ایک ہنگامہ پپا ہے مجھ میں
محمد سلیم سالک
ہفت روزہ ”کشمیر عظمیٰ“ کا ”ادب نامہ “ ادبی حلقوں میں کافی مقبولیت حاصل کرچکا تھا۔اس لئے ”ادب نامہ “ کے معیار سے جاویدآذر صاحب کبھی بھی سمجھوتہ کرنے کے لئے تیارنہیں تھے ۔جاوید صاحب اکثرکہا کرتے تھے کہ جب انسان ایک بار کمپرومیز کرتا ہے تو پھر معیار قائم کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے ۔ایک دن میں کشمیر عظمیٰ کے دفتر میں بیٹھا تھا کہ پروفیسر قدوس جاوید صاحب کا فون آیا ۔ سلام و دعا کے بعد انہوں نے اگلے دن شعبہ اردو میں حاضری دینے کے لئے کہا ۔صدر شعبہ کے فرمان کی پاسداری کرتے ہوئے اگلے دن جب میں پروفیسر قدوس صاحب کے کمرے میں داخل ہوا تو وہاں پہلے ہی ایک صاحب بیٹھے ہوئے تھے ۔پروفیسر صاحب نے مجھے مہمان سے تعارف کراتے ہوئے کہا کہ یہ اردو کے معروف فکشن نگار مشرف عالم ذوقی صاحب ہیں۔ذوقی صاحب ایک ڈاکومینٹری بنانے کے سلسلے میں کشمیرآئے ہیں ۔ان کو ایک ایسا بندہ چاہئے جو ان کی معاونت کرے ۔اس لئے میں نے تم کو بلا یا ہے ۔میں نے ہاں ہوں میں جواب دیتے ہوئے کہا ٹھیک ہے سر !!
مشرف عالم ذوقی صاحب نے مجھ سے مخاطب ہوکر کہا کہ سالک صاحب ،آپ سری نگر کے رہنے والے ہیں ۔اس لئے ہمیں یہاں کے ادیبوں سے ملنے میں آسانی ہوگی۔میں نے اثبات میں سر ہلاتے ہوئے جواب دیا ”آپ بے فکر رہیں, جہا ں آپ کو جانا ہوگا ،میں آ پ کے ساتھ ہوں ۔“اسی اثنا میں ایک ریسرچ سکالر برفی کاڈبہ لے کر حاضر ہوا۔پروفیسر صاحب نے لڈو لیتے ہوئے کہا کہ بھائی کس خوشی میں لڈو بانٹے جارہے ہیں ۔ریسر چ اسکالر نے جھجکتے ہوئے کہا کہ سرمیری شادی ہوگئی ہے ۔ذوقی صاحب نے مسکراتے ہوئے کہاکہ برخودار شادی خود ایک لڈو ہی ہے جو کھائے پچھتائے اورجونہ کھائے وہ بھی پچھتائے ۔اس جملے پر سب ہنسنے لگے ۔چائے کا دور چلااور میں نے ذوقی صاحب سے کہا کہ آپ کاافسانہ ”دادا اور پوتا“ مجھے بہت ہی پسند ہے ۔آپ نے جس فنکاری سے جنریشن گیپ کے موضوع کو برتا ہے وہ صرف آپ کا ہی کمال ہوسکتا ہے ۔میری بات سن کر ذوقی صاحب میری طرف متوجہ ہوکر کہنے لگے کہ کوئی اور افسانہ بھی پڑھا ہے ۔میرے منہ سے برجستہ ”کاتیائن بہنیں“نکلا۔بس پھر کیاتھا ذوقی صاحب اپنی کرسی سے کھڑے ہوئے اور میرے نزدیک بیٹھ گئے ۔میری سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ میں نے ایساکیا کہہ دیا کہ وہ میرے نزدیک بیٹھ گئے۔پھر افسانوں پرخوب باتیں ہوئیں ۔انہوں نے مجھ سے کشمیر کے اردو افسانہ نگاروں کی باپت پوچھا ۔میں نے حسب استطاعت جواب دینے کی کوشش کی ۔
متواتر دو دن ذوقی صاحب کے ساتھ رہنے کے بعد معلوم ہوا کہ ذوقی صاحب کشمیر کے حالات سے بخوبی واقف ہیں ۔ان کی باتیں سن کر اندازہ ہواکہ ایک ناول نگار اور افسانہ نگار کا مشاہدہ و مطالعہ کتنا وسیع ہونا چاہئے ۔ادبی و سیاسی معاملات پر خوب باتیں ہوئیں ۔لابی ازم کے ناسور کی وجہ سے ذوقی صاحب بہت رنجیدہ معلوم ہوئے ۔کھلے ذہن سے گفتگو کرنے کے بعد میرے دل میں ذوقی صاحب کے تئیں محبت پیدا ہوگئی ۔جب ذوقی صاحب واپس جانے لگے تو بڑی اپنائیت سے کہنے لگے کہ سالک خوب مطالعہ کرو۔مطالعہ کرنے سے راہیں روشن ہوجاتی ہیں ۔یہ کہتے ہوئے ایک افسانوی مجموعہ ”ریس کورس کے گھوڑے “اپنے دستخط کے ساتھ عنایت کیا ۔ذوقی صاحب کے واپس چلے جانے کے بعد جب میں گھر پہنچا تو میں نے دوبارہ ”کاتیائن بہنیں “افسانہ پڑھا ۔ ”کاتیائن بہنیں “ کی ایک منفرد بات یہی ہے کہ اس افسانے کو پڑھنے سے پہلے قاری کو ایک تمہید ملتی ہے جس سے افسانے کے بین السطور کو سمجھنے میں کافی مدد ملتی ہے ۔آئیے آپ بھی تمہید سے کچھ آگاہی حاصل کریں ۔
”قارئین کرام! کچھ کہانیاں ایسی ہوتی ہیں جن کا مستقبل مصنف طے کرتا ہے لیکن کچھ کہانیاں ایسی بھی ہوتی ہیں جن کا مستقبل کہانی کے کردار طے کرتے ہیں۔ یعنی جیسے جیسے کہانی آگے بڑھتی جاتی ہے، اپنے مستقبل کے تانے بانے بنتی جاتی ہے اور حقیقت میں مصنف اپنے کرداروں کو راستہ دکھا کر خود پیچھے ہٹ جاتا ہے۔ ایسا اس کہانی کے ساتھ بھی ہوا ہے۔۔۔ اور ایسا اس لئے ہوا ہے کہ اس کہانی کا موضوع ہے۔۔۔ ’عورت‘۔۔۔ کائنات میں بکھرے تمام اسرار سے زیادہ پر اسرار، خدا کی سب سے حسین تخلیق۔ یعنی اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ وہ عورت کو جان گیا ہے تو شاید اس سے زیادہ ’گھامڑ‘ اور شیخی بگھارنے والا، یا اس صدی میں اتنا بڑا جھوٹا کوئی دوسرا نہیں ہو سکتا۔ عورتیں جو کبھی گھریلو یا ’پالتو‘ ہوا کرتی تھیں۔ چھوٹی اور کمزور تھیں۔ اپنی پر اسرار فطرت یا مکڑی کے جالے میں سمٹی، کوکھ میں مرد کے نطفے کی پرورش کرتیں۔۔۔ صدیاں گزر جانے کے بعد بھی وہ محض ’بچہ دینے والی ایک گائے ‘ بن کر رہ گئی تھیں مگر شاید صدیوں میں مرد کے اندر دہکنے والا یہ نطفہ شانت ہوا تھا۔ یا عورت کے لئے یہ مرد دھیرے دھیرے بانجھ یا سرد یا محض بچہ پیدا کرنے والی مشین کا ایک پرزہ بن کر رہ گیا تھا۔۔۔ تو یہ اس کہانی کی تمہید نہیں ہے کہ عورت اپنے اس احساس سے آزاد ہونا چاہتی ہے۔۔۔ شاید اسی لئے اس کہانی کا جنم ہوا۔۔۔ یا اس لئے کہ عورت جیسی پراسرار مخلوق کو ابھی اور ’کریدنے ‘ یا اس پر تحقیق کرنے کی ضرورت ہے۔۔۔ ہم نے ابھی بھی اس مہذب دنیا میں، اسے صرف مقدس ناموں یا رشتوں میں جکڑ رکھا ہے۔
قارئین کرام! یہ کوئی پریوں کی کہانی نہیں ہے۔ یہاں دو بہنیں ہیں۔۔۔ کاتیائن بہنیں۔ ممکن ہے ان بہنوں کے نام پر آپ کو ”لولیتا“، انناکارنینا“ اور ”مادام بواری“ کی یاد آ جائے مگر نہیں ! یہ دوسری طرح کی بہنیں ہیں۔ مردوں کی ’حاکمی‘ کو للکارنے والی ۔۔۔تو اس کہانی کا جنم کچھ ”خاص “ حالات میں ہوا ہے ۔“
پھر ایک طویل عرصے بعد ذوقی صاحب سے میری فون پر گفتگو ہوٸی ۔وہ دوبارہ کشمیر آنا چاہتے تھے ۔اس لۓ میں نے انہیں فکشن گلڈ کے توسط سے کشمیر آنے کی دعوت بھی دی ۔انہوں نے آنے کی حامی بھی بھری لیکن 2014 کے سیلاب کی وجہ نہیں آسکے۔
جب نے “اردو افسانہ ۔مزاج و منہاج ” بھیجی تو حوصلہ افزاٸی کرتے ہوۓ گویا ہوۓ “برخوردار تم نے وہ کام کردیا ہے جس کے لۓ تم ہمیشہ یاد رکھے جاٶ گے ” ۔ 2019 میں ایک مہینہ دہلی میں رہنے کا موقعہ ملا ۔وہاں کے ادیبوں اور شعرا سے ملنے کا اتفاق ہوا ۔ جب نے ذوقی صاحب کو اطلاع دی کہ میں آپ سے ملاقات کرنے کا خواں ہوں۔ انہوں نے بڑی خندہ پیشانی کے ساتھ خوش آمدید کہا لیکن شومٸی قسمت مجھے ہی کہیں جانا پڑا اورپھر ملاقات کا موقعہ نصیب نہیں ہوا ۔جس کا بہت انہیں افسوس تھا ۔فیس بک کے ذریعہ ذوقی صاحب سے روزانہ ملاقات ہوتی تھی۔ایک دن میں نے “فکشن کالم” کے تحت کشمیر کے افسانہ نگاروں کے متعلق تاثرات لکھنے کی فرماٸش کی ۔جب وہ تاثرات فیس بک ایپ لوڈ ہوۓ تو بڑا ہنگامہ برپا ہوا۔جس پر وہ پوسٹ ہی ڈیلیٹ کرنا پڑی ۔ان کے قلم میں ایک جادو تھا جو سرچڑھ کے بولتا تھا ۔ہمیشہ کنٹرورسی میں رہنے کے باوجود اپنا ایک نظریہ رکھتے تھے ۔جس کا اندازہ آپ کو” فکشن کالم “کے اس اقتباس سے بھی ہوگا ۔
”ادب کے لئے مکالمہ ضروری ہے ،مکالمہ خاموش ہوجائے تو ادب سو جاتا ہے یا ادب گم ہوجاتاہے ، تنقید ادب کا محاسبہ ہی نہیں کرتی بلکہ محاصرہ بھی کرتی ہے ،سمت کی نشاندہی کرتی ہے ،یہ اور بات ہے کہ پچھلی کچھ دہائیوں سے ہمارے نقاد حضرات اپنا مذہب اپنا مرتبہ بھول گئے ہیں َ“۔
مختصر طور پر مشرف عالم ذوقی کی شخصیت کا احاطہ آزاد گلوٹی کے اس شعر سے ہوتا ہے :
ایک ہنگامہ بپا ہے مجھ میں
کوئی تو مجھ سے بڑا ہے مجھ میں