سمارٹ موبائل فونوں سے پہلی کی زندگی کو یاد کرتے ہوئے آئے ہم اس دن کی طرف نظر دوڑائیں گے جب ہم موبائل فونوں کے بغیر اپنے دوستوں کے ساتھ طویل گفتگو کیاکرتے تھے خاص کر اگر ہم اپنے بچپن کی بات کریں تو وہ دن بلائے نہیں بولے جاسکتے کیوںکہ اُس وقت موبائل فونوں کی جگہ ہمارے دوست ہمارے ساتھ رہتے تھے جو ہمارے ساتھ چائے نوش کرتے اور ایک دوسرے کے ساتھ ہنسی مذاق کیا کرتے تھے ۔ تاہم جب ہم آج کے دور کو دیکھتے ہیں تو ہم اپنے ساتھ دوستوں اور رشتے داروں کے بدلے اپنے موبائل فون دیکھتے ہیں ۔لوگ سچ ہی کہتے ہیں کہ موبائل فونوں نے کے آنے کے بعد لوگوں کی اجتماعی زندگی انفرادی زندگی میں تبدیل ہوئی اور رشتوں کی مٹھاس کم ہوگئی ۔ بیسویں صدی کے ابتدا میں ہی لوگوں میں یہ کہاوت مشہور تھی کہ” دنیا جلد ہی ہماری جیب میں ہوگی “شائد لوگ اسی کی بات کیا کرتے تھے ہم نے بھی اکثر اپنے بڑوں سے یہ بات سنی ہے کہ جدید دور میں دنیا سمٹ جائے گی اور لوگ گھروں میں بیٹھ کر ہی دنیا کی سیر کرسکیں گے ۔ شائد ہمارے بزرگ اسی نئے دور کی بات کیا کرتے ہوں گے جب ہر ایک کی جیب میں سمارٹ فون ہے جس میں پوری دنیا سمائی ہوئی ہے ۔ تاہم یہ دور انٹرنیٹ کا دور ہے جسمیں سمار ٹ فون ایک ڈیجیٹل ہتھیار کے طور پر کام کرتا ہے جو لوگوں کی ذہنیت پر اثر انداز ہورہا ہے اور طرز زندگی تبدیل کررہا ہے ۔ انڈین جرنل آف سائنس اینڈ ٹکنالوجی کے سروے کے مطابق سوشل میڈیا کے اثرات یہ بتاتے ہیں کہ سوشل میڈیا لوگوں کو تکلیف پہنچانے کا لائسنس دیتا ہے۔ اس سے لوگوں کے درمیان دوریاں بڑھ گئیں ہیں جس سے خاندانی قربت ختم ہوتی جارہی ہے اور یہ اب لوگوں میں خلفشار اور انتشار کا باعث بن رہا ہے ۔ اس انٹرنیٹ کے دور میں جہاں کئی معاملوں میں سہولیت ہوئی وہیں سائبر کرائم بھی بڑھ رہے ہیں ۔ آن لائن دھوکہ دہی ، سائبر فراڈ ، آن لائن دھمکیاں اور بلیک مالنگ کا ذریعہ بن گیا ہے ۔ اس پلیٹ فارم کو جہاں کووڈ کے دور میں ای لرننگ کے طور پر استعمال کیا گیا اور تعلیم کی فراہمی اور حصول میں اس نے کافی مدد کی وہیں اس کے کئی مضراثرات بھی سامنے آرہے ہیں خاص کر اس سے کئی جسمانی مسائل پیدا ہوئے جو صحت سے متعلق نقصان دن ثابت ہورہے ہیں ۔ انٹرنیٹ کی اور سمارٹ فون کی وجہ سے نوجوان سست ہورہے ہیں اور کام چوری ، ذہنی تناﺅ اور نیند کی کمی کا سامنا عام ہورہاہے ۔ موجودہ وقت میں سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر سب سے زیادہ استعمال ، وٹس اپ،فیس بک ، انسٹاگرام ، ٹویٹر وغیرہ ہیں جن پر سرگرمی کے ساتھ انسان ایک دوسرے کے ساتھ رابطے میں رہتا ہے ۔ان پلیٹ فارموں کے استعمال سے معلومات کو ایک دوسرے کے ساتھ بانٹنا ، نئی چیزوں کے بارے میںسیکھنا اور نئے نئے لوگوں کی تلاش کرنا وغیرہ سرگرمیاں جاری رہتی ہیں جبکہ سوشل میڈیا ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جس پر سب سے زیادہ پروپگنڈا ہوتا ہے اور غیر تصدیق شدہ خبریں اور جعلی خبریں پھیلتی رہتی ہیں۔ ہمارے ملک میں بھی اس کا رجحان بڑھ رہاہے اور نوجوان زیادہ سے زیادہ اس کا استعمال کررہے ہیں عام لوگوں کا تاثر ہے کہ 9سے 17سا ل تک عمر کے بچے اور نوجوان وشل میڈیا کے عادی بن چکے ہیں جبکہ اس بات کا بھی انکشاف ہورہا ہے کہ کم عمر کے بچے موبائل فون کا بے تحاشہ استعمال کررہے ہیں اور ان کی جسمانی سرگرمیاں محدود ہورہی ہیں جس سے ان کی صحت پر بُرا اثر پڑرہا ہے ۔ اب اگر ہم بات کریں شدت پسند عناصر کی تو معلوم ہوا ہے کہ انتہاءپسندی کے فروغ کےلئے سوشل میڈیا کا زیادہ استعمال کیا جارہا ہے کیوں کہ سوشل میڈیا پر منفی پروپگنڈا پھیلانا سب سے آسان ہے اور منفی پروپگنڈا سے نونہالوں کے زہنوں کوتبدیل کیا جارہا ہے جو کہ اب ایک ہتھیار کے طور پراستعمال کیا جارہا ہے ۔ ذہن سازی کےلئے سوشل میڈیاایک موثر اور طاقت ور پلیٹ فارم مانا جاتا ہے اس لئے اس سوشل میڈیا پر گروپس بناکر ایسے لوگ کم عمر نوجوانوں کو اپنے مقاصد کےلئے استعمال کررہے ہیں۔ انتہا پسندوں اور وائٹ کالر دہشت گردوں کی جانب سے سوشل میڈیا پر ذہنوں کو ریڈیکلائز کرنے کے لیے انفارمیشن وارفیئر کا ایک نیا ہتھیار استعمال کیا جا رہا ہے جسے ڈیجیٹل ریڈیکلائزیشن کے نام سے روزانہ کی بنیاد پر تمام پلیٹ فارمز پر ٹوئٹر اسپیسز، کلب ہاو¿سز اور گروپ چیٹس کے ذریعے کیا جا رہا ہے۔ ایک تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ کلب ہاوس ایپ کے ممبران کی کل تعداد مئی 2020میں 1500سے تھی جنہوں نے اس کو سبسکرائب کیا تھا اور جنوری 2021میں یہ بڑھ کر 20لاکھ کے قریب ہوئی اور سال 2022میں 6ملیں ہوگئے جن میں سے 20لاکھ بھارتی سبسکرائبرس ہیں ۔اور اس پلیٹ فارم کو مذہب، شناخت ،نسل اور قومیت کے خطرے پروپگنڈا چلانے کےلئے استعمال کیا جاتا ہے ۔ جبکہ اس کے ذریعے مذہبی شدت پسندی کو بھی فروغ دیا جارہا ہے اور کم علم نوجوانوں کو متاثر کرنے کےلئے مذہبی دلیل فراہم کی جاتی ہے اور آہستہ آہستہ ان کو ذہنی کو منفی کام انجام دینے کےلئے تیار کیاجارہا ہے ۔ اب اگر ہم بات کریں آج کل کے انٹرنیٹ اور سمارٹ فونوں کے دور کی تو اس بات سے بھی قطع نظر نہیں کیا جاسکتا ہے کہ آج کے دور میں انٹرنیٹ کے بغیر زندگی گزارنا آسان نہیں ہوگا اور سمارٹ فون اب زندگی کا ایک حصہ بن گیا ہے لیکن سماج کے ذی شعور افراد خاص کر والدین کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اپنے بچوں کی حرکات وسکنات پر نظر رکھیں اور وہ موبائل فون پر کیا سرگرمیاں انجا م دیتے ہیں اس کی خبررکھیں تاکہ کوئی ان کے بچوں کوغلط راہ دکھا کر مستقبل کےلئے پریشانی کا باعث نہ بنے۔
The Smile that Defined You, A Tribute to Prof. Ravina Hassan
I have been more like an Englishman than a Frenchman here while attempting this tribute. The English man observes E.M...
Read more