محمد سلیم سالک
عالم تخیل میں کہنہ مشق شاعر اور نوعمرتخلیق کار کافی ہاوس کے ٹیبل 13 پر گرم گرم کافی کے مگ لئے ایک دوسرے سے بحث میں الجھ گئے اور ایک دوسرے کو آئینے دکھانے کی تگ ودو میں دور کی کوڑیاں لانے کی کوشش کرتے ہوئے گویا ہوئے :
کہنہ مشق شاعر: برخوردار،یہ تم ”نئی نسل، نئی نسل“ کی کیارٹ لگائے بیٹھے ہو۔ابھی تم لوگوں کے دودھ کے دانت بھی نہیں نکلے ہیں اور تم ہماری برابری کے خواب دیکھنے لگے ہو۔
نوعمر تخلیق کار: قبلہ محترم، سنبھل کر بات کریں،ہمارے دودھ کے دانت نکل ہی آئیں گے لیکن آپ کے دانت ہاتھی کے دانت ہیں،جن کے ظاہر وباطن میں زمین وآسمان کا فرق ہے۔
کہنہ مشق شاعر: برخوردار بڑے بے ادب ہو۔کیا تم نے بڑوں سے بات کرنا نہیں سیکھا ہے۔
نوعمرتخلیق کار: محترم اس میں سیخ پاہونے کی ضرورت نہیں ہے۔کیاآپ نے کبھی شفقت سے ہمارے سروں پر ہاتھ رکھا ہے۔؟
کہنہ مشق شاعر: اچھا یہ بتاؤ۔کیا لکھتے ہو۔
نوعمر تخلیق کار: جناب، شاعری کرتاہوں۔
کہنہ مشق شاعر:(مصنوعی خوشی کا اظہارکرتے ہوئے) شاعر بننے کے لئے ایک عمر درکارہوتی ہے،تب کہیں شعرکے اسرارورمو ز کھلتے ہیں۔
نوعمرتخلیق کار: جناب آپ نے بجا فرمایا لیکن شعرگوئی کی شروعات نوعمری ہی سے ہوتی ہے نا……
کہنہ مشق شاعر: اس میں کوئی شک نہیں لیکن آج کی نئی نسل بہت جلدی میں ہے۔ابھی شعر لکھا نہیں ہوتا ہے اور شام ہوتے ہوتے سوشل میڈیا کی گلیاروں میں دربدر پھرتے نظرآتے ہیں۔اتنی بھی فرصت نہیں کہ شعر کی نوک پلک سنوارنے کے لئے کسی استاد کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کرتے۔
نوعمرتخلیق کار:قبلہ، میرے خیال میں یہ زیادتی ہے کہ ایک شخص کی غلطی کی سزا پوری نسل کو دی جائے۔رہی بات استاد کی۔کہاں ہیں ایسے دانا وبینا استاد،جن کے سامنے ہم زانوئے تلمذ تہہ کرکے فخر سے کہہ سکیں کہ ہم فلاں استاد کے شاگرد ہیں۔
کہنہ مشق شاعر: کیوں کیا تمہارے شہر میں کوئی ایسا سخنور نہیں ہے جونئی نسل کی رہبری کرسکے۔
نو عمر تخلیق کار:کئی بڑے نام تو ضرور ہیں لیکن جب ان کے سامنے جاتے ہیں تو ان کا پہلا سوال یہی ہوتا ہے کہ کیا یہ تمہارا اپنا کلام ہے؟
کہنہ مشق شاعر:ایسا سوال کرنا فطری ہے۔ اس میں ناراض ہونے کی کیا بات ہے۔
نوعمر تخلیق کار: جناب ناراض ہونے کا معاملہ نہیں ہے،جب آپ پہلی ہی ملاقات میں شک کی نگاہ سے دیکھیں گے تو ہمت جواب دے جاتی ہے۔ اب اگر کسی نے ازراہ انسانیت شفقت سے دیکھ بھی لیا تو وہ پہلے اپنی لابی میں شامل ہونی کی شرط رکھتا ہے۔پھر کہیں بات سننے کے لئے تیار ہوتاہے۔
کہنہ مشق شاعر: اچھا تو ایسا معاملہ ہے۔اب اگر لابی میں شریک نہیں ہوئے پھر ……
نوعمر تخلیق کار: پھر جناب بھری محفلوں میں یہ شوشے پھیلاتے ہیں کہ نئی نسل سرقہ کرتی ہے۔
کہنہ مشق شاعر:یہ تو سراسر زیادتی ہوئی۔
نوعمر تخلیق کار: آپ تو جاتنے ہیں کہ سرقہ کا الزام کس کس شاعر پر نہیں لگا ہے۔یہاں تک کہ حال ہی میں اشعر نجمی صاحب نے اپنے رسالہ کا”سرقہ نمبر“ بھی شائع کردیا ہے۔
کہنہ مشق شاعر: اس کا مطلب تم رسائل پڑھتے ہو۔
نوعمرتخلیق کار: جی۔رسائل کے ساتھ ساتھ انٹر نیٹ پر ملنے والا مواد بھی پڑھتا ہوں۔
کہنہ مشق شاعر: بہت اچھا۔شاعری میں کس کو پسند کرتے ہو۔
نوعمرتخلیق کار: جونؔ
کہنہ مشق شاعر: میاں شاعر کا پوچھ رہا ہوں مہینے کا نہیں …
نوعمر تخلیق کار: قبلہ آپ نے جونؔ ایلیا کا نام سنا ہے۔
کہنہ مشق شاعر:(کچھ دیر توقف کرتے ہوئے) ہوگا کوئی شاعر ……مجھے کیا کرنا ہے۔مجھے صرف غالب اور اقبال پسند ہیں۔
نوعمرتخلیق کار: جناب غالب اور اقبال سے کوئی کافر ہی انکار کرسکتا ہے لیکن جون البیلا شاعرہے۔نئی نسل کا آئیڈیل شاعر……
کہنہ مشق شاعر: ردیف قافیہ جوڑنے سے کوئی بڑا شاعر نہیں ہوتا۔
نوعمرتخلیق کار:(طیش میں آکر جواب دیتے ہیں)اب آپ حدپارکررہے ہیں۔کاش آپ نے جون ؔکو پڑھا ہوتاتو شاید آپ کا نظریہ بالکل مختلف ہوتا۔
کہنہ مشق شاعر:میاں غصہ تھوکو۔نئی نسل میں یہی مسئلہ ہے کہ وہ جلدہی طیش میں آجاتی ہے۔
نوعمرتخلیق کار: آپ نے بات ہی ایسی کی۔
کہنہ مشق شاعر: یہ بتاؤ۔تمہاری عمر کتنی ہے۔
نوعمرتخلیق کار: چوبیس سال۔
کہنہ مشق شاعر:بس اتنی ہی۔
نوعمر تخلیق کار: اب کیاآدھار کارڈ دکھاؤں محترم۔
کہنہ مشق شاعر:(ہنستے ہوئے) برخوردار،جتنی میری شعرگوئی کی عمر ہے اتنی عمر پانے کے لئے تم کو ابھی نصف صدی تک کا سفرطے کرناہوگا۔
نوعمر تخلیق کار:قبلہ مجھے ایک بات سمجھائیں۔شاعری اور عمر کا آپس میں کیا تعلق ہے۔
کہنہ مشق شاعر: میں نے پہلے ہی تم سے کہاتھا کہ شاعری کرنے کے لئے ایک عمر درکارہوتی ہے۔
نوعمرتخلیق کار: بے شک عمر درکارہوتی ہے لیکن اس کا قطعی یہ مطلب نہیں کہ کم عمر ی میں شاعری نہیں ہوتی۔ادبی تاریخ ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہے کہ بیس بائیس سال میں لوگوں نے تہلکہ مچادیا۔شرط صرف یہی ہے کہ وہ فطری شاعر ہو،بس۔
کہنہ مشق شاعر:تمہاری بات میں بھی دم ہے۔لیکن اس طرح کی مثالیں قدیم زمانے میں ہی ملتی ہین۔آج کل تو بس سوشل میڈیا نے تباہی مچادی ہے۔
نوعمرتخلیق کار: آپ پھر موضوع کو گھماپھراکر وہیں لے آئے جہاں نئی نسل کے متعلق صرف خدشات ظاہر کئے جاتے ہیں۔
کہنہ مشق شاعر: اس طرح کی تلوار ہمیشہ نئی نسل کے سرپر لٹکتی رہے گی۔ایسا ہر زمانے میں ہواہے اور آگے بھی ہوگا۔
نوعمر تخلیق کار:آپ کو ایک مزے کی بات سناتاہوں۔آپ کے زمانے میں اگرکوئی سرقہ کرتاتو بہت مشکل سے پکڑاجاتا لیکن آج آپ ”گوگل بابا“کی مدد سے ایک ہی کلک سے چور کو پکڑ سکتے ہیں۔اب ایمانداری سے بتائیں کہ آج کا دور خطرناک ہے یا قدیم دو ر۔
کہنہ مشق شاعر:(کچھ دیرسوچتے ہوئے) قدیم دور میں تو سرقہ پکڑنا یقینا بہت مشکل ہوتا تھا۔
نوعمر تخلیق کار: اب بتائیں جب ہر دور میں اس طرح کے مسائل رہے ہیں تو پھر سزا ہم لوگ ہی کیوں بھگتیں۔ طرہ یہ ہے کہ سرقہ جب تک ثابت نہ ہو سرقہ نہیں کہلاتاہے۔
کہنہ مشق شاعر:بات تو صحیح ہے لیکن ایک بات بتاؤں۔براتو نہیں مانوگے۔
نوعمرتخلیق کار: جناب آپ کچھ بھی کہیں، آپ مجھے صابر ہی پائیں گے۔
کہنہ مشق شاعر: برخوردارجب تم لوگ شاعری پڑھتے ہونا۔کبھی کبھار شعر کی پرواز اتنی اونچی ہوجاتی ہے تو دل میں ایک شک سا ضرورپید ا ہوتا ہے کہ اتنی کم عمر میں اتنا معیاری شعر لکھنا کیسے ممکن ہے۔
نوعمرتخلیق کار: فاتحانہ مسکراہٹ کے ساتھ۔یہی جادوتو ہم نے جونؔ ایلیا سے سیکھا ہے۔
کہنہ مشق شاعر: جو نؔ کے ساتھ دیگر شعراء کا بھی مطالعہ جاری رکھو۔
نوعمر تخلیق کار: قبلہ آپ بے فکر رہیں،نئی نسل آپ کے مشورے پر ضرو ر عمل کرے گی۔
کہنہ مشق شاعر: ٹھیک ہے اب زمانہ ہی طے کرے گا کہ مستقبل میں کون کون آگے بڑپائے گا۔
نوعمرتخلیق کار: قبلہ ایک کہنا چاہوں گا،پھر آپ کی زحمتیں تمام۔
کہنہ مشق شاعر: ارشاد
نوعمرتخلیق کار: آپ ہم پر اعتماد رکھیں،شک کی نگاہو ں سے نہ دیکھیں۔آپ کو ہماری نگاہوں میں عزت وتوقیرملے گی۔
کہنہ مشق شاعر:اگر ایسا ہے تو ہمارے دلوں میں نئی نسل کے حوالے سے ہمیشہ اپنائیت ملے گی۔