پاکستان نہ صرف بلوچستان میں عوامی آواز کو دبا رہا ہے اور بلوچ شہریوںکو سیاسی اور انسانی حقوق سے محروم رکھا جارہا ہے بلکہ جموں کشمیر کے خطے گلگت بلتستان میں بھی یہی پالیسی جاری رکھے ہوئے ہیں ۔ گلگت بلتستان کا علاقہ جموں کشمیر کا ہی حصہ ہے جس پر پاکستان کی جانب سے جبری قبضہ ہے ۔ پاکستان اور اس کی ملٹری ایجنسیز نے اس خطے میں ڈیموگرافی کو تبدیل کرنے کی جو عمل جاری رکھے ہیں اس کے خلاف مقامی لوگوں کی جانب سے اُٹھنے والی آواز کو بزور طاقت دبایا جارہا ہے ۔ یہ خطہ شیہ آبادی والا علاقہ ہے جہاں پر پاکستانی پنچابی اوردیگر علاقوں کے لوگوں کو آکر بسایا جارہا ہے تاکہ اس گلگت بلتستان کی ہیت تبدیل ہوسکے ۔ میڈیا رپورٹس پر اگر یقین کیا جائے تو اس خطے کے لوگ پاکستان کی ان پالیسیوں کےخلاف سراپا احتجاج بنے ہوئے ہیں تاہم ان کی آواز کو دبانے کی ہر ممکن کوشش کی جارہی ہے۔ ایک طرف یہاں کے لوگوں کو سیاسی حقوق سے محروم رکھا گیا ہے دوسری طرف پاکستان یہاںکے قدرتی وسائل کو اپنے لئے بروے کار لارہا ہے اور لوگوں کو فوج کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے ۔ نٹرنیشنل فورم فار رائٹس اینڈ سیکیورٹی کی 2022 کی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبہ (سی پی ای سی )چینی صدر شی جن پنگ کا منصوبہ جس نے پہلے ہی پاکستان کو معاشی تباہی کی طرف دھکیل دیا ہے اور اس منصوبے کے تحت گلگت بلتستان کے اہم علاقوں پر پروجیکٹ چلائے جارہے ہیں۔ گلگت بلتستان کے رہائشیوں کے ذریعہ معاش، خطے میں احتجاج کی حالیہ لہروں کو جنم دے رہا ہے۔ رپورٹ میں روشنی ڈالی گئی کہ جہاں بیجنگ اور اسلام آباد سی پی ای سی کے بہانے معدنیات سے مالا مال وسائل کا استحصال جاری رکھے ہوئے ہیں، اسی طرح مقامی لوگوں کی روزی روٹی اور ماحولیاتی استحکام کو نقصان پہنچا ہے۔ان ذخائر سے اگرچہ پاکستان اور چین دونوں ممالک فائدہ اُٹھارہے ہیں لیکن مقامی لوگوں خاص کر نوجوانوں کو روزگار فراہم کرنے کےلئے کوئی بھی اقدام نہیں اُٹھایا جاتا ۔ سوشل میڈیا ان ویڈیوز سے بھرا ہوا ہے جس میں اس معاشی استحصال، زمینوں پر قبضے اور جی بی کو پسماندہ رکھنے کی دانستہ پالیسی کے خلاف پورے خطے میں ہونے والے مظاہروں کا ایک سلسلہ دکھایا گیا ہے اور اسے طویل عرصے سے زیر التواءمعاشی اور سیاسی حقوق سے انکار کیا گیا ہے۔ اسکردو اور دیگر علاقوں میں حالیہ مظاہروں میں شدت آگئی ہے کیونکہ فرقہ وارانہ جھگڑے ایک سنی عالم کے شیعہ عالم اور کمیونٹی کے خلاف توہین آمیز ریمارکس کے نتیجے میں ہوئے ہیں۔ رپورٹوں میں کہا گیا ہے کہ مایوس اور مظلوم مقامی لوگ سابقہ ریاست جموں و کشمیر کے ساتھ دوبارہ اتحاد کے خواہاں ہیں کیوں کہ پاکستان نے انہیں ہر لحاظ سے نظر انداز کررکھا ہے ۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ پاکستان نے 1947 میں اپنی تخلیق کے بعد سے اس جغرافیائی طور پر اہم خطے پر زبردستی بزور طاقت حکمرانی کی ہے کیونکہ اس نے اسلام آباد کو ایک اسٹریٹجک فائدہ دیا ہے کیونکہ خطے کی سرحدیں افغانستان اور چین کے سنکیانگ صوبے سے ملتی ہیں۔ یہ جغرافیائی اہمیت مقامی لوگوں کے لیے پوری تاریخ میں ایک عذاب بن گئی ہے، جیسا کہ 1947 سے پہلے کے دور میں گلگت کے شمالی حصے کو لیز پر دینے کے برطانوی فیصلے سے ظاہر ہوتا ہے۔ پاکستان اور چین نے اس خطے کے ذریعے قراقرم ہائی وے کی تعمیر کی ہے جس نے بیجنگ اور اسلام آباد کے درمیان اسٹریٹجک تعلقات کو مضبوط کیا ہے، خاص طور پر چین پاکستان اقتصادی راہداری جن پنگ کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو کا ایک اہم کاریڈور ہے۔ 1947 کے اہم واقعات، جو گلگت ایجنسی بغاوت کے مظہر ہیں، نے گلگت بلتستان کو اٹل طور پر پاکستان سے جوڑ دیا۔ تب سے یہ خطہ کشمیر کے وسیع تر تنازعے کا مرکز رہا ہے۔ تاہم ابھرتے ہوئے جغرافیائی سیاسی منظر نامے میںجس کی نشاندہی گلگت بلتستان میں چین کی بڑھتی ہوئی موجودگی سے ہوئی ہے ہندوستان خود کو اپنی پوزیشن کا از سر نو جائزہ لینے اور ان رونما ہونے والی پیشرفتوں کی احتیاط سے نگرانی کرنے پر مجبور ہے۔ جنوبی ایشیا کی وسیع تر جغرافیائی سیاسی حرکیات کے اندر ایک مرکزی نقطہ کے طور پر خطے کی اہمیت کا ارتقا جاری ہے۔یہ خطہ اگر پھر سے جموں کشمیر کا حصہ بنتا ہے تو اس سے بھارت کو بھی جغرافیائی طور پر کافی فائدہ ہوگا جو جموں کشمیر کے تنظیم نو کے حوالے سے ایک ترقی کی راہ ہموار کرے گا۔
کیوں کہ گلگت بلتستان اور کشمیر کے مابین گہری ثقافتی اور تہذیبی جڑیں پیوست ہیں ۔ وادی کشمیر میں گنپت یار ، شنکر آچاریہ اور کھیر بھوانی جیسے تواریخی مذہبی مقامات کی اس تاریخی بندھن کی گواہی دیتی ہے ۔ شہنشاہ اشوک کا تیسری صدی قبل مسیح میں بدھ مت کا تعارف اور کشمیر میں مہایانا سکول آف بدھ ازم کی ابتداءپہلی صدی عیسوی میں کنشک کے دور حکومت میں اپنے عروج پر پہنچنے والے اہم تاریخی سنگ میل ہیں۔ شہنشاہ للیتادتیہ کے تحت کشمیر کا سنہری دور، ہندو کرکوٹا سلطنت کا عروج، اور کشمیری شیو مت کا پھلنا پھولنا بھی قابل ذکر باب ہیں۔ 14ویں صدی میں اسلام کے بتدریج پھیلاو¿ نے ایک ہم آہنگ صوفی-رشی روایت کو جنم دیا جسے کشمیریت کہا جاتا ہے، جس کی شکل شیخ نورالدین نورانی جیسی شخصیات نے بنائی، جسے نند رشی بھی کہا جاتا ہے۔ واقعی اس خطے کی تاریخ متنوع ثقافتی اور روحانی اثرات کا ایک دلکش امتزاج ہے۔ جموں کشمیر نہ صرف ایک زمین کا ٹکڑا ہے بلکہ یہ ایک تہذیب اور ثقافت کی بھر پور داستان بھی ہے ۔ جموں و کشمیر کے اندر تمام خطے بشمول گلگت بلتستان، کشمیر کی سلطنت کے اٹوٹ انگ رہے ہیں۔ یہ باہم جڑے ہوئے ثقافتی، سماجی اور سیاسی بندھن، بین اور بین علاقائی دونوں، ان کے درمیان گہرے جڑوں والے روابط کو واضح کرتے ہیں۔ یہ تاریخی تمام تعلقات موجودہ پاکستان کے زیر قبضہ جموں و کشمیر بشمول گلگت بلتستان، اور گریٹر جموں و کشمیر کے وسیع تر ٹیپسٹری کے درمیان غیر مربوط رابطے کی تصدیق کرتے ہیں۔گلگت بلتستان پر بھارت کا موقف اس یقین پر پختہ ہے کہ اس کا مسلسل قبضہ غیر قانونی ہے۔ 1994 میں ہندوستانی پارلیمنٹ میں ایک قرارداد نے جموں و کشمیر کے اندر گلگت بلتستان اور پاکستان کے زیر قبضہ کشمیر دونوں کی اٹوٹ حیثیت کی توثیق کی۔ہندوستانی سرزمین سے ان کے لازم و ملزوم تعلق پر زور دیا۔ یہ موقف طویل عرصے سے پاکستان اور بھارت کے درمیان تنازعہ کا شکار رہا ہے۔ اس کے علاوہ بھارت کو چین اور پاکستان کے بڑھتے ہوئے تعلقات کے بارے میں جائز تحفظات ہیں، خاص طور پر گلگت بلتستان کے تناظر میں۔ جیو پولیٹکس کے ماہرین کے مطابق پاکستان کی طرف سے 1963 میں گلگت بلتستان کے بعض علاقوں کو چین کے حوالے کر دیا گیا، جس کے نتیجے میں بنیادی ڈھانچے کی ترقی، بشمول چینی منصوبے نے نئی دہلی کے خدشات کو مزید بڑھا دیا ہے، جس کے پیش نظر یہ بھارت کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کے لیے ایک چیلنج ہیں۔ ہندوستان کے وسیع تر خدشات سے زیادہ، مقامی لوگوں پر پاکستان کی منظم امتیازی پالیسیوں کے تباہ کن اثرات لوگوں کی صورتحال کو کم کرنے کے لیے نئی دہلی کی قیادت میں بین الاقوامی برادری کی جانب سے ٹھوس کوششوں کی ضمانت دیتا ہے۔
اگر ہم ماضی کے دریچوںکو کھول کر تاریخ پر سرسری نظر دوڑائیں گے تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ گلگت بلتستان اور کشمیر کا ایک حصہ اسلام آباد کے میکیولین اور برطانوی غداری کی مدد سے چلنے والی فوجی سازشوں کی وجہ سے پاکستان کے ہاتھ میں چلا گیا۔ یاد رہے کہ یہ خطہ انگریزوں نے لیز پر دیا تھا اور گلگت سکاو¿ٹس فورس نے اسے محفوظ کیا تھا۔ انگریزوں نے 1947 میں لیز ختم کرنے کے بعد انہوں نے اس کے دو افسروں میجر ڈبلیو اے براو¿ن اور کیپٹن اے ایس میتھیسن کو مہاراجہ ہری سنگھ کو اس وقت تک اس خطے کے دفاع کی نگرانی کرنے کے لیے قرض دیا جب تک کہ کوئی متبادل انتظام نہ کیا جائے۔ تاہم جیسا کہ ہری سنگھ نے 26 اکتوبر 1947 کو ہندوستان سے الحاق کے دستاویز پر دستخط کیے، میجر براو¿ن نے بغاوت کی اور گلگت بلتستان کے گورنر بریگیڈیئر گھنسارا سنگھ کو حراست میں لے لیا۔ اس کے بعد میجر براو¿ن نے پشاور میں تعینات اپنے سابق برطانوی اعلیٰ افسر کو پاکستان سے الحاق کے اپنے فیصلے سے آگاہ کیا۔ اس طرح یہ خطہ پاکستان کے غیر قانونی قبضے کے تحت رہا۔پاکستان کا اس خطے پر قبضہ اقوام متحدہ کی متعدد قراردادوں کی سراسر خلاف ورزی ہے 28اپریل 1949میں اقوام متحدہ ایک قرارداد پاس کی گئی جسمیں یو این سی آئی پی نے اس خطے سے پاکستانی فوج کے انخلاءکو طالبہ کیا تھا تاہم اسلام آباد نے رضامندی ظاہر کرنے کے باجود بھی اب تک اس خطے سے فوج کو نہیں نکالا۔گلگت بلتستان کے جموں و کشمیر کے ساتھ دوبارہ اتحاد کا معاملہ، جیسا کہ مقامی لوگوں کا ایک بڑا حصہ اکثر آوازیں اٹھاتا ہ اس خطے کے سابقہ شاہی ریاست کے ساتھ تاریخی تعلقات اور وسیع تر خودمختاری کے ساتھ سیاسی حیثیت کو اس کے حصے کے طور پر تسلیم کیا گیا ہے۔ اسلئے اقوام عالم خاص طو رپر بھارت کو چاہئے کہ وہ اس خطے کو جموں کشمیر کی سابق ریاست کے حصے طور پر پھر سے جموں کشمیر سے ملانے کےلئے اقدامات اُٹھائیں ۔ اس کے علاوہ اقوام عالم کو چاہئے کہ وہ اس خطے میں عام لوگوں پر کئے جارہے مظالم کو روکنے کےلئے اقدامات اُٹھانے چاہئے اور پاکستان اور اس کی فوج کو انسانی خلاف ورزیوں کےلئے جوابدہ بنایا جانا چاہئے ۔
پاکستان کشمیر میں بھارت کے خلاف درپردہ جنگ جاری رکھے ہوئے ہیں
حال ہی میں جنوبی کشمیر کے ضلع اننت ناگ میں پاکستانی ایجنسیوں کی ایماءپر ایک بزدلانہ کارروائی میں دہشت گردوں...
Read more