ہیرا دکن کا چھین کے پہلو میں رکھ لیا محمد سلیم سالک کشمیر عظمیٰ کی یادیں میرے لئے ایک اثاثہ ہے ۔
اس لئے جب بھی میں کشمیر عظمیٰ کے متعلق سوچتا ہوں تو مجھے ہفتہ روزہ ”کشمیر عظمیٰ “ کے وہ دن یاد آتے ہیں جب میں نے تازہ تازہ صحافت کی وادی میں قدم رکھا تھا ۔ایک بار خالد کفایت ( ملیر کوٹلہ ) کا ایک مضمون ” غزل کیا ہے “ کا میں پروف پڑھ رہا تھا کہ ایک لفظ پر اٹک گیا۔ میں اندر اندر سوچ رہا تھا کہ اگر میں نے جاوید آذر صاحب سےاس لفظ کے متعلق پوچھا تو وہ طعنہ دیں گے کہ تم نے اردو میں خاک ایم اے کیا ہے ۔میری بے چینی کو بھانپتے ہوئے جاوید صاحب گویا ہوئے کہ سالک کیا بات ہے ۔میں نے ڈرتے ڈرتے پوچھا کہ سر ”ققنس “ کے کیا معنی ہے ۔میراسوال سن کر مسکراتے ہوئے کہنے لگے ۔”ققنس “قصے کہانیوں کی ایک خوبصورت چڑیا ہے جس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ اپنی قسم کی ایک واحد چڑیا تھی جو 500یا 600 سال تک زندہ رہنے کے بعد اپنی ارتھی کی چتا پر اپنے آپ کو جلا کر خاک کر دیتی تھی اور جب راکھ پر بارش برستی تھی تو اس راکھ سے انڈاپید اہوتا تھا اس میں سے پھر ققنس پیدا ہوتا تھا اس کی چونچ میں تین سو ساٹھ سوراخ ہوتے ہیں ۔میں پہلی بار” ققنس“ کے بارے میں سن رہا تھا اس لئے اندر ہی اندرخوشی محسوس ہوئی کہ کبھی کبھار کسی لفظ کے سیاق و سباق میں ایک کہانی پوشیدہ ہوتی ہے ۔جاوید صاحب کا ایک اصول ہے وہ بات کی تہہ تک جاتے ہیں اور دلچسپ انداز سے سمجھاتے ہیں ۔ اس میں دو رائے نہیں کہ جاوید آذر صاحب مجلس ساز شخصیت ہیں ۔جب بھی ادیب یا شاعر آذر صاحب سے ملاقات کے لئے آتے ہیں توباتوں باتوں میں علم وادب کے دفتر کھل جاتے ہیں ۔ایک بار پروفیسر مخمور بدخشی صاحب تشریف لائے ۔جاوید صاحب احتراماً کھڑے ہوگئے ۔بدخشی صاحب کی باغ و بہارشخصیت کے چرچے اسلامیہ کالج میں بہت مشہورہیں ۔ایک دوادبی لطیفہ کے ۔ایل۔ نارنگ ساقی نے اپنی کتاب ”ادیبوں کے لطائف“ میں بھی شامل کئے ہیں ۔پروفیسر صاحب کا پہلا افسانوی مجموعہ ”نیل کنول مسکائے “ کی وجہ تسمیہ بھی عجیب و غریب ہے ۔کتاب کے آخر پر کچھ بے ترتیب جملے درج ہیں ۔جس کو پس نوشت کے زمرے میں رکھا جاسکتا ہے ۔ ”مصنف نے کہانی لکھی ۔ کاتب نے کتابت کی۔ اور نہ صرف ترتیب میں اس کا نام آیا بلکہ اسی کہانی کا عنوان کتاب کا نام بھی قرار پایا۔۔ لیکن!۔۔۔جب کتاب پریس کو جارہی تھی ،تو کہاگیا ۔۔۔۔۔ خبردار ! جو یہ کہانی شائع ہوئی! آخری الفاظ مصنف کے اپنے ہی الفاظ تھے“۔ یہ عجیب بات ہے کہ جس کہانی پر افسانوی مجموعے کا عنوان رکھا گیااور وہی کہانی مجموعے میں ندارد۔ شاید یہ اردو ادب میں پہلی بار ہوا ہوگا ۔ میں نے بارہا پروفیسر موصوف سے اس بارے میں جانکاری چاہی لیکن انہوں نے اس کا کوئی خاطر خواہ جواب نہیں دیا بلکہ اپنی شگفتہ اورمزاحیہ گفتگو سے اس کے محرکات پر خوبصورتی سے پردہ ڈالتے رہے ۔ بہر حال جو بھی محرکات اس کے پیچھے رہے ہوں لیکن یہ بات دلچسپی کی باعث ضرور ہے کہ مجموعے کا عنوان ایسی کہانی پر رکھا گیا ہے جو اس مجموعے میں شامل نہیں ہے۔ویسے بدخشی صاحب کی بذلہ سنجی اور حاضر جوابی کو دیکھ کر ایسے کارنامے ہونا بعید از قیاس نہیں ۔ بدخشی صاحب کا یہ افسانوی مجموعہ اردو کے معروف و مشہورمحقق اور ماہرلسانیات پروفیسر محی الدین قادری زور نے اپنے ادارہ ”ادارہ ادبیات اردو “ حیدر آباد سے شائع کرایاتھا۔کمال کی بات یہ ہے کہ بدخشی صاحب ان دنوں ایم ،اے کے طالب علم تھے اور پروفیسر موصوف کی دریادلی اور نوآموز کے تئیں حوصلہ افزائی کاعالم دیکھیں کہ انہوں نے کتاب کا دیپاچہ لکھنے ،کاغذ خریدنے ، پُروف پڑھنے اور پھر کتاب چھپ جانے کے بعد اس کی فروخت اور اس پر تبصرے چھاپنے کے ہر مرحلہ پرخود نگرانی کی ۔ زور صاحب نے کتاب میں شامل پیش لفظ میں بدخشی صاحب کی افسانہ نگاری کے متعلق یوں لکھا ہے :۔ ”مخمور حسین کے افسانے پڑھ کر مجھے اندازہ ہوا کہ یہ بہت رواں لکھتے ہیں اور ہر موضوع پر افسانوی انداز میں انشاءپردازی کرتے ہیں۔میں نے ان سے خواہش کی کہ اپنے افسانے مجھے دکھائیں۔ چناچہ انہوں نے افسانے لادئے۔ میں نے حیرت سے دیکھا کہ انکی گفتگو اور اندازِ طبیعت کے خلاف انکے افسانوں میں مسکراہٹیں کم اور طنز کاری زیادہ ہے۔ انہوں نے ہنستے چہروں سے زیادہ افسردہ دلوں کو پیش کیا ہے اور ہوس کاروں اور مکاروں پر بھر پور طنز کرنے کی کوشش کی ہے “۔ زور صاحب نے حوصلہ افزائی کی اس روایت کو بدخشی صاحب تک ہی محدود نہیں رکھا بلکہ انہوں نے قاضی غلام محمدکے شعری مجموعہ ” حرف شیریں “ اور حامدی کاشمیری کی تنقیدی کتاب ” ناصر کاظمی کی شاعری “ کوبھی ادارہ ادبیات اردو حیدرآباد سے شائع کرایا ۔ انہوں نے کشمیرمیں رہ کر قلیل مدت میں ہی یہاں کے لوگوں کے دل جیت لئے ۔ پروفیسر محی الدیں قادری زور کی وفات کے بعد کلچرل اکادمی نے ”زور نمبر “ ترتیب دیا جس میں ملک کے نامور ادیبوں کے مضامین شائع کئے گئے ۔پروفیسر مخمور بدخشی نے ” ڈاکٹر زور ۔۔استاد کے روپ میں “ ایک زبردست مضمون تحریرکیا ہے ۔جس میں انہوں نے کئی دلچسپ واقعات لکھے ہیں ۔ایک جگہ مخمور صاحب لکھتے ہیں کہ ” لسانیات ڈاکٹر صاحب کا پسندیدہ موضوع تھا اور انہوں نے بہت کوشش کی تھی کہ ہم میں سے کوئی طالب علم اس موضوع میں دلچسپی لے اور اس پر کچھ کام کرے ۔میرے متعلق وہ بخوبی جانتے تھے کہ مجھے اس موضوع سے انتہائی نفرت ہے لیکن اس سلسلے میں ان کی توقعات چند اور طالب علموں سے بھی وابستہ تھیں اور ان کی شدید خواہش تھی کہ وہ انہیں پی ۔ایچ ۔ڈی کے سلسلے میں اسی مضمون پرکام کرنے کے لئے تیار کریں ۔لیکن ایک روز ان کی ان تمام خواہشات اور توقعات پر پانی پھیر گیا ۔بات یہ ہوئی کہ ایک روز کلاس میں لسانیات کے مقاصد ،فوائد اور تاریخ پر لیکچر دینے کے بعد انہوں نے ہم کو اس سلسلے میں ”ہندوستانی لسانیات“ ،جس کے مصنف خود ڈاکٹر صاحب ہی تھے ،کا پہلا باب پڑھنے کا مشورہ دیا اور یہ بھی کہا کہ جو بات سمجھ میں نہ آئے وہ کل پوچھ لیں ۔دوسرے روز جب ڈاکٹر صاحب ہماری کلاس میں آئے تو سب سے پہلا سوال جو انہوں نے ہم سے کیا ۔وہ یہی تھا کہ ”ہندوستانی لساینات“ کا پہلا باب پڑھ کر آئے ہیں یا نہیں ۔اور کیا کوئی بات سمجھ میں آنے سے تو نہ رہی ؟ جواب میں ایک طالبہ کھڑی ہوگئیں ۔ سرچند باتیں سمجھ میں نہیں آئیں ۔ کون سی باتیں سمجھ میں نہیں آئیں ۔ سر ایک جگہ آپ نے لکھا ہے کہ’ گوبیلو نے اس علم کی کماحقہ تعریف کی ہے “۔سر یہ ”کماحقہ “ کیا ہوا ؟ اور دوسری جگہ آپ لکھتے ہیں ۔”جس طرح ایک ماہر نباتات پھولوں کا تجزیہ کرتا ہے “ ۔سر ،اس تجزیہ کے معنی بھی سمجھ میں نہیں آئے ۔ اس وقت میں جماعت میں آخری قطار میں بیٹھا تھا۔میں نے دیکھا کہ ڈاکٹر صاحب کی نگاہیں مجھ پر جمی ہوئی ہیں اور یہ نگائیں مجھ سے صرف سوال کررہی ہیں ۔” کیا آپ ایم اے اردو کے طالب علم ہیں ۔؟ ابھی میں ڈاکٹر صاحب کی نظروں کا مطلب ہی سمجھنے کی کوشش کررہاتھا کہ ایک اور طالبہ کھڑی ہوگئیں اور جن الفاظ کے معنی اس نے ڈاکٹر صاحب سے جاننے چاہئے وہ یہ تھے ۔احیائے علوم اورتقابلی پہلو ۔ ڈاکٹر صاحب نے ان تمام الفاظ کے معنی تو بتادئے لیکن لیکچر ختم ہونے کے بعد جب میں ان کے کمرے میں گیا تو مجھے اچھی طرح سے معلوم ہوا کہ وہ ہم سے مایوس ہوچکے ہیں ۔“ زور صاحب نے کشمیر میں آتے ہی یہاں کی تاریخ کا مطالعہ شروع کیا ۔ تاریخی مقامات کی تلاش میں سرگرداں رہتے ۔ ۔مزارِشہدا کی خاک چھانتے رہتے جیسے کسی گمشدہ چیز کی تلاش ہو۔کشمیر کی کلاسیکل شاعری کے اتنے دلدادہ تھے کہ یہاں کے قدیم ادباء،شعراءاور مورخوں کے کارناموں کو اُجاگر کرنے لئے”داستان ادب کشمیر “ کے عنوان سے ایک کتاب لکھنے کا بیڑا بھی اُٹھایا تھا ۔اس سلسلے میں انہوں نے کا فی مواد بھی جمع کیاتھا ۔ان کے دل میں کشمیری زبان سیکھنے کاشوق بھی تھا۔چناچہ اپنے مکان کے آس پاس چھوٹی چھوٹی بچیوں اوربچوں کو جمع کرکے انہیں کشمیری میں بولنے کو کہتے اور مٹھائی بانٹ کر ان کی حرکات و سکنات سے محظوظ ہوتے تھے ۔انہوں نے کشمیری کے کئی فقرے سیکھ بھی لئے تھے۔اہل کشمیر کی فنی اور عملی صلاحیتیوں کی داد دیتے رہتے تھے ۔ جب زور صاحب کا آخری وقت آیا تو ان کے چاہنے والوں کا تانتا باندھا رہا ۔ ہر شخص کی آنکھیں نم تھیں ،ہر کوئی اس بات سے بے خبر کہ وہ کیوں رورہا ہے ۔ زور صاحب کا خلوص ہر دل میں اتنی جگہ بناچکا تھا کہ جیسے زور صاحب حیدرآباد کے نہیں بلکہ کشمیر کے آبائی باشندہ تھے ۔کشمیر کے معروف محقق محمد یوسف ٹینگ زور صاحب کے جنازے کی تصویر کشی یوں کرتے ہیں ۔ ” 24ستمبر 1962کی رات کو سرینگر کی ادب نواز آغوش میں زور صاحب ابدی نیند سو گئے۔جس وقت ان کا جنازہ اٹھا تو اس کے پیچھے پیچھے ایک طرف خالد کشمیر (بخشی غلام محمد) اور ان کی کابینہ کے وزراء، اعلیٰ حکام ، یونیورسٹی کے وائس چانسلر سردار پانیکراور دیگر اساتذہ اور دوسری طرف ادیبوں ،شاعروں اور زندگی کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے ہزاروں نفوس کی آنکھیں بھی اشک با رتھیں ،جیسے اس انبوہِ کشمیر کا کوئی محبوب چھن گیا ہو۔ تلسی باغ ( سرینگر ) میں ان کی قیام گاہ سے لے کر خانیار شریف میں ان کی آخری آرام گاہ تک یہ مجمع بڑھتا ہی گیا۔ “ ڈاکٹر زور کی آخری آرام گاہ پائینِ شہر کے ایک پرانے محلے خانیار میں زیارت شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ ،جسکو عرفِ عام میں زیارت ِپیر دستگیر صاحب کہتے ہیں،کے صحن میں واقع ہے جہاں روزانہ ہزاروں کی تعداد میں فرزندانِ توحید حاضری دیتے ہیں۔ اس زیارت شریف کے عقب میں داخل ہوتے ہی پہلی نظراس عاشق اردوکی لوحِ مزار پر پڑتی ہے….!! دکن کے لوگوں کو یہ گلہ ہے کہ زور صاحب کو کشمیر کی مٹی اتنی راس آگئی کہ انہوں نے ابدی آرام کے لئے یہاں کی زمین کوہی منتخب کیا ۔لیکن قانونِ قدرت کو کون ٹال سکتا ہے کہ انسان جس مٹی سے تخلیق ہوتا ہے اس کو وہیں سپر دخاک کیا جاتا ہے ۔ آخر پر دکن کی معروف شاعرہ بانو طاہر سعید کا ملال بھرا قطعہ ملاحظہ فرمائیں ۔ اے ارضِ کاشمیر یہ کیساستم کیا ہیرا دکن کا چھین کے پہلو میں رکھ لیا ہم رورہے ہیں خون کے آنسو خبربھی ہے تو خوش ہے ”کوہِ نور“ ہمارا تجھے ملا