Saturday, May 10, 2025
  • Contact
  • About us
  • Advertise
  • Careers
  • Privacy Policy
Gadyal Kashmir
  • Home
  • Kashmir
  • Jammu
  • World
  • National
  • Sports
  • Article
  • ePaper
No Result
View All Result
Gadyal Kashmir
Home Opinion Article

سفر نامہ عراق: کشمیر سے اجمیر اور اجمیر سے کربلا معلی١ اور نجف الاشرف تک

Gadyal Desk by Gadyal Desk
08/09/2023
A A
FacebookTwitterWhatsappTelegram

منظور ظہور شاہ جشتی

ڈایریکٹر و منیجنگ ایڈیٹر صوفی میڈیا سروسز

Related posts

‘Operation Sindoor’: Indian Armed Forces Hit 9 Terror Camps Across LOC

Operation Sindoor, India’s Masterful Strike Against Terror

09/05/2025
THE CALL OF THE MOUNTAINS NORTH KASHMIR’S NEW FRONTIERS FOR ADVENTURE SEEKERS

NAYA KASHMIR- EK KASHMIRI KE AANKHO SE

09/05/2025

اللہ تعالی کا بے شمار شکر ہے کہ اس نے مجھے اپنے حبیب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور خواجہ معین دین چشتی اجمیری رحمتہ اللہ تعالی علیہ کی عنایت سے ملک سے باہر عراقی سرزمین میں کربلا معلی اور نجف الاشرف جانے کا شرف بخشا۔ میں یہاں اپنے مرشدڈاکٹر (پروفیسر)سید لیاقت حسین معینی چشتی گدی نشین درگاہ خواجہ صاحب اجمیر شریف اور رفیق دوست مسلم سٹوڈنٹس ارگنائزیشن (ایم ایس او انڈیا) کے روح رواں جناب ڈاکٹر شجاعت علی قادری کا مشکور ہوں کہ ان کی کاوشوں سے ہی میرا دورہ عراق اور فلسطین سے متعلق ”الاقصی کی پکار“ کے عنوان سے دوسری انٹرنیشنل کانفرنس میں میری بھی شرکت یقینی بنی۔
26 اگست کی صبح پانچ بجے میں پرانی دلی میں واقع اپنی رہائش گاہ سے ایئرپورٹ کے لیے نکلا۔صبح ساڑھےدس بجے ہمیں قطر ایرویزکے لیے فلائٹ تھی۔ دلی انٹرنیشنل ایئرپورٹ کے ٹرمینل 3 پر ہی میری ملاقات اپنے تین دیگر ساتھیوں ڈاکٹر شجاعت علی قادری ان کے برادر اصغر اورسریندر سنگھ شجر سے ہوئی۔ ہماری فلائٹ دلی سے دوحہ قطر کے لیے اور قطر سے بغداد کے لیے تھی.بورڈ نگ پاس حاصل کرنے کے بعد ہماری امیگریشن ہوئی اور ایمگریشن افسر کے استفسار کرنے پر ہم نے بتایا کہ ہم لوگ ایک بین الاقوامی امن برادری کانفرنس میں شرکت کرنے کے لیے بغداد جا رہے ہیں جس کے بعد ٹھیک ساڑھے بجے ہمارے جہاز نے قطر کی راجدھانی کے لیے اڑان بھری۔چار گھنٹے کی مسافت کے بعد ہندوستانی وقت کے مطابق اڑھائی بجے اور قطر کے وقت کے مطابق 12بجے دوپہر ہمارے جہاز نے دوحہ کے امیر ترین شہر کے جدید ترین ائرپورٹ پر لینڈ کیا۔ چونکہ وہاں سے ہمیں قطر ایریز کی دوسری فلائٹ سے شام کے وقت بغداد کے لئے روانگی تھی اس لیے ہمیں ایئرپورٹ پر 8 گھنٹے کا وقت گزارنا پڑا۔دوحہ ایئرپورٹ پر ہمیں پاکستانی و فلسطینی شرکاءجن میں پاکستان جماعت اسلامی کے نائب امیر جناب لیاقت بلوچ صاحب اور فلسطین فاو¿نڈیشن پاکستان کے جنرل سیکرٹری ڈاکٹر صابر ایوب مریم شامل ہیں ، سے بھی ملاقات ہوئی۔ دوحہ ایئرپورٹ پر تقریبا 8 گھنٹے گزارنے کے دوران مجھے یہاں ہندوستانی، پاکستانی، بنگلہ دیشی اور سری لنکا کے علاوہ افریقی نوجوان کام کرتے نظر آئے معلوم ہوا یہاں مختلف اسٹالوں اور شوروموں میں بھی انہی ممالک کے لوگ کام کرتے ہیں ایئرپورٹ نہایت ہی وسیع وعریض رقبے پر پھیلا ہوا ہے اور نہایت ہی دلکش و پر فریب ہے اور دنیا بھر کی ائر لائنز یہاں پڑاو کرتی ہیں۔دوحہ ائرپورٹ دنیا کے جدید ترین ائر پورٹوں میں ایک ہے۔ شام کے سات بجے ہماری قطر ایریز کی دوسری فلائٹ سے بورڈنگ ہوئی ۔جہاز کے آخری قطار میں کھڑکی کی طرف میری سیٹ تھی۔ جو میری فرمائش پر مجھے دی گئی تھی۔ جہاں میرے ساتھ دوسرے سیٹ پر ڈاکٹر احد ابو العطا تھے جو اگرچہ فلسطینی ہیں مگر جکارتہ سے آئے تھے جہاں وہ فلسطین کے کاز کے لیے کام کر رہے ہیں۔ کویت اور دوسرے ممالک کی ایئر سپیس اور بحر عرب سے پرواز کرتے ہوئے دو گھنٹے کے بعد ہمارے جہاز نے رات 10 بجے عراق کے دارلخلافہ شہر بغداد کےالحماد ائر پورٹ پر لینڈکیا۔ بعد میں معلوم ہوا کہ اس جہاز میں ہمارے ساتھ کانفرنس میں شرکت کرنے کےلئے کئی ایک ساتھی ہیں۔جن کے ساتھ ہمیں یہاں امیگریشن اور ویزا آن اریول پر ملاقات ہوئی۔ ایمگریشن پر ہمارے انتظار میں کانفرنس کے کئی ذمہ دار اور رضاکار موجود تھے جنہوں نے ہمارے امیگریشن اور ویزا کے حوالے سے ساری ذمہ داری نبھائی اور ایئرپورٹ سے باہر آکر ہمیں ایئرکنڈیشن بسوں میں سوار کر کے بغداد سے 70کلو میٹر دور کربلا شہر لے جایا گیا۔رات کا وقت تھامیں بغدادکی سڑکوں اور عمارات کو دیکھ رہا تھا۔ مجھے حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمتہ اللہ علیہ اور بغداد میں موجود دیگر بزرگان دین کی درگاہوں کی یاد آرہی تھی۔تقریبا اڑھائی گھنٹے کے بعد رات 12 بجے ہم کربلا معلی شہر میں داخل ہوئے اور یہاں حضرت امام حسین علیہ السلام کی درگاہ سے ایک کلومیٹر کی دوری پر واقع فائیواسٹار ہوٹل الریحان میں ٹھہرانے کا انتظام کیا گیا تھا۔ہوٹل کے تمام 200 کمرے کانفرنس کے مدوبین اور ذمہ داروں کے لیے بک کیے گئے تھے۔ ہر مدوب کو اکیلے کمرے میں ٹھہرانے کا انتظام تھا۔میرا کمرہ 1017یعنی دسویں منزل میں روم نمبر 17 تھا۔کمرے میں داخل ہوتے ہی میں نے منہ ہاتھ دھویا اور تھکاوٹ کی وجہ سے بغیر کسی چینج کے سو گیا۔ ہمیں صبح چھ بجے نیند سے جاگنا تھا اور نو بجے تک 14ویں منزل میں ریسٹورنٹ میں بریک فاسٹ سے فارغ ہونا تھا۔
27 اگست صبح اتوار پانچ بجے نیند سے جا کر نماز سے فارغ ہوکر اور نہا دھو کر میں بھی تیار ہو کر ناشتے کے لیے ریسٹورنٹ پہنچا اور ناشتے کے بعد حضرت امام حسین علیہ السلام کی درگاہ کے لئے گاڑیوں میں سوار کر کے لے جایا گیا۔ جہاں درگاہ کے آڈیٹوریم میں کانفرنس کے پہلے سیشن کا پروگرام تھا یہاں میں یہ بتانا بھول گیا کہ بغداد کے ایئرپورٹ پر جو دیگر شخصیات کانفرنس میں شرکت کرنے مختلف ممالک سے ہمارے ساتھ امیگریشن اور ویزا کا انتظار کر رہے تھے ان میں مسجد الاقصی کے امام شیخ فتح راجدی،تونوسیہ کے محمد بن عبدالعزیز النبی ،ساو¿تھ افریقہ کے میڈیا ریویو نیٹ ورک سے وابستہ فیروز عثمان، تقریب مذاہب کونسل (ہند)کے ڈاکٹر محمد صادق حسینی، رابطہ علماءفلسطین کے محمد الحاج، جارڈن سے آئے پروفیسر محمد ہاشم سلطان ،ملیشیا کے ڈاکٹر حاجی عبدالغنی شمس الدین،کینیا کے سفارت کار ڈاکٹر عبدالرحمن نزو، کرناٹک کے سید علی باقر ،سری لنکا کے بھکشو لیڈروین کالو پا نا، پٹنہ بہار کے معروف صوفی مقررواسکالر ڈ اکٹر سید شاہ شمس الدین احمد منعمی وغیرہ شامل ہیں۔ بہرحال کانفرنس کے پہلے دن کا پہلا سیشن صبح 10 بجے سے دن کے ایک بجے تک یعنی تین گھنٹے امام حسین علیہ السلام کے روضہ کے بالکل اندر کانفرنس ہال میں چلا۔جس میں مختلف ممالک سےآئے مدوبین نے فلسطین میں مسلمانوں پر ہو رہے ظلم و ستم، مسلم کش پالیسیوں اور مسجد الاقصی کی واپسی پر اپنے خیالات کا اظہار کیا۔چونکہ زیادہ تر مدوب عرب ممالک سے مدعو کیے گئے تھے اور انہوں نے عربی زبان میں ہی اپنے تقاریر اور خیالات کا اظہار کیا۔ البتہ ترجمہ کاری کا معقول انتظام تھا ٹرانسلیٹر سے متعلق مشینیں اور ہیڈ فون دستیاب تھے۔ ایک بجے مدوبین نے روضہ حضرت امام حسین علیہ السلام اور حضرت عباس علیہ السلام کی زیارت کی۔ درگاہ زائرین سے کھچا کھچ بھری تھی۔میں نے مشکل سے درگاہ میں روضہ کے نزدیک پہنچ کر اپنی کتاب ”تصوف اور اہل تصوف“ پیش کرکے ایک الماری میں رکھی۔ میر ے ساتھ فلسطینی ٹی وی الیوم فلسطین کے جنرل منیجر سیف الدین ماود تھے۔ نماز ظہر کی اذان ہوئی۔ تمام مدوبین کے لیے مخصوص جگہ رکھی گئی تھی ہم نے وہاں نماز ادا کی۔جس کے بعد پیش امام سے ہمارا مصافحہ کرایا گیا۔ ہمیں درگاہ سے باہر لاکر گاڑیوں میں بٹھا کر واپس ہوٹل لے جایا گیا۔ شیڈول کے مطابق ہم نے ہوٹل کے ریسٹورنٹ میں لنچ کیا۔جس دوران میری ملاقات کئی ممالک کے مدوبین سے ہوئی اور ہم نے ایک دوسرے کا مکمل تعارف کیا ایک دوسرے کو اپنے ویزٹنگ کارڈ پیش کیے۔ تقریبا تمام مدوبین نے میرے ساتھ کشمیری ہونے کی وجہ سے زبردست محبت کا اظہار کیا اور مجھ سے کشمیر کے صوفی بزرگوں، درگاہوں، خانقاہوں اور صوفیت سے متعلق جانکاری حاصل کی۔ لنچ کے بعد ہمارا شیڈول چار بجے کربلا شہرمیں ہی واقع یونیورسٹی آف وارث الانبیا علیہ السلام میں تھا۔ٹھیک چار بجے میں دوسرے شرکا ءکے ہمراہ ہوٹل کے گیٹ پر کھڑی گاڑی میں سوار ہوا اور تقریبا تین کلومیٹر کی دوری پر واقع خوبصورت یونیورسٹی آف وارث الانبیاءعلیہ السلام کے کانفرنس ہال میں داخل ہوا۔ یہاں میری ملاقات مہاتما گاندھی کے پڑ پوتے پڑ پوتے تروش گاندھی سے کرائی گئی جو ممبئی سے آئے تھے کسی وجہ سے ان کی فلائٹ پہلے روز چھوٹ گئی تھی۔ کانفرنس کے اس سیشن میں کئی مدوبین اور شخصیات کی تقاریرسے معلوم ہوا کہ کئی اہم شخصیات کو مختلف ممالک نے اس کانفرنس میں شرکت کرنے کی اجازت نہیں دی تھی۔ جس کی وجہ سے وہ شرکت نہیں کرسکے ہیں۔ یونیورسٹی کے وائس چانسلر اور چانسلر نے یونیورسٹی کی کارگردگی سے مدوبین کو آگاہ کیا۔جس کے دوران معلوم ہوا کہ یونیورسٹی وارث الانبیاءعلیہ السلام میں انجینئرنگ، میڈیکل اور انٹرنیشنل اسلامک سٹڈیز سمیت چھ کالج ہیں۔اس سیشن میں اسرائیلی ظلم و ستم کے شکار کئی بچوں خواتین اور نوجوانوں کو پیش کیا گیا جن کی داستان سن کر کانفرنس کے شرکاءکی آنکھیں بھر آئیں۔ تین گھنٹے تک جاری سیشن میں مدوبین نے اسرائیلی حکومت اور بعض مغربی ممالک کی فلسطین سمیت مسلم ممالک کے خلاف کی جا رہی ساز شوں اور اسرائیلی ظلم و ستم پر اپنی آراءپیش کی۔ فلسطین سے آئے ہوئے شرکاءجن میں مسجداقصی کے امام شیخ فتح رجدی ،فلسطین ٹی وی الیوم ٹی وی کے جنرل منیجر سیف الدین ماود اور حماس کے عرب و اسلامک شعبہ کے سربرا محمد الحافی نے بتایا کہ کس طرح اسرائیل طاقت کے بل بوتے پر حقیقت کو چھپانے اور فلسطینی عوام کو بدنام کرنے کے لیے عالمی میڈیا اداروں کا سہارا لے رہا ہے اور اسرائیلی فوج اور فورس کے بجائے فلسطین اور فلسطین تنظیموں کو دہشت گرد ٹھہرایا جارہا ہے۔تین گھنٹے تک جاری سیشن کے بعد شرکاءکو شام سات بجے واپس ہوٹل لایا گیا اور مقرر وقت پر سارے شرکائ8 بجے رات 14ویں منز ل پر واقع ریسٹورنٹ میں ملے۔یہاں دوگھنٹےڈنر پر پر میری گفتگو،سری لنکا، نپال ،ایران عرب ممالک اور خلیجی ممالک کے مذوبین سے ہوئی۔ مکمل تعارف ہوا اس دوران ساو¿تھ افریقہ سے آئے نیلسن منڈیلا کے پوتے اکوسائی منڈیلا سے بھی میرا تعارف کرایا گیا۔جن دیگر شخصیات سے میرا تعارف کرایا گیا ان میں فلسطین ٹی وی کے محمد عمرعید، مسٹر زیان فلسطین ، امیزیا فلسطین ابو بکر امام جارڈن، احمد کافی مراکو، نکی محمد تنوسیہ ،اسرار عباسی پاکستان، تاثیر سلیمان ایران، بھکشو وین کالو بھانا سری لنکا ، سینیٹرعلی جیندرود نوارو برین چلی، فادر ہنانی سیریا، حاجی غنی شمس الدین ملیشیا ، ڈاکٹر احمد سیف الدین لبنان، محمد الحافی حماس فلسطین، سید علی باقر کرناٹک ہندوستان، شیخ عبدالحادی الصالح کویت، ایمبیسڈر ڈاکٹر یوسف عبدالرحمن کینیا، پروفیسر محمد ہاشم سلطان جارڈن، شیخ محمد امیر گانا ساو¿تھ افریقہ، شیخ رجبی امام ماجد اقصی یروشلم فلسطین، محمد الحاج لبنان، فیروز عثمان ساو¿تھ افریقہ، ڈاکٹر سید محمد صادق دلی انڈیا اور ڈاکٹر سید شاہ شمیم الدین احمد منعمی پٹنہ بہار انڈیا شامل ہیں۔
کانفرنس کے دوسرے دن 28 اگست منگلوار شیڈول کے مطابق تمام شرکاءکی ملاقات صبح سات بجے ناشتے پر ہوٹل کے ریسٹورنٹ میں ہوئی۔ناشتے سے فارغ ہونے کے بعد شرکائ کانفرنس کو جامعہ الزہرہ البنات (الزہرہ یونیورسٹی برائے خواتین) کربلا لے جایا گیا یہاں 10 بجے سے ایک بجے تک کانفرنس چلتی رہی جس میں 8 مندوبین نے عربی ،فارسی اور انگریزی زبان میں اپنے خیالات کا اظہار کیا جس میں تمام فلسطینیوں سمیت تمام مسلمانوں اور عالمی انسانیت کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا گیا۔ کانفرنس میں کئی غیر مسلم مدوبین نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ مجموعی طور سیشن میں انسانیت، آپسی دوستی ،امن و سلامتی اور بھائی چارے پر زور دیا گیا۔ کہا گیا کہ ہم سب ایک ہی ماں باپ کی اولاد ہیں اور ہمیں دنیا میں فتنہ فسادات کے بجائے امن و ترقی کو ترجیح دینی چاہیے۔ ایک بجے سے چار بجے تک لنچ اور آرام کا وقت تھا۔ اس لیے پھر ہوٹل لایا گیا۔ لنچ سے فارغ ہونے کے بعدبعض ساتھی آرام کرنے اپنے کمروں میں چلے گئے اور دیگر مدوبین ہوٹل کی لابی میں ایک دوسرے سے تعارف اور گفت شنید کرتے رہے۔سہ پہر چار بجے کربلا میں دوسرے اور آخری سیشن کے لیے وارث الانبیاءعلیہ السلام یونیورسٹی لے جایا گیا جہاں تین گھنٹے یعنی سات بجے شام تک جاری سیشن میں کئی ایرانی، افریقی اور خلیجی ممالک سے تعلق رکھنے والے معزز مدوبین نے زریں خیالات کا اظہار کیا جب کہ بعض فلسطینی زعماءنے بھی خطاب کیا اور فلسطین اور مسجد اقصی کے کاز کے لیے عالمی حمایت پر زور دیا گیا۔ کانفرنس کے دوسرے دن کے دوسرے سیشن کےاختتام کے بعد ہوٹل پہنچ کر میں نے مینجمنٹ سے تعلق رکھنے والے ذمہ داروں سے امام حسین علیہ السلام کی بارگاہ پر حاضری دینے کی خواہش ظاہر کی جس کی مجھے باضابطہ اجازت دی گئی اور میں ہوٹل سے ایک کلومیٹر کی دوری پر واقع درگاہ کے لیے پیدل روانہ ہوا سینکڑوں لوگ پیدل درگاہ جا رہے تھے اور زائرین اور عقیدت مندوں کی بھیڑ میں میں جیسے تیسے جوش جنون اور عقیدت کے ساتھ امام حسین علیہ السلام اور حضرت عباس علیہ السلام کی درگاہ پر حاضری دینے میں کامیاب ہوا۔میرے پاس کچھ امریکی ڈالر اور عراقی دینار تھے میں امام حسین علیہ السلام کی در پر حاضری دی اور کچھ تبروک خریدا۔ اور واپس پیدل ہوٹل آیا۔رات کا کھانے کا وقت شروع ہوا تھا ریسٹورنٹ میں پھر اپسی گفت شنید ہوئی۔ میرے کھانے کے ٹیبل پر اس وقت نیرو بی کینیا کے ایمبیسڈ ر ڈاکٹر یوسف عبدالرحمن نزیو تھے جو کچھ بیمار سے تھے میں نے ان کو تھوڑا سہارا دیا جس سے وہ بہت متاثر ہوئے اور میری ان سے سخت دوستی ہوئی۔ وہ مجھ سے 9 سال بڑے ہیں اور مجھے چھوٹا بھائی مان کر اچھی باتیں کہیں۔
کانفرنس کے تیسرے اور آخری دن 29 اگست منگلوار ہمارا نجف الاشرف جانے کا پروگرام تھا۔ صبح ناشتے پر پھر مدوبین کی آپسی گفت شنید ہوئی اور 10 بجے گاڑیوں میں سوار ہوکر کربلا سے نجف 75 کلومیٹر کے لیے چل پڑے۔ راستے میں میں نے مشاہدہ کیا کہ نجف سے بھاری تعداد میں لوگ کربلا میں حضرت امام حسین علیہ السلام کے سالانہ چہلم کی تقریب میں شامل ہونے کے لیے جو ق درجوق پیدل چل رہے ہیں اور سڑک کے دونوں اطراف قیام طعام کا اعلی انتظام ہے معلوم ہوا کہ عراقی غیور عوام کی طرف سے زائرین کے لیے ہر سال چہلم پر قیام طعام کا انتظام ہوتا ہے اور زیادہ تر لوگ ایران سے آتے ہیں چونکہ ایران اور عراق ویزانہیں ہے اور سرحد کھلی چھوڑی جا رہی ہے راستے میں گاڑیوں کا بھی جام تھا میں نے دریائے فرات بھی دیکھا ایک بجے کے قریب ہم نجب الاشرف میں شاہ ولایت حضرت علی کرم اللہ تعالی وجہہ کے مزار مقدس کے بالکل قریب پہنچے۔ یہاں منتظمین کو میں نے اپنا منتظر پایا اور ہمیں خصوصی طور زائرین کی بھیڑسے نکال کر ایک وسیع و عریض ہال میں لےجایاگیا۔ وضو اور منہ ہاتھ دھونے کے بعد ہمیں ظہرانہ پیش کیا گیا۔جس کے بعد مدوبین کو کانفرنس ہال لے جایا گیا جہاں بعض ساتھیوں نے نماز ظہر سے فارغ ہو کر کانفرنس کے تیسرے اور اخری سیشن میں شمولیت کی۔تقریبا تین گھنٹے تک جاری کانفرنس کے اس آخری سیشن میں کئی ایک مدوبین نے اپنے خیالات اور احساسات کا اظہار کیا جس کا لب لباب فلسطین اور مسلمانوں کے قبلہ اول مسجد اقصی کی صیہونی طاقتوں کے ہاتھوں آزادی، ظالم اسرائیلی ہاتھوں کے پنجوں سے مظلوموں کو باہر نکالنا تھا۔ کانفرنس میں فلسطینی مظلوم و محکوم عوام کے ساتھ بھرپور یکجہتی کا اظہار کیا گیا اس کے بعد دعائے کلمات کے ساتھ ہی کانفرنس کااختتام کیا گیا۔ دعا میں پوری ملت اسلامیہ اور سارے عالم انسانیت کے حق میں دعا کی گئی۔ اس کے ساتھ ہی’ گلوبل کمپین ٹو ریٹرن ٹو فلسطین نامی این جی او کی طرف سے ”الاقصی کی پکار“عنوان سے منعقدہ دوسری بین الاقوامی کانفرنس اختتام پذیر ہوئی۔
کانفرنس کے بعد میں نےبعض ساتھیوں کے ہمراہ حضرت علی کرم اللہ تعالی وجہہ کے مزار مقدس پر حاضری دی۔میں حسب عادت بیچ میں جگہ نکال کر بھیڑ کو چیرتے ہوئےحاضری دینے میں کامیاب ہوا۔ منتظمین اور رضاکار کانفرنس کے شرکاءمندبین مہمانوں کا انتظار کر رہے تھے اور ہر ایک کو بھیڑ سے ڈھونڈ ڈھونڈ کر کر بسوں میں سوار کر رہے تھے۔میں بھی بس میں سوار ہوا۔ ہم چار بجے کے قریب واپس کربلا ہوٹل کے لیے نکلے۔راستے میں میں نے بہت زیادہ جام دیکھا اور گاڑی کچھوے کی طرح چل رہی تھی دن ڈھلنے لگا اور زائرین نجف کی زیارت کرکے پیدل کربلا کی طرف پیش قدمی کر رہے تھے رات کے9 بجے کے قریب ہم کسی مقام پر پہنچے جہاں نہ صرف ہمارے عشائیہ کا انتظام کیا گیا تھا بلکہ یہاں سڑک کے کنارے ہی ایک مختصر تقریب رکھی گئی تھی جس میں فلسطینی نوجوانوں نے ترنم میں ایک گانا بھی گایا۔ امام علی علیہ السلام اور امام حسین علیہ السلام کے تعئیں خراج عقیدت بھی پیش کیا۔یہاں سے پھر ہمیں بسوں میں سوار کر کے کربلا لے جایا گیا تقریبا 12 بجے رات ہم ہوٹل پہنچے۔
اگلے دن بدھوار 30 اگست صبح پھر ناشتے پر تمام مدوبین کی آپس میں ملاقات ہوئی۔ چند ایک مدوبین کو اپنے اپنے وطن نکلنے کے لیے جلدی تھی ان کے فلائٹ کا وقت قریب آرہا تھا اور انہیں بغداد کے حماد ایئرپورٹ جو کہ کربلا سے 105 کلومیٹر کی دوری پر ہے پہنچنا تھا۔ جبکہ مجھے بھی اسی دن رات 10 بجے بغداد کے انٹرنیشنل ایئرپورٹ سے اپنے ہندوستانی، پاکستانی، نیپالی ،سری لنکا اور دیگر ممالک کے ساتھیوں سمیت دوحہ کے لیے فلائٹ تھی۔ ہمارے پروگرام میں آج بغداد میں حضرت شیخ سید عبدالقادر جیلانی رحمتہ اللہ علیہ اور دیگر کئی بزرگوں بشمول جنید بغدادی اور حضرت ابو حنیفہ رض کے مزارات کی زیارت کا تھا۔اور جب میں نے اپنی کوارڈینیٹر آمنہ موسی فلسطینی بہن سے اس بارے میں پوچھا تو اس نے معذرت کے ساتھ کہا کہ” سڑکوں پر زائرین کی بھیڑ اور گاڑیوں کا جام ہے اس لیے بغداد میں حضرت غوث الاعظم اور دیگر بزرگوں کی درگاہوں کی زیارت ممکن نہیں ہے۔ اور پھر 10 بجے رات آپ کی روانگی ہے اور4 گھنٹے پہلے بغداد ایئرپورٹ پہنچنا ہے اس لیے مینجمنٹ نے یہی فیصلہ کیا ہے کہ آپ لوگوں کو چار بجے ہوٹل سے بغداد ایئرپورٹ کے لیے الوداع کہا جائے۔ میری غوث اعظم رحمتہ اللہ علیہ کے مزار پر حاضری کی تمنا ادھوری رہی۔ آمنہ موسی بہن نے میرے جذبات اور انکھوں میں نمی دیکھی اور کہا منظور بھائی اپ حوصلہ رکھیں۔ مجھے امید ہے کہ آپ پھر یہاں آئیں گے اور ضرور دوسری بار بغداد میں حضرت غوث الاعظم کے مزار پر حاضری دیں گے۔البتہ میں آج آپ کو ایک رضا کار ساتھ دیتی ہوں جو آپ کو پھر حضرت امام حسین علیہ السلام اور حضرت عباس علیہ السلام کے مزار پر حاضری دینے ساتھ آ سکتا ہے“۔میں نے غنیمت سمجھا او دل میں یہ امید باندھی کہ مجھے پھر عراق آنا ہوگا اور اس بار انشاءاللہ بغداد میں قیام کرنا ہوگا اور وہاں حضرت شاہ جیلان رحمت اللہ علیہ کے دربار میں حاضری دینی ہوگی۔مجھے ایک پیارا سا فلسطینی بچہ جو انگریزی زبان جانتا تھا ساتھ آیا اور ہم دھوپ کی پروا نہ کرتے ہوئے پیدل امام حسین علیہ السلام کے مزار کے لیے نکلے۔ دھوپ تیز تھی ڈیڑھ کلومیٹر کا فاصلہ طے کرنے کے بعد میں نے مزار کا طواف کیا اور عراقی 8000 عراقی دینار خرچ کر کے اپنی بیٹی کی فرمائش پر اس کے سسرال والوں کے لیے کچھ تبرکات کے طور کھانے کی چیزیں اور تسبیح وغیرہ خریدی۔ اور واپس ہوٹل کے لیے نکلا ہوٹل پہنچ کر اپنا سامان پیک کیا اور ریسٹورنٹ میں دوسرے ساتھیوں سمیت کھانا کھا کر نیچے لابی میں آیا۔یہاں بعض فلسطینی اور افریقی دوستوں سے گفت و شنید ہوئی۔ ٹھیک چاربجے سہ پہر ایک قیمتی گاڑی میں مجھے دوسرے ساتھیوں سمیت بٹھایا گیا ہمارا سامان بریف کیس، سوٹ کیس یا بیگ وغیرہ ایک دوسرے لوڈ کیریر گاڑی میں رکھے گیے۔ میرے ساتھ جانے والوں میں پٹنہ بہار کے قبلہ ڈاکٹر سید شاہ شمیم الدین احمد منعمی سجادہ نشین خانقاہ منعمیہ ، فلسطینی ڈاکٹر احد ابو الطا حال جکارتا، ملیشیا کے عبدالغنی شمس الدین، دلی کے سریندر سنگھ شجر معروف اردو شاعر، سری لنکا کے بھکشو وین کالو پانا چیئرمین ہیومن ڈیولپمنٹ ایڈی فکیشن سینٹر، دہلی کے ڈاکٹر سید محمد صادق حسینی چیئرمین تقریب مذاہب کونسل ہند ،کرناٹک کے سید علی باقر چیئرمین اہل بیت علیہ السلام ایجوکیشنل ویلفیئر ٹرسٹ، نیوروبی کینیا کے ایمبیسڈر ڈاکٹر یوسف عبدالرحمان بانی و چیئرمین فاطمہ بنت خدیجہ فاو¿نڈیشن اور نلسن منڈیلا کے پوتے اکوسائی منڈیلا ساوتھ افریقہ اورکئی دیگر تھے۔ کربلا سے بغداد کے ایئرپورٹ کی دوری اگرچہ 70 کلومیٹر ہے مگر سڑکوں پر زائرین کا اڑدھام کی وجہ سے گاڑیوں کا جام تھااور ہم ٹھیک سات بجے کے قریب بغداد ایئرپورٹ پہنچنے میں کامیاب ہو گئے بورڈنگ پاس حاصل کرنے کے بعد تمام ساتھی ایک ساتھ بورڈنگ کا انتظار کرتے رہے۔بورڈنگ پاس حاصل کرنے کے بعد ہم تمام ساتھی ایک ساتھ بورڈنگ کا انتظار کرتے رہے ہم تمام ساتھیوں کی فلائٹ ایک ہی تھی۔ بغداد ایئرپورٹ پرمیرے سمیت کئی ساتھیوں کے موبائل فونوں کے پاور بینک چیکنگ سے گزرتے ہوئے واپس نہیں کیے گئے۔معلوم ہوا کہ بغداد سے جاتے ہوئے فلائٹ میں پاور بینک لے جانا ممنوع ہے۔ ٹھیک 10 بجے ہندوستانی وقت کے مطابق رات ساڑھے بارہ بجے قطر ائر وویز کی فلائٹ نمبر QR 571 نے دوحہ کے لیے اڑان بھری بصرہ سمیت کئی عراقی شہروں ، کویت اور کے خلیج کے اوپر سے پرواز کرتے ہوئے ہمارا جہاز دو گھنٹے بعد سمندر کے کنارے دوحہ کے جدید ترین ایئرپورٹ پر لینڈ کر گیا۔یہاں سے ہندوستانیوں اپنے دوسرے ممالک کے ساتھیوں کو الوداع کہااور اپنی بورڈنگ پاس ہاتھ میں لے کر اپنے گیٹ کو ڈھونڈتے ہوئے ویٹنگ روم میں بورڈنگ کا انتظار کرنے لگے رات ڈیڑھ بجے کے قریب ہماری بورڈنگ ہوئی اور قطر ایرویز کے جہاز QR570 نے دوحہ سے دہلی کے لیے اڑان بھری۔چار گھنٹے کی مسافت کے بعد ہندوستانی وقت کے ٹھیک ساڑھے آٹھ بجے صبح ہمارے جہاز نے اندرا گاندھی انٹرنیشنل ایئرپورٹ ٹرمنل 3 پر لینڈ کیا۔امیگریشن کے تمام ضابطے پورے کرنے کے بعد میں نے اپنا سامان جو کہ ایک چھوٹے سے سوٹ کیس پر مشتمل تھا ،کو بیلٹ سے حاصل کیا ۔ ائرپورٹ سے باہر آیا چونکہ میری فلائٹ آج ہی دن کے ایک بجے سری نگر کے لیے تھی۔اس لیے میں نے ایئرپورٹ پر ہی قیام کرنا مناسب سمجھا۔چائے پانی کے بعد ایئرپورٹ کے اندر داخل ہوا اور سری نگر کی سپائس جیٹ فلائٹ کا بورڈنگ پاس حاصل کر کے وطن جانے کے لیے فلائٹ میں بیٹھا۔ سرینگر ایئرپورٹ پر اپنے فرزنددانش منظور کو گاڑی سمیت اپنا منتظر پایا۔ یہ میری زندگی جو زیادہ تر سفر میں کشمیر سے اجمیر تک گزری ہے،کاپہلاغیر ملکی سفر تھا۔اللہ بہتر جانتا ہے کہ آگے میرا سفر کہاں کا ہوگا امید ہے اور بزرگوں کی دعائیں ہیں کہ ابھی بہت سفر باقی ہے۔ کے سات بجے ہماری قطر ایریز کی دوسری فلائٹ سے بورڈنگ ہوئی اور جہاز کے آخری قطار میں کھڑکی کی طرف میری سیٹ تھی۔ جو میری فرمائش پر مجھے دی گئی تھی۔ جہاں میرے ساتھ دوسرے سیٹ پر ڈاکٹر احد ابو العطا تھے جو اگر فلسطینی ہیں مگر جکارتہ سے آئے تھے جہاں وہ فلسطین کے کاز کے لیے کام کر رہے ہیں۔ کویت اور دوسرے ممالک کی ایئر سپیس اور بحر عرب سے پرواز کرتے ہوئے دو گھنٹے کے بعد ہمارے جہاز نے رات 10 بجے شہر بغداد کےائر پورٹ پر لینڈکیا۔ بعد میں معلوم ہوا کہ اس جہاز میں ہمارے ساتھ کانفرنس میں شرکت کرنے کےلئے کئی ایک ساتھی ہیں جن کے ساتھ ہمیں یہاں امگریشن اور ویزا ان اریول پر ملاقات ہوئی ایمگریشن پر کانفرنس کے کئی ذمہ دار اور رضاکار موجود تھے جنہوں نے ہمارے امگریشن اور ویزا کے حوالے سے ساری ذمہ داری نبھائی اور ایئرپورٹ سے باہر آکر ہمیں ایئرکنڈیشن بسوں میں سوار کر کے بغداد سے 70کلو میٹر دور کربلا شہر لے جایا گیا رات کا وقت تھامیں بغدادکی سڑکوں اور عمارات کو دیکھ رہا تھا مجھے حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمتہ اللہ علیہ اور بغداد میں موجود دیگر بزرگان دین کی درگاہوں کی یاد آرہی تھی تقریبا اڑھائی گھنٹے کے بعد رات 12 بجے ہم کربلا معلی شہر میں داخل ہوئے اور یہاں حضرت امام حسین علیہ السلام کی درگاہ سے ایک کلومیٹر کی دوری پر واقعہ فائیواسٹار ہوٹل الریحان میں ٹھہرانے کا انتظام کیا گیا تھا۔ہوٹل کے تمام 200 کمرے کانفرنس کے مدوبین اور ذمہ داروں کے لیے بک کیے گئے تھے ہر مدعوب کو اکیلے کمرے میں ٹھہرانے کا انتظام تھا میرا کمرہ 1017یعنی دسویں منزل میں روم نمبر 17 تھا کمرے میں داخل ہوتے ہی میں نے منہ ہاتھ دھویا اور تھکاوٹ کی وجہ سے بغیر کسی چینج کے سو گیا۔ ہمیں صبح چھ بجے نیند سے جاگنا تھا اور نو بجے تک 14ویں منزل میں ریسٹورنٹ میں بریک فاسٹ سے فارغ ہونا تھا۔
27 اگست صبح اتوار پانچ بجے نیند سے جا کر نماز سے فارغ ہو کر اور نہا دھو کر میں بھی تیار ہو کر ناشتے کے لیے ریسٹورنٹ پہنچا اور ناشتے کے بعد حضرت امام حسین علیہ السلام کی درگاہ کے لئے گاڑیوں میں سوار کر کے لے جایا گیا جہاں درگاہ کے آڈیٹوریم میں کانفرنس کا پہلا سیشن کا پروگرام تھا یہاں میں یہ بتانا بھول گیا کہ بغداد کے ایئرپورٹ پر جو دیگر شخصیات کانفرنس میں شرکت کرنے مختلف ممالک سے ہمارے ساتھ امگریشن اور ویزا کا انتظار کر رہے تھے ان میں مسجد الاقصی کے امام شیخ فتح راجدی،تونوسیہ کے محمد بن عبدالعزیز النبی ،ساو¿تھ افریقہ کے میڈیا ریویو نیٹ ورک سے وابستہ فیروز عثمان، تقریب مذاہب کونسل (ہند)کے ڈاکٹر محمد صادق حسینی، رابطہ علماءفلسطین کے محمد الحاج، جارڈن سے آئے پروفیسر محمد ہاشم سلطان ،ملیشیا کے ڈاکٹر حاجی عبدالغنی شمس الدین ،کینیا کے سفارت کار ڈاکٹر عبدالرحمن نزو، کرناٹک کے سعید علی باقر سری لنکا کے بھکشو لیڈروین کالو پا نا، پٹنہ بہار کے معروف صوفی مقرر ڈاکٹر سید شاہ شمس الدین احمد منعمی وغیرہ شامل ہیں۔
بہرحال کانفرنس کے پہلے دن کا پہلا سیشن صبح 10 بجے سے دن کے ایک بجے تک یعنی تین گھنٹے امام حسین علیہ السلام کے روضہ کے بالکل اندر کانفرنس ہال میں چلا۔جس میں مختلف ممالک سےآئے مدوبین نے فلسطین میں مسلمانوں پر ہو رہے ظلم و ستم، مسلم کش پالیسی اور مسجد الاقصی کی واپسی پر اپنے خیالات کا اظہار کیا۔چونکہ زیادہ تر مدعوب عرب ممالک سے مدعو کیے گئے تھے اور انہوں نے عربی زبان میں ہی اپنے تقاریر اور خیالات کا اظہار کیا۔ البتہ ترجمہ کاری کا معقول انتظام تھا اور ٹرانسلیٹر سے متعلق مشینیں اور ہیڈ فون دستیاب تھے ایک بجے مدوبین نے روزہ حضرت امام حسین علیہ السلام اور حضرت عباس علیہ السلام کی زیارت کی۔ درگاہ زائرین سے کھچا کھچ بھری تھی۔میں نے مشکل سے درگاہ میں روزضہ کے نزدیک پہنچ کر اپنی کتاب ”تصوف اور اہل تصوف“ پیش کرکے ایک الماری میں رکھی۔ میر ے ساتھ فلسطینی ٹی وی الیوم فلسطین کے جنرل منیجر سیف الدین ماوود تھے۔ نماز ظہر کی اذان ہوئی۔ تمام مدوبین کے لیے مخصوص جگہ رکھی گئی تھی اور ہم نے وہاں نماز ادا کی۔
جس کے بعد پیش امام سے ہمارا مصافحہ کرایا گیا۔ اور ہمیں درگاہ سے باہر آکر گاڑیوں میں بٹھا کر واپس ہوٹل لے جایا گیا۔ شیڈول کے مطابق ہم نے ہوٹل کے ریسٹورنٹ میں لنچ کیا۔جس دوران میری ملاقات کئی ممالک کے مدوبین سے ہوئی اور ہم نے ایک دوسرے کا مکمل تعارف کیا ایک دوسرے کو اپنے ویزٹنگ کارڈ پیش کیے۔ تقریبا تمام مدوبین نے میرے ساتھ کشمیری ہونے کی وجہ سے زبردست محبت کا اظہار کیا اور مجھ سے کشمیر کے درگاہوں خانقاہوں اور صوفیت سے متعلق جانکاری حاصل کی۔ جماعت اسلامی پاکستان کے نائب امیر لیاقت بلوچ سمیت پاکستان کے دیگر چار مدبین و نیپال کے مفتی اعظم سے کئی معاملات پر گفت و شنید ہوئی۔لنچ کے بعد ہمارا شیڈول چار بجے کربلا شہرمیں ہی واقع یونیورسٹی آف وارث الانبیاءعلیہ السلام میں تھا۔ٹھیک چار بجے میں دوسرے شرکاءکے ہمراہ ہوٹل کے گیٹ پر کھڑی گاڑی میں سوار ہوا اور تقریبا تین کلومیٹر کی دوری پر واقع خوبصورت یونیورسٹی آف وارث الانبیاءعلیہ السلام کے کانفرنس ہال میں داخل ہوا۔ یہاں میری ملاقات مہاتما گاندھی کے پڑ پوتے پڑ پوتے تروش گاندھی سے کرائی گئی جو بمبئی سے آئے تھے کسی وجہ سے ان کی فلائٹ پہلے روز چھوٹ گئی تھی ۔ کانفرنس کے اس سیشن میں کئی مدوبین اور شخصیات کی تقاریر کے دوران معلوم ہوا کہ کئی اہم شخصیات کو مختلف ممالک نے اس کانفرنس میں شرکت کرنے کی اجازت نہیں دی تھی۔ جس کی وجہ سے وہ شرکت نہیں کرسکے ہیں۔ یونیورسٹی کے وائس چانسلر اور چانسلر نے یونیورسٹی کی کارگردگی سے مدوبین کو آگاہ کیا۔جس کے دوران معلوم ہوا کہ یونیورسٹی وارث الانبیاءعلیہ السلام میں انجینئرنگ، میڈیکل اور انٹرنیشنل اسلامک سٹڈیز سمیت چھ کالج ہیں۔اس سیشن میں اسرائیلی ظلم و ستم کے شکار کئی بچوں خواتین اور نوجوانوں کو پیش کیا گیا جن کی داستان سن کر کانفرنس کے شرکاءکی آنکھیں بھر آئیں۔مندوبین نے اپنی تقاریر میں اس بات پر زبردست افسوس کا اظہار کیا کہ میڈیا سے متعلق بعض عالمی ادارے فلسطینی عوام کو عالمی سطح پر جنگجو اور دہشت گرد کے روپ میں پیش کر رہے ہیں اور فلسطینی عوام کے خلاف مختلف سازشوں عملانے کے لیے اسرائیلی حکومت پانی کی طرح رقومات بہارہی ہے۔ تین گھنٹے تک جاری سیشن میں اسرائیلی حکومت اور بعض مغربی ممالک کی فلسطین سمیت مسلم ممالک کے خلاف کی جا رہی ساز شوں اور اسرائیلی ظلم و ستم پر اپنی آراءپیش کی۔ فلسطین سے آئے ہوئے شرکاءجن میں مسجداقصی کے امام شیخ فتح رجدی ،فلسطین ٹی وی الیوم ٹی وی کے جنرل منیجر سیف الدین ماود اور حماس کے عرب و اسلامک شعبہ کے سربرا محمد الحافی نے بتایا کہ کس طرح اسرائیل طاقت کے بل بوتے پر حقیقت کو چھپانے اور فلسطینی عوام کو بدنام کرنے کے لیے عالمی میڈیا اداروں کا سہارا لے رہا ہے اور اسرائیلی فوج اور فورس کے بجائے فلسطین اور فلسطین تنظیموں کو دہشت گرد ٹھہرایا جارہا ہے۔تین گھنٹے تک جاری سیشن کے بعد شرکاءکو شام سات بجے واپس ہوٹل لایا گیا اور مقرر وقت پر سارے شرکاء8 بجے رات 14ویں منز ل پر واقع ریسٹورنٹ میں ملے۔یہاں دوگھنٹےڈنر پر پر میری گفتگو پاکستان،سری لنکا، نپال ،ایران عرب ممالک اور خلیجی ممالک کے مذبین سے ہوئی۔ مکمل تعارف ہوا اس دوران ساو¿تھ افریقہ سے آئے نیلسن منڈیلا کے پوتے اکوسائی منڈیلا سے بھی میرا تعارف کرایا گیا۔جن دیگر شخصیات سے میرا تعارف کرایا گیا ان میں فلسطین ٹی وی کے محمد عمرعید، مسٹر زیان فلسطین ، امیزیا فلسطین ابو بکر امام جارڈن، احمد کافی مراکو، نکی محمد تنوسیہ ،اسرار عباسی پاکستان، تاثیر سلیمان ایران، بھکشو وین کالو بھانا سری لنکا ، سینیٹرعلی جیندرود نوارو برین چلی، فادر ہنانی سیریا، حاجی غنی شمس الدین ملیشیا ، ڈاکٹر احمد سیف الدین لبنان، محمد الحافی حماس فلسطین، ڈاکٹر صابر ابو مریم پاکستان، سید علی باقر کرناٹک ہندوستان، شیخ عبدالحادی الصالح کویت، ایمبیسڈر ڈاکٹر یوسف عبدالرحمن کینیا، پروفیسر محمد ہاشم سلطان جارڈن، شیخ محمد امیر گانا ساو¿تھ افریقہ، شیخ رجبی امام ماجد اقصی یروشلم فلسطین، محمد الحاج لبنان، فیروز عثمان ساو¿تھ افریقہ، ڈاکٹر سید محمد صادق دلی انڈیا اور ڈاکٹر سید شاہ شمیم الدین احمد منعمی پٹنہ بہار انڈیا شامل ہیں۔
کانفرنس کے دوسرے دن 28 اگست منگلوار شیڈول کے مطابق تمام شرکاءکی ملاقات صبح سات بجے ناشتے پر ہوٹل کے ریسٹورنٹ میں ہوئی۔ ناشتے پرآج آدھ گھنٹے تک پاکستان جماعت اسلامی کے نائب امیر جناب لیاقت بلوچ اور ڈاکٹر صابر ابو مریم جو کہ فلسطین فاو¿نڈیشن پاکستان کے نام سے کراچی میں فلاحی تنظیم چلا رہے ہیں سے گفت وشنید ہوئی اور میرا موضوع تصوف اور بھائی چارہ تھا جس پر لیاقت بلوچ اور ڈاکٹر صابر نے میری زبردست شاباشی کی۔ ناشتے سے فارغ ہونے کے بعد شرکائ کانفرنس کو جامعہ الزہرہ البنات (الزہرہ یونیورسٹی برائے خواتین) کربلا لے جایا گیا یہاں 10 بجے سے ایک بجے تک کانفرنس چلتی رہی جس میں 8 مندوبین نے عربی ،فارسی اور انگریزی زبان میں اپنے خیالات کا اظہار کیا جس میں تمام فلسطینیوں سمیت تمام مسلمانوں اور عالمی انسانیت کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا گیا۔ کانفرنس میں کئی غیر مسلم مدوبین نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ مجموعی طور سیشن میں انسانیت، آپسی دوستی ،امن و سلامتی اور بھائی چارے پر زور دیا گیا۔ کہا گیا کہ ہم سب ایک ہی ماں باپ کی اولاد ہیں اور ہمیں دنیا میں فتنہ فسادات کے بجائے امن و ترقی کو ترجیح دینی چاہیے۔ ایک بجے سے چار بجے تک لنچ اور آرام کا وقت تھا۔ اس لیے پھر ہوٹل لایا گیا۔ لنچ سے فارغ ہونے کے بعد کچھ نے تھوڑا آرام کیا اور دیگر مدوبین ہوٹل کی لابی میں ایک دوسرے سے تعارف اور گفت شنید کرتے رہے۔سہ پہر چار بجے کربلا میں دوسرے اور آخری سیشن کے لیے وارث الانبیاءعلیہ السلام یونیورسٹی لے جایا گیا جہاں تین گھنٹے یعنی سات بجے شام تک جاری سیشن میں کئی ایرانی، افریقی اور خلیجی ممالک سے تعلق رکھنے والے معزز مدوبین نے زریں خیالات کا اظہار کیا جب کہ بعض فلسطینی زعماءنے بھی خطاب کیا اور فلسطین اور مسجد اقصی کے کاز کے لیے عالمی حمایت پر زور دیا گیا۔ کانفرنس کے دوسرے دن کے دوسرے سیشن کےاختتام کے بعد ہوٹل پہنچ کر میں نے مینجمنٹ سے تعلق رکھنے والے ذمہ داروں سے امام حسین علیہ السلام کی بارگاہ پر حاضری دینے کی خواہش ظاہر کی جس کی مجھے باضابطہ اجازت دی گئی اور میں ہوٹل سے ایک کلومیٹر کی دوری پر واقع درگاہ کے لیے پیدل روانہ ہوا سینکڑوں لوگ پیدل درگاہ جا رہے تھے اور زائرین اور عقیدت مندوں کی بھیڑ میں میں جیسے تیسے جوش جنون اور عقیدت کے ساتھ امام حسین علیہ السلام اور حضرت عباس علیہ السلام کی درگاہ پر حاضری دینے میں کامیاب ہوا ۔ میرے پاس کچھ امریکی ڈالر اور عراقی دینار تھے میں امام حسین علیہ السلام کی در پر حاضری دی اور کچھ تبروک خریدا۔ اور واپس پیدل ہوٹل آیا۔رات کا کھانے کا وقت شروع ہوا تھا ریسٹورنٹ میں پھر اپسی گفت شنید ہوئی۔ میرے کھانے کے ٹیبل پر اس وقت نیرو بی کینیا کے ایمبیسڈ ر ڈاکٹر یوسف عبدالرحمن نزیو تھے جو کچھ بیمار سے تھے میں نے ان کو تھوڑا سہارا دیا جس سے وہ بہت متاثر ہوئے اور میری ان سے سخت دوستی ہوئی۔ وہ مجھ سے 9 سال بڑے ہیں اور مجھے چھوٹا بھائی مان کر اچھی باتیں کہیں۔
کانفرنس کے تیسرے اور اخری دن 29 اگست منگلوار ہمارا نجف الاشرف جانے کا پروگرام تھا۔ صبح ناشتے پر پھر مدوبین کی آپسی گفت شنید ہوئی اور 10 بجے گاڑیوں میں سوار ہوکر کربلا سے نجف 75 کلومیٹر کے لیے چل پڑے۔ راستے میں میں نے مشاہدہ کیا کہ نجف سے بھاری تعداد میں لوگ کربلا میں حضرت امام حسین علیہ السلام کے سالانہ چہلم کی تقریب میں شامل ہونے کے لیے جو ق درجوق پیدل چل رہے ہیں اور سڑک کے دونوں اطراف قیام طعام کا اعلی انتظام ہے معلوم ہوا کہ عراقی غیور عوام کی طرف سے زائرین کے لیے ہر سال چہلم پر قیام طعام کا انتظام ہوتا ہے اور زیادہ تر لوگ ایران سے آتے ہیں چونکہ ایران اور عراق ویزانہیں ہے اور سرحد کھلی چھوڑی جا رہی ہے راستے میں گاڑیوں کا بھی جام تھا میں نے دریائے فرات بھی دیکھا ایک بجے کے قریب ہم نجب الاشرف میں شاہ ولایت حضرت علی کرم اللہ تعالی وجہہ کے مزار مقدس کے بالکل قریب پہنچے۔ یہا ں منتظمین کو میں نے اپنا منتظر پایا اور ہمیں خصوصی طور زائرین کی بھیڑسے نکال کر ایک وسیع و عریض ہال میں لےجایاگیا۔ وضو اور منہ ہاتھ دھونے کے بعد ہمیں ظہرانہ پیش کیا گیا۔جس کے بعد مدوبین کو کانفرنس ہال لے جایا گیا جہاں بعض ساتھیوں نے نماز ظہر سے فارغ ہو کر کانفرنس کے تیسرے اور اخری سیشن میں شمولیت کی۔تقریبا تین گھنٹے تک جاری کانفرنس کے اس آخری سیشن میں کئی ایک مدوبین نے اپنے خیالات اور احساسات کا اظہار کیا جس کا لب لباب فلسطین اور مسلمانوں کے قبلہ اول مسجد اقصی کی صیہونی طاقتوں کے ہاتھوں آزادی، ظالم اسرائیلی ہاتھوں کے پنجوں سے مظلوموں کو باہر نکالنا تھا۔ کانفرنس میں فلسطینی مظلوم و محکوم عوام کے ساتھ بھرپور یکجہتی کا اظہار کیا گیا اس کے بعد دعائے کلمات کے ساتھ ہی کانفرنس کااختتام کیا گیا۔ دعا میں پوری ملت اسلامیہ اور سارے عالم انسانیت کے حق میں دعا کی گئی اس کے ساتھ ہی’ گلوبل کمپین ٹو ریٹرن ٹو فلسطین نامی این جی او کی طرف سے ”الاقصی کی پکار“عنوان سے منعقدہ دوسری بین الاقوامی کانفرنس اختتام پذیر ہوئی۔
کانفرنس کے بعد میں نےبعض ساتھیوں کے ہمراہ حضرت علی کرم اللہ تعالی وجہہ کے مزار مقدس پر حاضری دی میں حسب عادت بیچ میں جگہ نکال کر بھیڑ کو چیرتے ہوئے حاضری دینے میں کامیاب ہوا۔ منتظمین اور رضاکار کانفرنس کے شرکاءمندبین مہمانوں کا انتظار کر رہے تھے اور ہر ایک کو بھیڑ سے ڈھونڈ ڈھونڈ کر کر بسوں میں سوار کر رہے تھے۔میں بھی بس میں سوار ہوا۔ ہم چار بجے کے قریب واپس کربلا ہوٹل کے لیے نکلے۔راستے میں میں نے بہت زیادہ جام دیکھا اور گاڑی کچھوے کی طرح چل رہی تھی دن ڈھلنے لگا اور زائرین نجف کی زیارت کرکے پیدل کربلا کی طرف پیش قدمی کر رہے تھے رات کے9 بجے کے قریب ہم کسی مقام پر پہنچے جہاں نہ صرف ہمارے عشائیہ کا انتظام کیا گیا تھا بلکہ یہاں سڑک کے کنارے ہی ایک مختصر تقریب رکھی گئی تھی جس میں فلسطینی نوجوانوں نے ترنم میں ایک گانا بھی گایا۔ امام علی علیہ السلام اور امام حسین علیہ السلام کے تعئیں خراج عقیدت بھی پیش کیا۔یہاں سے پھر ہمیں بسوں میں سوار کر کے کربلا لے جایا گیا تقریبا 12 بجے رات ہم ہوٹل پہنچے۔
اگلے دن بدھوار 30 اگست صبح پھر ناشتے پر تمام مدوبین کی آپس میں ملاقات ہوئی۔ چند ایک مدوبین کو اپنے اپنے وطن نکلنے کے لیے جلدی تھی ان کے فلائٹ کا وقت قریب آرہا تھا اور انہیں بغداد کے حماد ایئرپورٹ جو کہ کربلا سے 105 کلومیٹر کی دوری پر ہے پہنچنا تھا۔ جبکہ مجھے بھی اسی دن رات 10 بجے بغداد کے انٹرنیشنل ایئرپورٹ سے اپنےہندوستانی، پاکستانی، نیپالی ،سری لنکا اور دیگر ممالک کے ساتھیوں سمیت دوحہ کے لیے فلائٹ تھی۔ ہمارے پروگرام میں آج بغداد میں حضرت شیخ سید عبدالقادر جیلانی رحمتہ اللہ علیہ اور دیگر کئی بزرگوں بشمول جنید بغدادی اور حضرت ابو حنیفہ رض کے مزارات کی زیارت کا تھا۔اور جب میں نے اپنی کوارڈینیٹر آمنہ موسی فلسطینی بہن سے اس بارے میں پوچھا تو اس نے معذرت کے ساتھ کہا”کہ سڑکوں پر زائرین کی بھیڑ اور گاڑیوں کا جام ہے اس لیے بغداد میں حضرت غوث الاعظم اور دیگر بزرگوں کی درگاہوں کی زیارت ممکن نہیں ہے۔ اور پھر 10 بجے رات آپ کی روانگی ہے اور4 گھنٹے پہلے بغداد ایئرپورٹ پہنچنا ہے اس لیے مینجمنٹ نے یہی فیصلہ کیا ہے کہ آپ لوگوں کو چار بجے ہوٹل سے بغداد ایئرپورٹ کے لیے الوداع کہا جائے۔ میری غوث اعظم رحمتہ اللہ علیہ کے مزار پر حاضری کی تمنا ادھوری رہی۔ آمنہ موسی بہن نے میرے جذبا اور انکھوں میں نمی دیکھی اور کہا منظور بھائی اپ حوصلہ رکھیں۔ مجھے امید ہے کہ آپ پھر یہاں آئیں گے اور ضرور دوسری بار بغداد میں حضرت غوث الاعظم کے مزار پر حاضری دیں گے۔البتہ میں آج آپ کو ایک رضا کار ساتھ دیتی ہوں جو آپ کو پھر حضرت امام حسین علیہ السلام اور حضرت عباس علیہ السلام کے مزار پر حاضری دینے ساتھ آ سکتا ہے“۔میں نے غنیمت سمجھا او دل میں یہ امید باندھی کہ مجھے پھر عراق آنا ہوگا اور اس بار انشاءاللہ بغداد میں قیام کرنا ہوگا اور وہاں حضرت شاہ جیلان رحمت اللہ علیہ کے دربار میں حاضری دینی ہوگی۔مجھے ایک پیارا سا فلسطینی بچہ جو انگریزی زبان جانتا تھا ساتھ آیا اور ہم دھوپ کی پروا نہ کرتے ہوئے پیدل امام حسین علیہ السلام کے مزار کے لیے نکلے۔ دھوپ تیز تھی ڈیڑھ کلومیٹر کا فاصلہ طے کرنے کے بعد میں نے مزار کا طواف کیا اور عراقی 8000 عراقی دینار خرچ کر کے اپنی بیٹی کی فرمائش پر اس کے سسرال والوں کے لیے کچھ تبرکات کے طور کھانے کی چیزیں اور تسبیح وغیرہ خریدی۔ اور واپس ہوٹل کے لیے نکلا ہوٹل پہنچ کر اپنا سامان پیک کیا اور ریسٹورنٹ میں دوسرے ساتھیوں سمیت کھانا کھا کر نیچے لابی میں آیا۔یہاں بعض فلسطینی اور افریقی دوستوں سے گفت و شنید ہوئی۔ ٹھیک چاربجے سہ پہر ایک قیمتی گاڑی میں مجھے دوسرے ساتھیوں سمیت بٹھایا گیا ہمارا سامان بریف کیس، سوٹ کیس یا بیگ وغیرہ ایک دوسرے لوڈ کیریر گاڑی میں رکھے گیے۔ میرے ساتھ جانے والوں میں پٹنہ بہار کے قبلہ ڈاکٹر سید شاہ شمیم الدین احمد منعمی سجادہ نشین خانقاہ منعمیہ ، فلسطینی ڈاکٹر احد ابو الطا حال جکارتا، ملیشیا کے عبدالغنی شمس الدین، دلی کے سریندر سنگھ شجر معروف اردو شاعر، سری لنکا کے بھکشو وین کالو پانا چیئرمین ہیومن ڈیولپمنٹ ایڈی فکیشن سینٹر، دہلی کے ڈاکٹر سید محمد صادق حسینی چیئرمین تقریب مذاہب کونسل ہند ،کرناٹک کے سید علی باقر چیئرمین اہل بیت علیہ السلام ایجوکیشنل ویلفیئر ٹرسٹ، نیوروبی کینیا کے ایمبیسڈر ڈاکٹر یوسف عبدالرحمان بانی و چیئرمین فاطمہ بنت خدیجہ فاو¿نڈیشن اور نلسن منڈیلا کے پوتے اکوسائی منڈیلا ساوتھ افریقہ اورکئی دیگر تھے۔ کربلا سے بغداد کے ایئرپورٹ کی دوری اگرچہ 70 کلومیٹر ہے مگر سڑکوں پر زائرین کا اڑدھام کی وجہ سے گاڑیوں کا جام تھااور ہم ٹھیک سات بجے کے قریب بغداد ایئرپورٹ پہنچنے میں کامیاب ہو گئے بورڈنگ پاس حاصل کرنے کے بعد تمام ساتھی ایک ساتھ بورڈنگ کا انتظار کرتے رہے۔بورڈنگ پاس حاصل کرنے کے بعد ہم تمام ساتھی ایک ساتھ بورڈنگ کا انتظار کرتے رہے ہم تمام ساتھیوں کی فلائٹ ایک ہی تھی۔ بغداد ایئرپورٹ پرمیرے سمیت کئی ساتھیوں کے موبائل فونوں کے پاور بینک چیکنگ سے گزرتے ہوئے واپس نہیں کیے گئے۔معلوم ہوا کہ بغداد سے جاتے ہوئے فلائٹ میں پاور بینک لے جانا ممنوع ہے۔ ٹھیک 10 بجے ہندوستانی وقت کے مطابق رات ساڑھے بارہ بجے قطر ائر وویز کی فلائٹ نمبر QR 571 نے دوحہ کے لیے اڑان بھری بصرہ سمیت کئی عراقی شہروں ، کویت اور کے خلیج کے اوپر سے پرواز کرتے ہوئے ہمارا جہاز دو گھنٹے بعد سمندر کے کنارے دوحہ کے جدید ترین ایئرپورٹ پر لینڈ کر گیا۔یہاں سے ہندوستانیوں اپنے دوسرے ممالک کے ساتھیوں کو الوداع کہااور اپنی بورڈنگ پاس ہاتھ میں لے کر اپنے گیٹ کو ڈھونڈتے ہوئے ویٹنگ روم میں بورڈنگ کا انتظار کرنے لگے رات ڈیڑھ بجے کے قریب ہماری بورڈنگ ہوئی اور قطر ایرویز کے جہاز QR570 نے دوحہ سے دہلی کے لیے اڑان بھری۔چار گھنٹے کی مسافت کے بعد ہندوستانی وقت کے ٹھیک ساڑھے آٹھ بجے صبح ہمارے جہاز نے اندرا گاندھی انٹرنیشنل ایئرپورٹ ٹرمنل 3 پر لینڈ کیا۔امیگریشن کے تمام ضابطے پورے کرنے کے بعد میں نے اپنا سامان جو کہ ایک چھوٹے سے سوٹ کیس پر مشتمل تھا ،کو بیلٹ سے حاصل کیا۔ائرپورٹ سے باہر آیا چونکہ میری فلائٹ آج ہی دن کے ایک بجے سری نگر کے لیے تھی۔اس لیے میں نے ایئرپورٹ پر ہی قیام کرنا مناسب سمجھا۔چائے پانی کے بعد ایئرپورٹ کے اندر داخل ہوا اور سری نگر کی سپائس جیٹ فلائٹ کا بورڈنگ پاس حاصل کر کے وطن جانے کے لیے فلائٹ میں بیٹھا۔ سرینگر ایئرپورٹ پر اپنے فرزنددانش منظور کو گاڑی سمیت اپنا منتظر پایا۔ یہ میری زندگی جو زیادہ تر سفر میں کشمیر سے اجمیر تک گزری ہے،کاپہلاغیر ملکی سفر تھا۔اللہ بہتر جانتا ہے کہ آگے میرا سفر کہاں کا ہوگا امید ہے
اور بزرگوں کی دعائیں ہیں کہ ابھی بہت سفر باقی ہے۔

Gadyal Desk
Gadyal Desk
Previous Post

DC Poonch approves allotment of Electro-Mechanical Works, Bore Wells under Jal Jivan Mission

Next Post

Prime Minister Narendra Modi meets President Biden

Related Posts

‘Operation Sindoor’: Indian Armed Forces Hit 9 Terror Camps Across LOC
Article

Operation Sindoor, India’s Masterful Strike Against Terror

by Syed Shakeela
09/05/2025
0

The skies were still dark when India's most elite Air Force pilots took off on a mission that would soon...

Read more
THE CALL OF THE MOUNTAINS NORTH KASHMIR’S NEW FRONTIERS FOR ADVENTURE SEEKERS

NAYA KASHMIR- EK KASHMIRI KE AANKHO SE

09/05/2025
WORLD ATHLETICS DAY

WORLD ATHLETICS DAY

03/05/2025
UNVEILING THE SPLENDOR OF GUREZ VALLEY AN ODYSSEY FROM DAWAR TO THE ENIGMATIC PATALWAN LAKE

THE EVOLVING DIGITAL LANDSCAPE OF KASHMIR: A DECADE OF TRANSFORMATION

01/05/2025
KASHMIR THROUGH THE LENS: PHOTOGRAPHY AND STORYTELLING

CULTURAL HERITAGE OF KASHMIR: A RICH TAPESTRY OF TRADITION AND LEGACY

01/05/2025
Next Post
Prime Minister Narendra Modi meets President Biden

Prime Minister Narendra Modi meets President Biden

  • Contact
  • About us
  • Advertise
  • Careers
  • Privacy Policy
e-mail: [email protected]

© 2022 Gadyal - Designed and Developed by GITS.

No Result
View All Result
  • Home
  • Kashmir
  • Jammu
  • World
  • National
  • Sports
  • Article
  • ePaper

© 2022 Gadyal - Designed and Developed by GITS.