ہر مہینے کم سے کم 3سے چار دن ہڑتال رہتی تھی جبکہ کسی
واردات کے بعد مہینے میں کبھی ایک ہفتہ لگاتار بند رہتا تھا جس کے بعد کاروباریوں کو ہر مہینے کروڑوں روپے کا نقصان اُٹھانا پڑتا تھا ۔ انہوںنے بتایا کہ گزشتہ چار برسوں میں ایک بھی ہڑتال نہیں کی گئی جس کے بعد تاجروں کو کافی فائدہ ملا ہے ۔
گزشتہ تیس سالوں کے دوران وادی کشمیر میں قریب 3000سے زائد دنوں تک ہڑتال رہی جس کے نتیجے میں کاروباری اداروں کو مجموعی طور پر 14ہزار کروڑ روپے کا نقصان اُٹھانا پڑا ہے ۔
جموں کشمیر میں گزشتہ 30برسوں سے جو حالات تھے اس کی وجہ سے عام انسانوں کو سخت تکالیف کا سامنا کرنا پڑا تھا اور لوگ آئے روز ہڑتالوں، مار دھاڑ ، فائرنگ ، قتل و غارت گری، گرنینڈ دھماکوں اور اغواری کے معاملات کی وجہ سے خوف و دہشت میں جی رہے تھے اور جو صبح گھر سے روزی روٹی کمانے اور دیگر ذمہ داریاں نبھانے کےلئے نکلتا تھا اس کے شائد ہی واپس خیریت سے گھر پہنچنے کی امید تھی ۔ یہاں پر ایسے متعدد واقعات رونماءہوئے ہیں جن میں کنبوں کا واحد کفیل اپنے کنبہ کےلئے روزی روٹی کی تغ و دو میں رہتا تھا اور کہیں پر بھی تشدد آمیز واردات کا شکار ہوکر ابدی نیند سوجاتا تھا ۔ اگر ہم مثالیں پیش کریں تو کاغذ ختم ہوگا قلم کی سیاحتی ختم ہوگی لیکن ایسی وارداتوں کی گنتی ختم نہیں ہوںگی ۔ ایک اندازے کے مطابق وادی کشمیر میں ایک ہزار سے زائد ایسے کنبے ہیں جن کے واحد کفیل تشدد کے شکار ہوکر اس دنیا سے جاچکے ہیں اور ان کے کنبہ کے افراد سماج کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ تاہم دفعہ 370کے اختتام کے بعد حالات یکسر تبدیل ہوئے سال 2019کے بعد سے ایک بھی دن کشمیر میں ہڑتال نہیں رہی اور ناہی کسی دن کرفیو کا نفاذ عمل میں لایا گیا ۔ شائد ہی کسی نے سوچا تھا کہ کشمیر میں ایسے بھی حالات ہوں گے جب ایک انسان ایک بجے رات تک گھر سے باہر رہتے ہوئے بھی واپس محفوظ اپنے گھر پہنچ سکتا ہے ۔ آج لوگوں کی زندگی میں خوشحالی آئی ہے اور لوگ اپنے گھروں سے باہر آکر آزادانہ طور پر نقل و حمل کرسکتے ہیں۔ اعدادوشمار کے مطابق گزشتہ تیس سالوں کے دوران وادی کشمیر میں قریب 3000سے زائد دنوں تک ہڑتال رہی جس کے نتیجے میں کاروباری اداروں کو مجموعی طور پر 14ہزار کروڑ روپے کا نقصان اُٹھانا پڑا ہے ۔ اس ضمن میں کئی ایک نامور ٹریڈروں سے بات کی گئی تو انہوںنے بتایا کہ ہر مہینے کم سے کم 3سے چار دن ہڑتال رہتی تھی جبکہ کسی واردات کے بعد مہینے میں کبھی ایک ہفتہ لگاتار بند رہتا تھا جس کے بعد کاروباریوں کو ہر مہینے کروڑوں روپے کا نقصان اُٹھانا پڑتا تھا ۔ انہوںنے بتایا کہ گزشتہ چار برسوں میں ایک بھی ہڑتال نہیں کی گئی جس کے بعد تاجروں کو کافی فائدہ ملا ہے ۔ ادھر ماہر ین تعلیم نے بھی اس بات پر اطمینان کااظہار کیا ہے کہ وادی کشمیر میں ہڑتال کی وجہ سے اب تعلیمی ادارے خاص کر سکول بند نہیں کرنے پڑتے ہیں ۔ انہوں نے بتایا کہ گزشتہ تیس برسوں میں سکولوں میں درس و تدریس کے 4000ہزار ایام ضائع ہوئے ہیں جو کہ کسی بھی معاشرے کے تعلیمی کیرئر کےلئے کافی نقصان دن ہے ۔ انہوںنے بتایا کہ اب دفعہ 370کی منسوخی کے بعد ایک بھی دن سکول میں درس و تدریس کا دن ضائع نہیں ہوا ہے جو بچوں کے تعلیمی معیار کےلئے کافی بہتر ہے ۔ دفعہ 370کے خاتمہ کے بعد وادی کشمیر میں سنگ بازی کا دورہ بھی ختم ہوگیا اور جو نوجوان سنگبازی میں ہمیشہ ملوث رہتے تھے آج وہ اپنے کاروبار یا تعلیم کے حصول میں مشغول رہتے ہیں جبکہ سرکار نے نوجوانوں کےلئے کھیل کود کی سرگرمیوں کےلئے بنیادی ڈھانچے کو مضبوط بنایا ہے اور اس طرح سے یہ نوجوان کھیل کود کی سرگرمیوں کے علاوہ دیگر فنی سرگرمیوں میں مصروف رہ کر نہ صرف اپنے مستقبل کو بہتر بنانے کی فکر میں ہے بلکہ سماج اور ملک کے بہتر مستقبل کےلئے بھی یہ نوجوان کام کررہے ہیں۔ وادی کشمیر میں امن و قانون کی صورتحال کافی حد تک بہتر ہے اور اکادکاواردات کو چھوڑ کر مجموعی طور پر اب حالات بہتر ہوگئے ہیں سرکاری اعدادوشمار کے مطابق رواں برس کے سات مہینے گزشتہ 33سالوں میں سب سے پُر امن رہے ہیں جس میں ملٹنسی کے واقعات کافی حد تک کم ریکارڈ ہوئے ہیں۔ مجموعی طور پر دفعہ 370کے خاتمہ کے بعد وادی کشمیر میں ایک عام انسان کو راحت ملی ہے اور لوگ پہلے کی طرح اب آزادانہ طور پر چل پھر سکتے ہیں اور کارورباری سرگرمیوں اور دیگر سماجی کاموں میں حصہ لیتے ہیں نہ کوئی بندش ہے اور ناہی کسی قسم کا دباﺅ ہے ۔