جموں کشمیر میں دفعہ 370کی منسوخی کے بعد جو تبدیلیاں رونما ہوئیں وہ زمینی سطح پر عیاں ہے ۔ اگست 5سال 2019کو ملک کے جمہوری ادارے پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں جموں کشمیر تنظیم نو اور تقسیم کی قرارداد بھاری اکثریت سے منظور ہوئی اور ا س طرح سے آئینی طور پر جموں کشمیر کی خصوصی ہیت کو ختم کیا گیا ۔یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ جموں کشمیر کی خصوصی پوزیشن آئینی طور پر اسے حاصل تھی اور اس ضمن میں ایوان میں باضابطہ طور پر قرارداد پاس کی گئیں تھیں ۔ تاہم جموں کشمیر کو اگرچہ ایک منفرد آئینی حیثیت حاصل تھی لیکن ملک کے دیگر حصوں کی طرف جموں کشمیر کی ترقی نہیں ہورہی تھی اور اس کی بڑی رُکاوٹ دفعہ 370تھا جس کو وزیر اعظم نریندر مودی کی قیادت والی حکومت نے منسوخ کرکے جموں کشمیر کےلئے ترقی کی نئی راہیں کھول دیں۔ ان چار سالوں میں جموں کشمیر میں ہر شعبے میں ترقی دیکھی جاسکتی ہے خاص کر اگر ہم صحت کے شعبے کی بات کریں تو اس میں نمایاں تبدیلی دیکھنے کو ملی ہے ۔ آیوشمان بھارت سکیم کے تحت جموں کشمیر کے ہر کنبہ کو پانچ لاکھ روپے تک کا انشورنس سکیم کے دائرے میں لایا جاچکا ہے اور اس سکیم کی وجہ سے غریب طبقہ کے ایسے مریضوں کا مفت و علاج و معالجہ ممکن ہوپایا ہے جو علاج پر ایک بھی پیسہ خرچ کرنے کے اہل نہیں تھے ۔ اعدادوشمار کے مطابق آیوشمان بھارت سکیم کے تحت ”گولڈن کارڈ“ کے ذریعے جموں کشمیر میں ہر ماہ ایک ہزار سے زائد سرجریاں انجام دی جاتی ہیں اور ان جراحیوں پر جو خرچہ آتا ہے وہ سرکار برداشت کرتی ہے اور یہ سہولیت نہ صرف سرکاری ہسپتالوں میں دستیاب ہے بلکہ جموں کشمیر کے منظور شدہ ہسپتالوں میں بھی گولڈن کارڈ پر لوگوں کو مفت علاج و معالجہ فراہم کیا جارہا ہے ۔ اسی طرح سے اگر ہم تعلیمی شعبہ کی بات کریں تو تعلیمی شعبہ میں انقلابی نوعیت کے اقدامات اُٹھائے گئے ہیں ۔ جموں کشمیر کے دور دراز علاقوں میں تعلیم کو عام کرنے کی غرض سے سروشکشھا ابھیان کے تحت نئے سکول کھولے گئے جہاں پر غریب بچوں کو مفت تعلیم فراہم کی جاتی ہے جبکہ ان بچوںکو مفت کتابیں ، وردی اور دن کا کھانا بھی ان ہی سکولوں میں انہیں فراہم کیا جاتا ہے ۔ الغرض دفعہ 370کے اختتام کے بعد جو تبدیلیاں رونماءہوئیں ہیں ان سے براہ راست عام انسان کو فائدہ پہنچ رہا ہے ۔ اگست 2019کے بعد سرکار نے جموں کشمیر کے بنیادی ڈھانچے کی طرف خصوصی توجہ مرکوز کی ۔ ایسے علاقوں میں سڑکوں کی تعمیر کا کام شروع کیا گیا جہاں پر سڑک کا تصور بھی نہیں تھا ۔ اس طرح سے سڑکوں کے جال بچھانے سے ان دور دراز علاقوں تک لوگوں کی خاص طور پر سیاحوں کی رسائی آسان ہوئی اور ان علاقوں کو سیاحتی مقام حاصل ہورہا ہے ۔ اسی طرح پچھلے چار سالوں سے جموں و کشمیر نے اپنے پبلک ڈسٹری بیوشن سسٹم (پی ڈی ایس) میں ایک غیر معمولی تبدیلی دیکھی ہے۔ جدت انگیز اصلاحات اور ٹیکنالوجی پر مبنی اقدامات کے سلسلے کے ذریعے حکومت نے کامیابی کے ساتھ رساو کو ختم کیا ہے، کارکردگی میں اضافہ کیا ہے، اور پی ڈی ایس کے فوائد کو مستحق مستحقین تک پہنچانے کو یقینی بنایا ہے۔پی ڈی ایس استفادہ کنندگان کے ریکارڈ کے ساتھ آدھار کارڈ کو سیڈ کرنے کا حکومت کا فیصلہ شفافیت کو یقینی بنانے اور لیکیج کو روکنے میں ایک گیم چینجر رہا ہے۔ استفادہ کنندگان کی آدھار کی معلومات کو ان کے راشن کارڈ سے جوڑنے سے، سسٹم فول پروف بن گیا ہے جس سے نقل کے امکان کو ختم کیا گیا ہے اور اس بات کو یقینی بنایا گیا ہے کہ صرف اہل افراد ہی فوائد حاصل کریں۔نیشنل فوڈ سیکیورٹی ایکٹ کے کامیاب نفاذ نے معاشرے کے سب سے زیادہ کمزور طبقوں تک پہنچنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ نفساکے تحت 100% راشن کارڈ کی سطح کو حاصل کر کے حکومت نے اس بات کو یقینی بنایا ہے کہ کوئی بھی اہل گھرانہ پی ڈی ایس نیٹ سے باہر نہ رہے۔تقسیم کے عمل کو ہموار کرنے اور مزید جوابدہی لانے کے لیے انتظامیہ نے 6,735 پوائنٹ آف سیل مشینوں میں سے 6,413 کو آن لائن سٹیٹس میں تبدیل کر دیا۔
دفعہ 370کی منسوخی کے بعد سرکاری اداروں میں شفافیت اور جوابدہی کا رجحان بڑ ھ گیا اور سرکاری افسران اور ملازمین کو اس بات کا پابند بنایا گیا کہ وہ اپنی ذمہ داریوںکو بخوبی نبھائیں اور عوام کو کسی بھی طرح پریشان نہ کیا جائے ۔ سرکاری اداروں کو رشوت سے پاک قراردیئے جانے کی کارروائیاں بھی جاری ہے اور اس سلسلے میں کئی سرکاری ایجنسیوں کو متحرک کیا گیا ہے جو رشوت ستانی کے خلاف سرگرم ہے اور ان چار سالوں میں ایک ہزار سے زائد افسران اور ملازمین کو رنگے ہاتھوں پکڑ کر ان کے خلاف کارروائی عمل میں لائی گئی ۔ دفعہ 370کی منسوخی کے بارے میں وادی کی ایک معروف شخصیت اور نامور قانون دان نے بتایا کہ آرٹیکل 370 کے بعد وادی کشمیر میں ایک قابل ذکر تبدیلی آئی ہے۔ کوئی ہڑتال نہیں ہوتی اور ناہی کوئی بند کلینڈر اب جاری کیا جاتا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ اسکول، کالج، دفاتر اور کاروباری ادارے ملک کے کسی بھی دوسرے حصے کی طرح وادی سمیت یوٹی میں بھی کام کر رہے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ بنیادی ڈھانچے کی ترقی کی طرف خصوصی توجہ دی گئی اوران چار برسوں میں کئی تعلیمی ادارے اور میڈیکل کالج کھل چکے ہیں۔ جموں و کشمیر کے لوگوں کے لیے سفر کو آسان بنانے کے لیے سڑکیں اور سرنگیں بنائی جا رہی ہیں۔ سیاح ملک اور بیرون ملک سے بڑی تعداد میں لوگ پہنچ رہے ہیں اور ان کی تعداد نے پچھلے تمام ریکارڈ توڑ دیے ہیں۔ نئے ہائیڈرو پاور پروجیکٹ زیر تعمیر ہیں جو اگلے 3 سے 4 سالوں میں جموں و کشمیر میں پاور ہاو¿سز کی نصب صلاحیت کو دوگنا کر دیں گے۔ایڈوکیٹ موصوف نے بتایا کہ سب سے بڑی بات وادی کشمیر میں ملٹنسی کے واقعات میں بتدریج کمی آرہی ہے ۔ اکا دکا واقعات کو چھوڑ کر مجموعی طور پر حالات کافی بہتر ہے اور حالات کی بہتری کی وجہ سے کاروباری سرگرمیاں بھی بڑھ گئیںہیں۔ دفع 370کی جہاں تک بات ہے تو برٹش پارلیمنٹ کے انڈیا انڈیپنڈنس ایکٹ کے تحت تقسیم ہند کے واقعات اور اس کے بعد ہونے والے واقعات پر نظر دوڑانے سے پتہ چلتا ہے کہ بھارت کے پہلے وزیر اعظم جواہرلال نہرو شیخ عبداللہ سے بہت زیادہ متاثر تھے اور مہاراجہ ہری سنگھ (21 جون 1946 کو جموں و کشمیر میں داخل ہونے کی کوشش کے دوران کوہالہ میں ان کی نظربندی کے بعد) کے لیے اپنی ذاتی نفرت سے بھرے ہوئے تھے اور انہوں نے شیخ کی جانب سے خود کو تسلیم کرنے کا اعلان کیا تھا۔ ان کے کشمیری نسب نے بھی ایک کردار ادا کیا کیونکہ نہرو خود کو کشمیری نسل سے سمجھتے تھے۔اس طرح سے دفعہ 370کے نفاذ میں قومی مفاد کو کم اور ذاتی دلچسپی کوزیادہ ملحوض نظر رکھا گیا تھا۔ دفعہ 370کی منسوخی کے بعد جموں کشمیر کے حالات کا اس بات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ آج یہاںپر ملک کے کسی بھی خطے سے زیادہ سیاح موجود ہیں جبکہ گزشتہ برس ایک کروڑ سے زائد سیاح وارد کشمیر ہوئے جبکہ ان تین سالوں میں یہاں پر نوجوانوںکےلئے روزگار کے مواقعے بھی کھل گئے ہیں ۔ مجموعی طور پر اگر دیکھاجائے تو ان چار برسوں میں جموں کشمیر نے کافی بدلاﺅ دیکھا ہے خاص کر امن و قانون کی صورتحال کافی بہتر ہونے کے ساتھ ساتھ سرحدوں پر بھی امن و امان قائم ہوا ہے جو اپنے آپ میں ایک بہت بڑی بات ہے ۔
CS reviews admin efforts towards safeguarding Badhal residents
Jammu : Chief Secretary, Atal Dulloo on Thursday again chaired a meeting of all the concerned from Health and Police...
Read more