محمد سلیم سالک
عالم تخیل میں ڈل جھیل کے کنارے ایک استاد اور شاگرد گھاٹ نمبر 14 پر ایک طویل عرصے کے بعد ملاقی ہوتے ہیں اور ایک دوسرے کے بارے میں خیرو عافیت پوچھنے کے بعد دونوں علم وادب کی وادیوں میں دور تک نکلتے ہوئے گویاہوتے ہیں:
استاد: کیسا چل رہا ہے تمہارا تخلیقی سفر برخوردار۔
شاگرد:آ پ کی دعاؤں کے طفیل کچھ نہ کچھ لکھتا رہتاہوں۔
استاد: بہت عمدہ،لکھتے رہو……
شاگرد: آپ سے ایک بات پوچھنے تھی اگر اجازت مل جائے۔
استاد: شو ق سے۔
شاگرد: حال میں میری ملاقات کافی ہاوس میں کہنہ مشق شاعر سے ہوئی۔ کہنہ مشق شاعر صاحب نئی نسل کے تعلق سے کچھ کبیدہ خاطر لگے۔ان کاماننا ہے کہ نئی نسل مطالعہ کی طرف زیادہ راغب نہیں ہے بلکہ سستی شہرت کے لئے سوشل میڈیا کا استعمال کرتی ہے اور ساتھ ہی انہوں نے نئی نسل کو عجلت پسند بھی کہا۔
استاد: صحیح تو کہا ہے کہنہ مشق شاعر صاحب نے ……!!
شاگرد: آپ بھی کہنہ مشق صاحب کی طرف داری کرنے لگے۔
استاد: اچھا بتاؤ کیا پوچھنا تھا ……
شاگرد: کیا شاعر بننے کے لئے طویل عمر درکار ہوتی ہے؟
استاد: اس میں دورائے نہیں کہ عمر کے ساتھ ساتھ تجربات میں پختگی آتی ہے۔شاید اسی لئے انہوں نے عمر پر زیادہ زور دیاہوگا۔اگرچہ ایسا ضروری نہیں ہے۔تخلیقی صلاحیت رکھنے والا کم عمری میں بھی اچھے اورعمدہ شعرتخلیق کرسکتا ہے،بشرط یہ کہ اس کے پاس تینوں میموں کا علم ہو۔
شاگرد: براہ کرم یہ بتائیں کہ وہ تین (م) کون سے ہیں۔
استاد: برخوردار صبر کرو۔پہلا (م) مطالعہ ہے۔مطالعہ میں وہ سب کچھ آتاہے جو تم کتابوں میں پڑھتے ہو،اساتذہ سے سنتے ہواور دیگروسائل بروئے کار لاکر علم میں اضافہ کرتے ہو۔اب اگر تم نصابی ضرورت کے مطابق پڑھنے کو مطالعہ کہو گے تو وہ اس کے محدود معنی ہوں گے۔غالب کی چارغزلیں پڑھنے کے بعد تم یہ دعوا کروں گے کہ میں نے غالب کو پڑھا ہے،یہ سب سے بڑی زیادتی ہے۔
شاگرد: (بڑی تجسس کے ساتھ)آپ کا فرمانا بجا ہے۔
استاد: مطالعہ کی کثرت میں برکت ہے۔جب مطالعہ میں مشاہدہ شامل ہوجائے تو کیاکہنے ……
شاگرد: قبلہ تخلیقی سفر میں مشاہدہ کی کیا اہمیت ہے ؟
استاد: یہ ایک دلچسپ سوال ہے،ا س کے کئے جوابات ہوسکتے ہیں۔مشاہدہ کرنے کے بعد جب ادرک اور غوروفکر کر کے احساسات وجذبات تجربات کی بھٹی میں پک کرایک خیال تخلیقی جامہ پہن لے تو سمجھو تخلیقی سفر کا آغاز ہوگیا۔
شاگرد: قبلہ آپ تو شاعری کرنے لگے۔
استاد:جب سامنے ایک اچھا شاعر بیٹھا ہوتوایسا ہونا یقینی ہے۔
(اس بات پر دونوں زور زور سے قہقہ مارتے ہیں )
شاگرد: قبلہ دوسرے (م) کے بارے میں بھی کچھ بتائیں۔
استاد: مشق ہی دوسرا (م) ہے۔ایک تخلیق کار کے لئے مشق بہت ضروری عمل ہے۔مشق کو ہی ریاضت کہا جاتا ہے۔کیا تم نے انتن چیخوف کا وہ قول نہیں سنا ہے کہ ”تب تک لکھتے رہوجب تک تمہارے قلم سے کوئی شاہکار نہ نکل آئے“۔
شاگرد: مشق تو کرتے رہتے ہیں۔
استاد: (مسکراہٹ کے ساتھ) ایک غزل لکھنے کو مشق نہیں کہتے برخوردار۔ ایک تخلیق مکمل کرنے کے بعد اس کو ایک عرصے کے لئے زنبیل میں ڈال دو۔پھر دوبارہ نکال کر نوک پلک سنوارو۔شعرکے محاسن ومعائب پر دھیان دو۔روزمرہ اور محاورہ کی لطافت سمجھو۔آہنگ و بحر کا خیال رکھو۔مقدار سے زیادہ معیار کو اپناؤ۔پھر مشق کی برکتیں دیکھو۔
شاگرد: آپ نے تو ڈراہی دیا۔اتنی سخت محنت کون کرتاہے بھلا آج کے دور میں۔
استاد: اسی لئے کہنہ مشق شاعر صاحب نے نئی نسل کو جلد باز کہا تھا۔
شاگرد: دوسرا (م) کا مرحلہ یقینا سخت مرحلہ ہے۔
استاد: اسی لئے کہا جاتاہے کہ چھپنے کے لئے چھپنا ضروری ہے۔
شاگرد: قبلہ اب تیسرے (م) کے بھی دیدار کروائیں۔
استاد: تیسرا (م) مشورہ ہے۔
شاگرد: جناب مشورہ کس سے کریں۔
استاد: مشورے کی پہلی شرط یہ ہے کہ”لکل فن الرجال“کے اصول مطابق مشورہ اسی شخص سے کریں جو اپنے فن میں ماہر ہو۔ورنہ ”کارنجار بدست گلکار“والا معاملہ ہوگا۔
شاگرد: آپ نے تو میری آنکھیں کھول دیں۔تخلیقی سفر کے یہ تین اہم پڑاؤ نئی نسل کے لئے سنگ میل ثابت ہوں گے۔
استاد : اسی لۓ کہا جاتا ہے شعر وشاعری میں خون جگر صرف ہوتا ہے ۔
شاگرد: (مسکراہٹ کے ساتھ) اسی لئے بہت پہلے علامہ اقبال کہہ گئے:
رنگ ہو یا خشت و سنگ،چنگ ہو یا حرف و صوت
معجزہ ئ فن کی ہے خونِ جگرسے نمود