۔جبکہ دفعہ 370کی منسوخی کے بعد یہاں کے زرعی سیکٹر کو بہتر بنانے کےلئے مرکزی سرکار نے کئی اشیاءکو جی آئی ٹینگنگ کے زمرے میں لایا ہے ۔ جن میں اخروٹ ،سیب ، زعفران، ساگ ، ندرو وغیرہ شامل ہے ۔
مقامی طور پر اُگائی جانے والی چاولوں کی اقسام جس میں خاص طور پر ”مشک بدجی“، زگ “وغیرہ چاول شامل ہیں ۔ ان چاولوں کے اقسام کو از سر نو یہاں پر اُگانے کےلئے متعلقہ محکمہ نے عملی طور پر اقدامات اُٹھائے ہیں ۔
زرعی سیکٹر میں دفعہ 370کے بعد انقلاب
سیب، اخروٹ، زعفران ، ساگ ، ندرو، مشک بدجی چاول کو جی آئی ٹیگ کے زمرے میں لایا گیا
میوہ جات کی سالانہ فصل میں اضافہ، کاشتکاروں کو بیمہ فصل سے بھی نوازا گیا
جموں کشمیرایک زرعی پیداواری شعبہ میں ملک میں ایک ہم خطہ ہے جس کے زرعی سیکٹر کی طرف دفعہ 370کے بعد مرکزی سرکار نے خصوصی توجہ دینی شروع کی ہے ۔ مرکزی سرکار نے کئی اہم اقدامات اُٹھائے جن میں یہاں پر اُگائے جانے والی کئی اشیاءجیسے اخروٹ، سیب ، ساگ ، زعفران کو جی آئی ٹینگنگ کے زمرے میں لایا ہے جس کی وجہ سے یہاں پر زرعی سیکٹر کو کافی فروغ ملا ہے ۔ خاص کر یہاں پر مقامی طور پر اُگائی جانے والی چاولوں کی اقسام جس میں خاص طور پر ”مشک بدجی“، زگ “وغیرہ چاول شامل ہیں ۔ ان چاولوں کے اقسام کو از سر نو یہاں پر اُگانے کےلئے متعلقہ محکمہ نے عملی طور پر اقدامات اُٹھائے ہیں ۔ جبکہ دفعہ 370کی منسوخی کے بعد یہاں کے زرعی سیکٹر کو بہتر بنانے کےلئے مرکزی سرکار نے کئی اشیاءکو جی آئی ٹینگنگ کے زمرے میں لایا ہے ۔ جن میں اخروٹ ،سیب ، زعفران، ساگ ، ندرو وغیرہ شامل ہے ۔ ”وادی کشمیر کے آبی ذخائر میں اُگنے والے“ندرو کے بارے میں وزیر اعظم نریندر مود ی نے حال ہی میں اپنی من کی بات ریڈو پروگرام میں ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ندرو نے عالمی منڈی میں ایک جگہ بنائی ہے ۔زرعی شعبہ کے فروغ کے حوالے سے ڈائریکٹر ہارٹیکلچر اور ڈائریکٹر ایگریکلچر نے بتایا کہ سرکار کئی سکیموں کو رائج کیا ہے جس سے زرعی سیکٹر کو فروغ مل رہا ہے ۔ انہوں نے بتایا کہ جموں کشمیر کا جغرافیائی علاقہ 242241کلو میٹر ہے جس میں سے کشمیر صوبہ میں 546790 کنبے فارم چلاتے ہیں ہیں جبکہ جموں صوبہ میں 646421کنبے زراعت سے منسلک ہیں اور مجموعی طور پر 1193211 کنبے زراعت سے وابستہ ہے ۔ اگر ہم یہاں زمینی رقبہ کی بات کریں تو خالص کاشت شدہ رقبہ 3.90 لاکھ ہیکٹر 3.49 لاکھ ہیکٹر 7.52 لاکھ ہیکٹرہے جو کہ مجموعی کاشت شدہ رقبہ 7.54 لاکھ ہیکٹر 4.90 لاکھ ہیکٹر 12.44 لاکھ ہیکٹرہے ۔ اس کے علاوہ خالص رقبہ سیراب شدہ 1.34 لاکھ ہیکٹر 2.14 لاکھ ہیکٹر 3.48 لاکھ ہیکٹرہے اور غیر سیراب 2.56 لاکھ ہیکٹر 1.35 لاکھ ہیکٹر 4.04 لاکھ ہیکٹرہے ۔ اورجموں و کشمیر کی معیشت بنیادی طور پر زراعت پر منحصر ہے اور تقریباً 70% آبادی براہ راست یا بالواسطہ طور پر زراعت اور اس سے منسلک پیشوں سے منسلک ہے۔ جو یوٹی کو زراعت پر انحصار کرتا ہے ۔محکمہ زراعت، کشمیر ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن (ڈبلیو ٹی او) کے موجودہ دور حکومت میں کسانوں کے لیے زراعت کو ایک پائیدار اور منافع بخش اقتصادی سرگرمی بنانے کا تصور کرتا ہے جہاں پوری دنیا میں کھلی منڈی کا منظر نامہ موجود ہے۔ انتہائی مسابقتی زرعی منڈیوں میں مو¿ثر طریقے سے حصہ لے کر زراعت کو انٹرپرینیورشپ میں تبدیل کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔اس سلسلے میں محکمہ زراعت نے اسے کموڈٹی بیسڈ سے پروڈکٹ بیسڈ کی طرف موڑ دیا ہے۔ اس نقطہ نظر میں، مارکیٹ کی طلب، ترجیحات اور اجناس کی صلاحیت کی بنیاد پر اہم مصنوعات اور بازاروں کی شناخت کی جاتی ہے۔ زراعت کو منافع بخش اور منافع بخش کاروبار بنانے اور کسان کو زرعی کاروباری بنا کر زراعت کو ایک گلیمرس انٹرپرائز بنانے کے لیے دو رہنما اصولوں پر مبنی ایک مضبوط حکمت عملی اپنائی جا رہی ہے۔جیسا کہ جے کے کو آف سیزن سبزیاں فراہم کرکے باقی ہندوستان پر برتری حاصل ہے جس سے ہمارے کسانوں کو مارکیٹ پر اجارہ داری حاصل کرنے میں مدد ملتی ہے اور اس وجہ سے انہیں ان کی پیداوار کی بہتر قیمت فراہم کی جاتی ہے۔ اس نقطہ نظر کو دوسرے علاقوں میں بھی سائٹ کی مخصوص فصل کی پیداوار کی بنیاد پر نقل کرنے کی ضرورت ہے۔ ان فصلوں کو کشمیر فریش کا نام دیا جائے گا تاکہ پوری دنیا میں کھلی منڈیوں کی دستیاب صلاحیت کو استعمال کیا جا سکے۔روایتی وراثت کی اقسام جیسے مشک بدجی، سرخ چاول (زگ)، کماد کو دوبارہ زندہ کیا جائے گا اور کامیابی کے ساتھ مارکیٹنگ کی جائے گی۔ مشک بودجی کو کامیابی کے ساتھ بحال کرنے کے بعد محکمہ اب سرخ چاول (زگ)، کماد جیسی اقسام کے احیاءپر توجہ مرکوز کر رہا ہے۔ادھر کئی تاجروں نے بتایا کہ گزشتہ چار برسوں میں زرعی شعبے خاص کر میوہ کی پیداوار میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے ۔ اس کے علاوہ فصل بیمہ کے اطلاق کے بعد یہاں کے کاشتکاروں کو کافی راحت ملی ہے ۔ انہوںنے بتایا کہ بارہمولہ اور شوپیاں میں کولڈ سٹوریج قائم کئے گئے ہیں جس سے میوہ صنعت کو کافی فائدہ ملا ہے ۔ ادھر حکام نے بتایا ہے کہ گزشتہ برس وادی میں 21 لاکھ میٹرک ٹن سے زیادہ سیب کی فصل ہوئی جبکہ پہلے کشمیر میں سالانہ تقریباً 17 سے 18 لاکھ میٹرک ٹن سیب کی کٹائی ہوتی تھی اور ملک کی کل سیب کی پیداوار میں کشمیر کا حصہ 75 فیصد سے زیادہ ہے۔ اور سیزن میں وادی سے اوسطاً 2,000-2,500 سیب کے ٹرک نکلتے ہیںجو کسی بھی خطے سے سب سے زیادہ پروڈیکشن ہے
Kashmir: BJP celebrates party victory in Delhi Assembly election
Srinagar: Bharatiya Janata Party (BJP) leaders and workers in Kashmir celebrated party's victory in Delhi Assembly election, at the party...
Read more