پاکستان کی تاریخ پر اگر ہم نظر ڈالتے ہیں تو گزشتہ 76برسوں میں پاکستان کسی بھی ایسے شخص یا لیڈر کو قومی اعزاز سے نوازا نہیں گیا سیاسی لیڈران ، سماجی کارکنوں ، حقوق انسانی کے کارکنوں کی بات کریں یا فوجی سربراہوں کی بات ہو کسی کو بھی وہ وقار حاصل نہیں ہوا جس سے پاکستان ایک مہذہب قوم دکھے ۔ پاکستان کے وجود میں آنے کے ساتھ ہی یہ ملک سیاسی خلفشاری اور انتشار کا شکار ہے جس کے نتیجے میں وہاں پر عام انسان ہر طرح کی سہولیات اور جدید سہولیات سے محروم رہ چکا ہے جبکہ گزشتہ سات دہائیوں میں سیاسی حریفوں کے ہاتھوں سیاسی لیڈران کے قتل ، گرفتاریاں اور ہنگامی آرائی آج بھی جاری ہے ۔ پاکستان کی تاریخ 1947 میں ملک کے قیام سے لے کر اب تک سیاسی رہنماو¿ں کے متعدد قتلوں سے ہنگامہ خیز رہی ہے۔ فائرنگ اور دہشت گردانہ حملے سات دہائیوں سے زیادہ عرصے سے وقفے وقفے سے جاری ہیں اور کئی سیاستدانوں کی جانیں بھی لے چکے ہیں۔ایک سیاسی جماعت دوسری جماعتوں کے لیڈران خون کے پیاسے بن رہے ہیں ۔ ابتداء16جولائی 1951میں ہوئی جب پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کو رولپنڈی میں گولی مار کر ہلاک کردیا گیا تھا۔ تواریخی شواہد کے مطابق لیاقت علی خان کو راولپنڈی کے کمپنی گارڈن میں ایک عوامی جلسے کے دوران گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔ 1951 میں کمپنی گارڈن میں چلائی جانے والی گولیاںایک تاریخ بن گئی ۔ لیاقت علی خان کے قتل کے بعد اس باغ کیا نام لیاقت باغ رکھا گیا ۔پاکستان کے وجود میں آنے کے بعد یہ اس ملک میں کسی بڑے سیاسی لیڈر یا یوں کہیے کہ ملک کے سربراہ کا پہلا قتل تھا ۔ یہ اس ملک کے سربراہ کو ختم کرنے کی پہلی کوشش نہیں تھی یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے اور حال ہی میں پاکستان کے سابق وزیر اعظم عمران خان کو 04نومبر 2022میں ایک عوامی جلسے کے دوران جان لیواحملے کا سامان کرنا پڑا جس میں وہ زخمی ہوا ۔لیاقت خان سے لیکر عمران خان تک اگر ہم بات کریں متعدد لیڈران یا تو سولی پر چڑھائے گئے یا رشوت ، بدعنوانی اور بے ضابطگیوں کے الزام میں پابند سلاسل بنائے گئے کئی ایک کو ملک بدربھی کیاگیا ۔لیاقت علی خان سے شہباز شریف تک جتنے بھی وزیر اعظم آئے ان پر یا تو براہ راست کرپشن کے الزامات عائد کئے گئے یا ان کو بدعوانی کے کاموں میں ملوث پایا گیا ۔ اب اگر ہم یہاں پر پاکستان کے ایٹمی ہتھیاروں کے موجد ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی بات کریں تو ملک کی خدمت کے صلے میں انہیں پاکستان کے کسی قومی ایوارڈ سے نوازا جانا چاہئے تھا تاہم اس ملک کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے ڈاکٹر عبدالقدیر خان آخری دم تک اپنے ہی گھر میںنظر بند رکھے گئے ۔ ان کو کسی اعزاز سے نوازنا دور کی بات ان کو اپنے ہی ملک میں بے عزتی کی زندگی گزارنی پڑی ۔ اس طرح نوبل انعاف یافتہ ملالہ یوسف زئی جو آگ بھی جلا وطنی کی زندگی گزارر ہی ہے ۔ دوسری طرف اگر ہم اپنے ملک پر نظر ڈالیں گے تو یہاں پر ایٹمی توانائی کے موجد ڈاکٹر عبداکلام کو نہ صرف ملک کے سب سے بڑے اعزاز سے نوازا گیا بلکہ ان کو ملک کا صدر بھی بنایا گیا اور ان کی ہر برسی پر شاندار تریقے سے ان کے اعزاز میں تقاریب کا اہتمام کیا جاتا ہے ۔
اب اگر ہم پاکستان کے سیاسی حالات وواقعات کا تجزیہ کرتے ہیں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ سیاسی بد دیانتی ،اقتدار کی لالچ اور قومی سرمایہ کی لوٹ کھسوٹ کے ساتھ ساتھ 1947میں قیام پاکستان کےساتھ ہی اس ملک کے سربراہان کی داستان خون آلودہ ہے ۔ اس ملک کے لیڈران کو گولیوں کا شکار بنایاگیا۔ اپنے سیاسی حریفوں کی جانب سے سیاسی سربراہان کو سولی پر چڑھایا گیا یا قید خانے میں ڈال دیا گیا حتیٰ کہ کئی ایک کو جلاوطنی کی زندگی بھی گزارنی پڑی ہے ۔ اقتدار میں آنے والے کسی بھی پارٹی یا سربراہ نے مقررہ مدت تک حکمرانی نہیں کی بلکہ رشوت ستانی بد عنوانی کے الزامات کی بنیاد پر انہیں حکومت سے برطرف کردیا گیا ہے اور یہ تاریخی حقیقت ہے کہ پاکستان کے قریب سبھی سیاسی لیڈران کرپشن میں ملوث رہے ہیں ۔ پاکستان کی جمہوری حکمرانی کی تاریخ میں بدعنوانی ایک ناقابل تلافی جزو ثابت ہوئی ہے۔ بدعنوانی نے عام طور پر ملک کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے اور اس نے سماجی، اقتصادی اور سیاسی منظر نامے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ ضیاءالحق کے دور میں پاکستان کی طاقتور انٹیلی جنس ایجنسی انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے ذریعے انتخابات میں ہیرا پھیری کی گئی اور ان کی انتخابی مہم میں کروڑوں روپے لگائے گئے۔فوج اور خفیہ ایجنسی کا اس ملک کی جمہوریت پر خاصہ اثر دکھائی دیتا ہے جس حکمران کو یہ چاہتے ہیں سامنے لاتے ہیں اس کےلئے یہ کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں۔
اگر ہم نواز شریف کے دور اقتدار کی بات کریں گے تو 1999میں نواز شریف نے اُس وقت کے پاکستانی فوجی سربراہ جنرل مشرف کو فوجی کمان سے فارغ کرنے کی کوشش کی جس میں وہ ناکام ہوا اور فوجی بغاوت کے بعد نواز شریف کی حکومت کا پختہ اُلٹ دیا گیا ۔ اور اُس وقت کے وزیر اعظم کو معزول کرکے بدعنوانی، اغوا، قتل کی کوشش اور دہشت گردی کے الزامات میں عمر قید کی سزا سنائی گئی۔پرویز مشرف جب پاکستان کے صدر بنائے گئے تو ان کی مدت ختم ہونے سے قبل ہی سپریم کورٹ آف انڈیا نے انہیں بھی معزول کردیا اور ان پر سیاسی سرگرمیوں میں ملوث ہونے پر ان پر تاحیات پابندی عائد کر دی گئی۔ان واقعات نے پاکستانی سیاست دانوں کی خطرناک اور تاریخ سیاسی تاریخ میں ایک اور باب کااضافہ کردیا ۔
اسکے بعد پاکستان کے سابق وزیر اعظم اور صدر ذولفقار علی بھٹو کی صاحبزادی کا دور شروع ہونے کو ہی تھا کہ انہیںبھی سیاسی قتل کا شکار بنایا گیا ۔ حالانکہ بے نظیر بھٹو دو بار پاکستان کی حکمران رہی تھی۔ وہ ایک آزادخیال والی اور اکسفورڈ اور ہارووڈ یونیورسٹی کی فارغ طلبہ ہونے کی وجہ سے سخت جمہوریت پسند لیڈی تھی بے نظیر بھٹو نے ہمیشہ اپنے آپ کو محروموں، پسماندہ لوگوں کی سرپرست اور جمہوریت کی آزادی کے علمبردار کے طور پر پیش کیا ہے۔ لیکن بے ضابطگی اور بد عنوانیوں میں ان کا بھی نام سرخیوں میں رہا ہے ۔ موصوفہ وزیر اعظم کے طور پر اپنے دو دوروں کے دوران اس نے کروڑوں ڈالر کی دولت، اثاثے اور جائیدادیں حاصل کیں۔ ان کی پہلی حکومت کو 6 اگست 1990 کو صدر غلام اسحاق خان نے بدعنوانی کے الزامات کے بعد برطرف کر دیا تھا۔ بے نظیر بھٹو کا کرپٹ ماضی جنرل پرویز مشرف کے دور میں اس وقت عیاں ہوا جب ایک مخبر نے دستاویزات لیک کیں، لیک ہونے والے کاغذات دبئی اور جنیوا کے مختلف اکاو¿نٹس سے بینک اسٹیٹمنٹس پر مشتمل تھے۔بے نظیر بھٹو بھی پاکستان میں سیاسی استحکام قائم کرنے میں ناکام رہی تھی جس کی وجہ سے انہیںبھی پہلے جلا وطنی کی زندگی گزارنی پڑی تھی۔ پاکستان میں قومی لیڈران کے بے عزتی اور ان کو سزا کا سامنا کرنے کا معاملہ طویل ہے اس ملک میں آج تک کسی کو بھی قومی اعزاز سے نوازا نہیں گیا ہے کیوں کہ یہ ملک نہ تو جمہوری ملک ہے اور ناہی کوئی مہذہب ملک ہے اس ملک میں کرپشن ، مار دھاڑ ، افرا تفری اور اقربا ءپروری ہی دکھائی دیتے ہے ۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان سے لیکر ملالہ یوسف زئی تک جتنے بھی قومی ہیرو اس ملک میں پیدا ہوئے ہیں ان کو وہ اعزاز اور عزت نہیں ملی جس کے وہ حقدار تھے ۔
پاکستان کشمیر میں بھارت کے خلاف درپردہ جنگ جاری رکھے ہوئے ہیں
حال ہی میں جنوبی کشمیر کے ضلع اننت ناگ میں پاکستانی ایجنسیوں کی ایماءپر ایک بزدلانہ کارروائی میں دہشت گردوں...
Read more