر ایف نے سوشل میڈیا پر اس بات کا دعویٰ کیا کہ اس کارروائی میں لشکر طیبہ کے کمانڈر عزیز خان بحفاظت اپنے ٹھکانے پر پہنچ گئے ۔ لیکن اس معاملے کو صاف کرنے اور ٹی آر ایف کے پروپگنڈا کو جھوٹ قرار دیتے ہوئے 15 ستمبر کی شام کو اے ڈی جی پی کشمیر نے اپنی پریس بریف میں اور اس کے بعد اپنے آفیشل سوشل میڈیا ہینڈلز پر ریٹائرڈ پولیس اور آرمی افسران سے مطالبہ کیا کہ وہ “گھات لگا کر حملے کی قیاس آرائی” کا پرچار کرنے سے گریز کریں۔ انہوں نے واضح طور پر واضح کیا کہ یہ ان پٹ پر مبنی آپریشنز تھے۔جس میں مکمل طور پر ایک حکمت عملی اور لائحہ عمل ترتیب دیکر جنگجو مخالف آپریشن شروع کیا گیا تھا اور گھنے جنگل کی وجہ سے فوج اور پولیس کو نقصان اُٹھانا پڑا تھا ۔ مجموعی طور پر یہاںیہ بات کہنی غرض ہے کہ پاکستان اور اس کی ایجنسیوں کی جانب سے بھارت کے خلاف پراکسی جنگ برابر جاری ہے اور اس کےلئے نئے نئے ناموں سے دہشت گرد تنظیموں کو آگے لایا جارہا ہے اور پروپگنڈا کےلئے سوشل میڈیا کا استعمال کیاجارہا ہے۔
Operation Searchlight: Pakistan Army’s planning and execution
54 years ago, Dacca (now Dhaka) witnessed its darkest historical event at midnight of 25 March. In a surprise move,...
Read more